بشر بیچارہ کرے بھی کیا‘ سمجھتا ہے کہ اپنے ارادوں پر قادر ہے‘ لیکن دیکھتے تو ہم یہ ہیں کہ ایک طرف ارادے مضبوط اور دوسری طرف جلد ہی بکھر گئے۔ غالب کا وہ کیا شعر ہے کہ غالب چھٹی شراب پراب بھی کبھی کبھی؍ پیتا ہوں روزِابر و شبِ ماہ تاب میں۔ یعنی اعلان یہ کہ ہم نے فلاں چیز چھوڑ دی لیکن آسمان کا کچھ رنگ بدلے تو ارادے پھسل گئے۔ یہ روزِ ابر والی بات صرف شاعری نہیں‘ شام کا وقت آنے کو ہوتا ہے تو دل میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ آفتاب نصف آسمان پہ ہو تو یہ کیفیت نہیں ہوتی‘ لیکن دن ڈھلنے کو ہو تو طبیعت میں ایک اداسی سی آنے لگتی ہے۔ اور جوں جوں سائے گہرے ہوں اُداسی بڑھتی جاتی ہے۔ اور پھر اس کیفیت کو مٹانے کے لیے من میں پتا نہیں کون کون سی خواہشات جنم لینے لگتی ہیں۔
مہتاب والی بات بھی بالکل سچ ہے۔ مہینے کا دورانیہ گزرتا ہے اور مہتاب کی روشنی شام کے اندھیرے میں کھلنے لگتی ہے تو دل میں کچھ ہونے لگتا ہے۔ جب مہتاب کی روشنی کا اثر سمندروں کے پانیوں پر پڑ سکتا ہے تو انسان کیا چیز ہے‘ اُس پر نہ پڑے گا؟ کیفیتِ شب عجیب چیز ہے اور یہی کیفیت ہے جس میں غالب اور خیام کی یاد آتی ہے اور دل کی تاریں ہلنے لگتی ہیں۔ خیال ماضی کی طرف جاتا ہے۔ بھولی بسری یادیں اُجاگر ہونے لگتی ہیں۔ گزرے لمحات زندہ ہو جاتے ہیں اور یہی سارا ماحول ہے جس میں راحتِ شب کی طلب پیدا ہوتی ہے۔ خیال اٹھتا ہے کہ کچھ شب گزارنے کا اہتمام ہو جائے۔ ایسے میں ارادے جو باندھے ہوں وہ اپنی جگہ لیکن دل ہی تو ہے‘ درد سے بھرنہ آئے کیوں۔ ہر ایک کوئی ولادیمیر لینن تو ہوتا نہیں۔ مشہور روایت ہے کہ وہ عظیم جرمن کمپوزر بیتھوون (Beethoven) کی پیانو کی موسیقی سننے سے انکاری ہوتے تھے کیونکہ اُن کا یہ کہنا تھا کہ یہ میوزک سن کے دل نرم ہو جاتا ہے۔ کلاسیکل موسیقی کے شوقین تھے لیکن اسی وجہ سے سنتے نہیں تھے کہ انقلابی تپش کہیں ٹھنڈی نہ پڑ جائے۔ ہم لینن‘ نہ بالشویک (Bolshevik) انقلاب کے منتظر۔
زندگی میں کتنی بار ارادے کیے کہ جسے صحیح راہ کہتے ہیں‘ اسی پر آ جائیں لیکن شام کو آسمان پر تارے دیکھے‘ میرے بنگلے میں جو پرانا بیر کا درخت ہے اس کے پتوں میں سے ہوا چلی تو تمام ارادے بکھرگئے۔ آواز دی کہ تھوڑا میز تو سجائیے‘ کچھ میوہ وغیرہ کا بندوبست ہو جائے۔ ملازمہ نے گھر جانا ہوتا ہے لیکن دھیمے انداز میں کہے دیتے ہیں کہ کچھ دیر ٹھہر جائیے اور اگر کوئی چیز میسر ہے تو کھانے میں بھی کچھ بہتری لائی جائے۔ بے رخی کی وجہ سے تہیہ کیا ہوتا ہے کہ فلاں نمبر کو ہرگز کال نہیں کرنی لیکن لمحاتِ شب گزرتے ہیں انگلیاں بے اختیار اسی نمبر کی طرف جاتی ہیں۔ آگے سے جواب وہی بے رخی والا ہوتا ہے لیکن اس وقت اَنا نام کی چیز دل میں نہیں رہتی۔ احساسات کہیں اور پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ اَنا پرستی روشنی کا سفر ہے‘ شام کے دھندلکے سایوں میں ایسی چیزیں بہت معمولی اور بیکار کی لگتی ہیں۔
غالب نے تو یہ کہا تھا کہ میری قسمت میں غم گر اِتنا تھا؍ دل بھی یارب کئی دیے ہوتے۔ لیکن یہاں بات ذرا مختلف ہے۔ التجا تو رب سے ہی ہے کہ نیک ارادے مضبوط و قائم تب ہی رہ سکتے ہیں اگر مہتاب کی روشنی ایسی نہ ہو اور درختوں کے پتوں میں ہوا کی وجہ سے اتنی تھرتھراہٹ پیدا نہ ہو۔ تارے ایسے نہ جگمگائیں‘ آسمان کی چادر اتنی خوبصورت نہ ہو۔ ان کیفیات نے ایسا ہی رہنا ہے اور پروردگار اسی پر رہے کہ دنیا کی خوبصورتی میں کوئی کمی نہ آئے تو کون کافر ہے جو نیک ارادوں پر اتنی مضبوطی سے قائم رہ سکے؟ دنیا کی خوبصورتی ہی تو ہے جو قدموں میں لغزش پیدا کرتی ہے۔ بات یہاں آسمانوں کی‘ حالانکہ گزرے وقتوں میں کسی سینما ہال پر کسی بڑے سائز کے فلمی بِل بورڈ پر نظر پڑتی تو دل تلملا اُٹھتا اور نظریں وہیں کی وہیں رہ جاتیں۔ کسی اجنبی شہر جاتے تو ارادے بندھتے کہ بالکل صحیح چلنا ہے‘ ایک دو کتب خریدنی ہیں اور شامیں انہی کے مطالعے میں گزارنی ہیں۔ ہوٹل کی لابی میں قدم رکھتے اور کسی زلف کا ہلکا سا لشکارا پڑتا تو یہ نیک ارادے وہیں ڈھیر ہو جاتے۔ اور دل میں پھر ایک عجیب سی کیفیت ہونے لگتی۔ یہ سب عوامل ہیں جو اہتمامِ شب کی طرف لے جاتے ہیں۔
اپنی طرف سے مملکتِ خداداد میں ہم نے صحیح راستے پر چلنے کے تمام بندوبست کیے۔ جو دروازے مقفل ہو سکتے تھے ان کو ایسا ہی کیا۔ شہروں کو جتنا بے رونق کر سکتے تھے کیا۔ قوانین میں جو سختی لائی جا سکتی تھی اس کا بھرپور بندوبست کیا۔ اخلاقیات کے جتنے پہرے قائم ہو سکتے تھے قائم کیے۔ وعظ و نصیحت میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ لیکن پھر بھی اس سارے ماحول کے باوجود شام کے سائے گہرے ہوتے ہیں تو اسی دھرتی کے باسیوں کے دلوں میں وہ تمام جملہ احساسات پیدا ہونے لگتے ہیں جو ہم جیسے مستند گناہگاروں کے حصے میں ہیں۔ کوئی فون گھمایا‘ گاڑی پر بیٹھے کہ شام کے اوقات کے لیے کچھ مناسب ہو جائے۔ ایسا بھی نہیں کہ تمام کے تمام بشر ایسی کیفیت سے دو چار ہیں۔ مضبوط ارادوں کے مالک بھی اسی دیس میں بستے ہیں۔ ان کی گرج دار آوازیں سنیں تو احساس ہوتا ہے کہ بے راہ روی کے تمام راستے بند ہو چکے ہیں۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری دھرتی کا نام بڑی عزت سے لیا جاتا۔ اس دیس کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا۔ ہم سے کچھ سیکھنے کیلئے باقی دنیا کے لوگ بھاگے آتے۔ لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں معاملہ کچھ الٹ ہے۔ ہماری اجتماعی نیکی کا مقام تو اپنی جگہ لیکن ہمارے کچھ کام نہ آ سکی۔ اور تو اور ہمارا لوہے کا کشکول نہ توڑا جا سکا۔ اپنے ارادوں پر اتنے پکے ضرور رہے کہ جتنا بدمزہ معاشرے کو کر سکتے تھے وہ کیا۔ چاشنی کو کہیں رہنے نہ دیا لیکن حالت ہماری وہ کشکول والی رہی۔ اب تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اپنی اجتماعی نیکی کو کہیں بیچنے چلیں تو گاہک نہ ملے۔
موضوع سے ذرا ہٹ گئے۔ ہم تو اپنی بات کر رہے تھے اور جا پڑی سیاست کی باتوں میں پھنسے۔ بہت سی بیماریوں میں یہ مخصوص عارضہ اس معاشرے کو لاحق ہے کہ کہیں سے شروع کریں بات سیاست پر آ جاتی ہے۔ حالانکہ کہنا یہ چاہیے کہ سیاسی باتوں کا بیڑہ غرق ہو‘ ان سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ ہم جان چکے کہ جو ہماری حالت ہے وہ ہماری نیچرل حالت ہے۔ یعنی اسی انداز میں ہم نے رہنا ہے۔ لہٰذا جو کرنا ہے اپنے لیے کریں۔ ویسے بھی مملکتِ خداداد میں اس اصول پر ہر کوئی کاربند ہے۔ دوڑ لگی ہوئی ہے تو اپنے لیے۔ ہماری عرض صرف اتنی ہے کہ قدم کچھ تھم جائیں اور زندگی کو اتنا بوجھل نہ بنائیں۔ جیسے اوپر عرض کیا جتنا بے رونق اپنے اجتماعی ماحول کو ہم بنا سکتے تھے وہ کر دکھایا۔ کافی ہو گئی‘ اب تو کچھ رک جائیں۔ آسمان کو دیکھیں اور مہتاب کی روشنی کا احساس جذبات پر پڑے تو وہاں سے بھی یہی تلقین ملتی ہے کہ زندگی کا مقصد زندگی کو بے رونق بنانا نہیں ہے۔ مہتاب کی روشنی ہو‘ زلفِ خوباں یا خرامِ یار یہ ساری چیزیں ہماری پیدا کردہ تو نہیں۔ اوپر والے کی تخلیق ہے‘ اوپر والے کی دین۔ عبادت کے لاکھ مختلف انداز‘ ہر ایک کو وہ نصیب ہو جس کے وہ قابل ہے۔