"KMK" (space) message & send to 7575

اللہ ہمارے حال پر رحم کرے

مونارک تتلی (Monarch Butterfly) کی ہجرت ایسی حیرتناک اور عقل کو دنگ کر دینے والی ہے کہ بندہ اس کی تفصیلات جان کر حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ میرا حشرات میں سب سے زیادہ شہد کی مکھی کی زندگی اور اس کے بعد مونارک تتلی کی مائیگریشن دیکھ کر اللہ کی قدرت پر پہلے سے ہی پختہ ایمان مزید پختہ تر ہو جاتا ہے۔ مسافر امید کرتا ہے کہ وہ کسی روز میکسیکو کے اویامل فِر فاریسٹ (Oyamel fir forest) جا کر درختوں کی شاخوں سے لپٹی ہزاروں نہیں‘ لاکھوں مونارک تتلیوں کا نظارہ کرے گا جو درختوں کے تنوں پر اس طرح جم کر بیٹھتی ہیں کہ درخت کا تنا ایک رنگین قالین دکھائی دیتا ہے۔ تاہم مونارک تتلیوں کی مائیگریشن کا قصہ پھر کسی روز‘ آج تھوڑا تذکرہ برادرم طاہر علوی کی اہلیہ ڈاکٹر فوزیہ علوی کا ہو جائے جو نفسانفسی اور خود غرضی کے اس موسم میں پہلی خاتون ڈاکٹر تھیں جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر غزہ کے مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے غزہ پہنچی تھیں۔
سچائی یہی ہے کہ غزہ کے مظلوم اور مقہور فلسطینیوں کیلئے سارے کے سارے عالم اسلام نے سوائے زبانی کلامی منافقانہ قسم کے احتجاجی بیانات کے اور کچھ بھی نہیں کیا۔ اس دوران امریکہ کے پروردہ اسرائیل نے جو چاہا وہ کیا اور اس بدترین نسل کشی کے دوران عالمِ کفر میں کیا جانے والا احتجاج کم ازکم عالم ِاسلام میں ہونے والے دھنیا قسم کے احتجاج سے کہیں زیادہ مؤثر اور زوردار تھا۔ خاص طور پر امریکی تعلیمی اداروں سے بڑی مظبوط آوازیں اٹھیں۔
سارا عالمِ اسلام‘ او آئی سی اور عالمِ اسلام کے بڑے بڑے لیڈر جو بھاشن دینے کی حد تک بڑے دبنگ اور دھمکیاں لگانے کی حد تک بڑے دلیر تھے‘ اس سارے عمل کے دوران عملی طور پر نہ صرف دم سادھے رہے بلکہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات‘ تجارت اور باقی سارے معاملات کو نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے رہے۔ اس کی ایک مثال اپنے برادر ملک ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کی ہے جنہوں نے اسرائیل کی جانب سے اس بدترین قتلِ عام اور اس صدی کی سب سے خوفناک نسل کشی کے باوجود نہ صرف اس سے سفارتی تعلقات برقرار رکھے بلکہ ہر قسم کا لین دین اور تجارت جاری رکھی‘ جس میں مبینہ طور پر اسلحے کی تجارت بھی شامل ہے اور دوسری طرف بیانات بھی جاری رکھے۔ ہمارے حکمران بھی بیانات کی حد تک شدید مذمت کے دائرے کے اندر چکر کاٹتے رہے۔ اس دوران اسلام آباد میں فلسطین مارچ کرنے والے سابق سینیٹر مشتاق احمد کو اس احتجاج کی پاداش میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ رہ گئے عرب ممالک تو ان کا ذکر کرتے ہوئے باقاعدہ گھن آتی ہے کہ وہ اس سارے قتلِ عام کے دوران نہ صرف خاموش رہے بلکہ وہ اس سارے ظلم وبربریت کے دوران اس بات پر دُکھی رہے کہ فلسطینیوں پر ہونے والی بمباری‘ غزہ کی تباہی اور چھیالیس ہزار سے زائد عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں اور عام شہریوں کے قتلِ عام کے باعث وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ارادے کو پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے۔
ایسے میں جب عالم اسلام کی جانب سے غزہ کے مظلوموں کیلئے سوائے روکھے پھیکے احتجاجی بیانات کے اور کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جا رہا تھا‘ کینیڈا میں اچھی بھلی ڈاکٹری کرنے والی فوزیہ علوی کو خدا جانے کیا سوجھی کہ غزہ جانے والے چند رضاکاروں کے ساتھ اس جگہ پہنچ گئیں جہاں 141 مربع میل پر مشتمل شہری آبادی والے علاقے پر دنیا کی تاریخ کی سب سے بدترین بمباری ہو رہی تھی۔ غزہ کی پٹی کی کل لمبائی 25 میل (41 کلومیٹر) اور چوڑائی چار سے ساڑھے سات میل (6 سے 12 کلومیٹر) ہے۔ اس کے مغرب میں بحیرہ روم کا 40کلومیٹر لمبا ساحل ہے۔ مشرق اور شمال کی جانب اسرائیل اور جنوب مغرب میں مصر ہے۔ رفح کراسنگ بھی اسی طرف ہے۔ بحیرہ روم پر چالیس کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ہی اس علاقے کی وہ جغرافیائی خصوصیت ہے جس کو دیکھ کر پراپرٹی سے پیسے بنانے والے اور ہر زمین کے ٹکڑے کو پراپرٹی ڈویلپر کی آنکھ سے دیکھنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی رال ٹپک رہی ہے اور وہ فلسطینیوں کو کبھی سعودی عرب اور کبھی مصر واُردن میں آباد کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ حالانکہ اس سارے قضیے کا ٹنٹنا ختم کرنے کے لیے وہ اسرائیل کے کل یہودی‘ جن کی تعداد 74لاکھ کے لگ بھگ ہے‘ انہیں بہت بڑے رقبے کی حامل امریکہ کی کم ترین فی مربع کلومیٹر آبادی والی ریاست مونٹانا میں بسا سکتے ہیں۔ مونٹانا کا رقبہ تین لاکھ 76ہزار 962مربع کلومیٹر ہے اور اس کی فی مربع کلومیٹر آبادی محض تین افراد ہے جبکہ اسرائیل کا کل رقبہ 22072مربع کلومیٹر اور فی مربع کلومیٹر آبادی 454 افراد ہے۔ اگر یہ سارے یہودی امریکی ریاست مونٹانا میں بسا دیے جائیں تو بھی مونٹانا کی کل آبادی پچاسی لاکھ اور فی مربع کلومیٹر آبادی بائیس افراد ہو گی جو امریکہ کی 50میں سے 44ریاستوں سے پھر بھی کم ہو گی۔ اس طرح اسرائیل بھی اس نام نہاد خطرے سے باہر نکل آئے گا جو اس کے وجود کو اس کے اردگرد موجود درجنوں مسلم ملکوں کے کروڑوں بزدل اور بے حمیت مسلمانوں سے لاحق ہے اور دنیا بھی اسرائیلی جارحیت سے محفوظ ہو جائے گی۔ لیکن معاف کیجئے میری یہ ساری جمع تفریق ''دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
جب عالم ِاسلام عملی طور پر صفرجمع صفر پر کھڑا تھا‘ فوزیہ علوی نے کینیڈا میں ایک تنظیم بنائی اور اسے امریکہ اور کینیڈا میں رجسٹرڈ کرایا۔ پاکستان میں بہت سی کام کرنے والی غیر ملکی این جی اوز کو دیکھتے ہوئے کوئی بندہ این جی او کی بات کرے تو فوراً ذہن میں خیال آتا ہے کہ یہ زبانی جمع خرچ سے پیسے بٹورنے کا ہتھکنڈا ہے لیکن ڈاکٹر فوزیہ نے اپنی اس این جی او کے لیے سب سے پہلے اپنے پلّے سے پیسے لگائے اور پھر دیگر لوگ بھی اس کارِخیر میں شامل ہوتے گئے اور اس کی واحد وجہ صرف یہ تھی کہ اس تنظیم کا عملی کام ایسا تھا جو نہ صرف صاف شفاف انداز میں دکھائی دے رہا تھا بلکہ عالمی سطح کی تنظیموں اور صحافتی حلقوں کی جانب سے باقاعدہ سراہا گیا۔دس سال قبل جب میں کینیڈا گیا تو طاہر علوی کے پاس ہی ٹھہرا تھا۔ تب اسلامی اقدار کے حامل اس گھرانے میں ایسے کوئی آثار دکھائی نہ دیتے تھے کہ اس گھر کی خاتون خود عملی طور پر ریلیف‘ آباد کاری اور طبی سہولتوں کے حوالے سے ظلم وجبر کے شکار محکوم ومقہور مسلمانوں کی عملی مدد کیلئے میدان میں آ جائے‘ لیکن ان کی زندگی کا سارا طریقہ اور نقطہ نظرتب تبدیل ہوا جب وہ 2017ء میں روہنگیا مسلمانوں کے کاکس بازار‘ بنگلہ دیش میں قائم پناہ گزین کیمپ پہنچیں اور وہاں کی خوفناک صورتحال نے نہ صرف انہیں جھنجھوڑ کے بلکہ تبدیل کرکے رکھ دیا۔ واپس آکر انہوں نے کسی دوسرے مددگار کا انتظار کرنے کے بجائے خود عملی اقدامات کا بیڑہ اٹھایا اور اپنی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ آج تک ڈاکٹر فوزیہ علوی اپنی تنظیم کے تحت ترکیہ اور شام میں 2023ء کے تباہ کن زلزلے کے بعد ہنگامی امداد بشمول طبی سامان اور صحت کے مراکز کی بحالی کے علاوہ یمن کے قحط زدہ علاقوں میں خوراک کی فراہمی کیلئے مسلسل کوشاں ہے۔ وہ گزشتہ ایک سال سے جاری غزہ کے انسانی المیے میں کئی بار اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر خود غزہ گئی ہیں اور وسطیٰ وجنوبی غزہ میں تین میڈیکل کیمپ قائم کر چکی ہیں۔ کل رات گئے وہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے اپنے میڈیکل کیمپ کی رجسٹریشن مکمل کرانے کیلئے عملی طور پر مصروفِ عمل تھیں۔ ڈاکٹر فوزیہ ایک بار پھر غزہ جانے کی تیاری میں ہیں جبکہ دوسری طرف صہیونی ایک بار پھر خون کی ہولی کھیلنے کے لیے تیار ہیں۔ ادھر ہم جیسے لکھنے والے محض قلم اور کاغذ کے گھوڑے دوڑا کر مطمئن ہو رہے ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں