میرے سامنے اس وقت دو تحریریں ہیں۔
دو مختلف نام ۔دونوں سے 34/35سال کا تعارف ۔ دوستی کا لفظ کزن کے تعارف کی طرح سے خاصا مشکوک ہوتا جارہا ہے۔ اس لئے یہ لفظ استعمال نہیں کررہا ۔ احمد فراز کو کئی عشرے پہلے اس کا وجدان ہوا تھا۔ تبھی فراز کہہ اٹھا تھا۔
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہوفراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
ایک میرا داد پوترا ہے۔ جن کے والد نے مجھے ہمیشہ بیٹا بنائے رکھا۔ جبکہ دوسرا کالج کے زمانے سے ایسا دوست جسے ہمیشہ بیٹا کہا۔ ایک سوشلسٹ دوسرااسلامسٹ ۔ سمندر کو عربی زبان میں بحر کہتے ہیں، سمندر دو ہو جائیں تو انہیں بحرین کا خطاب ملتا ہے۔
اپنی اپنی ذات میں دونو ں سمندر ہیں ۔دونوں ہی ہمہ وقت اور ہمہ جہت خود آزما۔ ایسے لوگوں کے امتحان کبھی ختم نہیں ہوتے ۔ جن کی زندگی خطر پسند نہ ہو ایسی زندگی کو سٹیٹس کو کہہ سکتے ہیں۔ میری نظر میں حضرت علامہ اقبال ؒسٹیٹس کو کے سب سے بڑے مخالف تھے۔ ان کے اپنے لفظوں میں یوں
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
دونوں نے قومی سیاست میں حصّہ لیا اور الیکشن لڑے۔ ایک ممبر پنجاب اسمبلی کے رتبے تک پہنچا دوسرے کو خدا نے انصاف کی کرسی پر براجمان کردیا۔ ایک شاعر دوسراسخن فہم جس نے اپنے ایک تاریخی فیصلے سے ثابت کیا کہ وہ بسیار نویس نہیں نثر نگار بھی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کی حیثیت سے تحریر کردہ یہ فیصلہ جلد ایک لافانی کتاب بن جائے گا۔ دونوں سے ایک رشتہ بھی ہے۔ دنیاوی حاجتوں سے ماوراء ۔ ایک نواسہ رسول ؐ کا نوحہ گر ہے دوسرا دربار رسول ؐکا گدا گر ۔ میں بے نوا، یتیمی میں پلنے والا عاجز عشق کے سمندر میں انہی دونوں لہروں کے سہارے تیرتا ہوں۔ عشاق کی دنیا میں عشق حقیقت بھی ہے اور مجاز بھی۔ایک نے مجاز کو موضوع چن لیا دوسرا حقیقت کی راہ کا مسافر بن گیا۔ ابدی حقیقت ۔ بلکہ ازلی اور آفاقی حقیقت ۔ لیکن عشق کی دنیا میں حقیقت اور مجاز کا فیصلہ نہ کوئی دیوانی عدالت کرسکتی ہے اور نہ ہی آئینی ۔ دل کی دنیا کے دانائے راز شاعر مشرق نے بھی ایسا فیصلہ کرنے سے معذوری ظاہر کی ۔ حالانکہ ڈاکٹر سر محمد اقبال ؒ لاہور ہائیکورٹ بار کے ممبر اور پریکٹسنگ بیرسٹر بھی تھے۔ علامہ ؒ صاحب نے فرمایا :
کبھی اے حقیقت منتظر، نظر آلباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں ، مری جبین ِنیازمیں
حقیقت کے راہی نے آزادی اظہارکے نام پر دل آزار میٹریل پر فیصلہ جاری کیا جو جوڈیشل تاریخ میں لینڈ مارک ہے۔ انفرادی اور گروہی طور پر کون کیا کرتا ہے۔ ایسی کسی عادت یا رسم کو مذہب سے منسوب کرنا درست نہیں ۔ خاص طور پر اللہ تعالیٰ کا وہ آخری پیغام جو اللہ تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمد ؐ کے ذریعے عالم انسانیت تک پہنچا ۔ اس میںایک فلسفہ اصول ِقانون کی حیثیت رکھتا ہے۔ حقیقت کے راہی کا فیصلہ اسی قانونی Ratio کی بنیاد پر ہے۔ قرآن ناطق کے ذریعے ہم تک پہنچنے والے قرآن حکیم کا اصول ہے کہ تم کسی کے جھوٹے خدا کو بھی دشنام مت دو ۔
اس فیصلے نے پاکستان کی ایگزیکٹو اتھارٹی کے لئے اسی اصول ِ قانون کے تحت متوازن رہنمااصول وضع کردیئے جنہیں مدنظر رکھ کر وہ سارے معاشرے جہاں مقدس ہستیوں یا مقدس حوالوں کی تعظیم کے قانون موجود ہیں ان کے لئے) (Common Groundوضع کردی ہے۔ مثلاً یورپ کے کئی سماج نے دوسری جنگ عظیم میں جرمن فیوہررایڈلوف ہٹلر پر لگنے والے الزام کو تقدیس کا قانونی تحفظ دے رکھا ہے۔ ایسے کسی ملک میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہولو کاسٹ ایک کہانی ہے۔ جو دوسری جنگ عظیم جیتنے والوں نے گھڑ لی۔ ہولو کاسٹ کا نظریہ صہیونی آبادی کی قیدو بند اور ہلاکتوں کے الزامات پر مبنی ہے۔ دنیا کا کوئی معاشرہ ایسا نہیں جہاں تقدیس و تعظیم رکھنے والی ہستیاںاور تصورات کے خلاف زبان درازی کے امتناعی قوانین موجود نہ ہوں ۔ پاکستان میں بھی یہ قوانین موجود ہیں۔ جن میں شان رسالتؐ کی تعظیم خاص حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی مذہبی گروہ ، کسی عبادت گاہ کی دل آزاری کو روکنے کے قوانین بھی نافذ العمل ہیں۔ جب سے اظہار کے نئے ذرائع سامنے آئے ہیں ویرٹ گلِڈرجیسے لوگوں نے نبی کریم ؐ کی ذات ، صفات اور تعلیمات پر بے رحمانہ طریقے سے حملہ آور ہونے کی ناکام کوشش کی ۔ جس سے ساری دنیا کے اہم ترین فورمز میں ایسے مباحث نے جنم لیا جنہیں ون لائنر میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔" اپنے قابل احترام تصورات اور ہستیوں کو نہ چھوڑومگر دوسروں کو نہ چھیڑو "۔ مجھے بحیثیت وزیر قانون ذاتی طور پر تجربہ ہے کہ جب بھی ایسی بحث چھیڑی جاتی ہے تو پالیسی سازوں فیصلہ سازوں پر کہاں کہاں سے اور کیسے کیسے دبائو ڈالے جاتے ہیں۔ لیکن مردانِ وفا عشقِ مدینہ کی نسبت کے سامنے کسی خوف اور لالچ کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے۔ شاعر مشرق ایسے ہی قلندر تھے ۔چہ قلندرانہ گفتم
ہزار خوف ہوں لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کاطریق
مجاز کا مسافر جس کی طلب رکھتا ہے میں اسے مجاز کہنے سے ڈرتا ہوں ۔ مسافر کی طلب یہ ہے ۔
ربّ ِتوفیق کوئی خیر کی ساعت چاہوں
شب گزیدہ ہوںترا نورِ عنایت چاہوں
نیتِ حمد پہ اُترے تری ہستی کا شعور
ذرّۂ حرف میں افلاک کی وسعت چاہوں
میرے محترم رسول محسن انسانیت ؐ پر ہزار نسلیں فدا ۔ آپ ؐ نے بیٹی کو دفن ہونے سے پچایا۔ مجاز کی نظم لکھنے والا اپنی زندگی میں بیٹی کی آمد پر یوں استقبال کرتا ہے۔
دعا کے پیڑ پر معصوم سی چڑیا چلی آئی
عجب رونق لیے اِس گھر میں یہ گڑیا چلی آئی
اسے جب دیکھتا ہوں دل کوئی ریشم سا ہو جائے
نظر کی دسترس میں سب کی سب دنیا چلی آئی
شفق جیسے مرے آنگن کے ہر ذرّے میں گُھل جائے
کہ جیسے صبحِ تازہ کا دریچہ مجھ پہ کُھل جائے
وہ تتلی جب دھنک لہجے میں کوئی بات کرتی ہے
سماعت پھول ہو ، ہر پنکھڑی شبنم سے دُھل جائے
لپٹ جاتی ہے گھر آنے پہ مجھ سے جب محبت سے
خدا کا شکر کرتا ہوں میں اپنی پوری شدّت سے
گداز اِس زندگی میں بیٹیوں کے دم قدم سے ہے
میّسر ہے ہمیں ہر ایک نعمت اِن کی نسبت سے
دونوں کا شکریہ ۔شوکت عزیز صدیقی اور مجتبیٰ حیدر شیرازی۔ساتھ اجرِ عظیم کی مناجات ۔