ہمارے دستور کی نظر میں پاکستان کے سب علاقے برابر ہیں۔ آئین کا آرٹیکل نمبر1 اس برابری کی گواہی دیتا ہے۔ لاہور کے تخت سے لے کر فاٹا کے سخت پہاڑوں تک۔
ہاں البتہ اسی آئین میں کچھ علاقوں کو باقی پاکستان پر ترجیح دی گئی ہے۔ مالی، تعلیمی اور انتظامی میدان میں اس ترجیحی سلوک کی بنیاد صرف اور صرف پسماندگی ہے‘ کچھ اور نہیں۔ یوں مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں محسوس ہو رہی کہ فاٹا کی سرزمین وطن کی آئینی ترجیح نمبر ایک ہے۔ ساتھ ساتھ ناقابل یقین پسماندگی اور ناقابل بیان جنگی تباہ کاری کا میدان بھی۔ آزاد ریاست جموں و کشمیر کو پورے کشمیر کی آزادی کا بیس کیمپ بنانے میں فاٹا کے عوام کا کردار تاریخ کا روشن مینار ہے۔
فاٹا میں اصلاحات پیکیج نافذ کروانے کے لئے ان دنوں فاٹا کے عوام سڑکوں پر ہیں۔ شاہراہ دستور کے ڈی چوک میں فاٹا کے ہزاروں شہریوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ پوری شان اور امن و امان سے۔ لاہور کی کستوری برانڈ جمہوریت نے دستوری کنٹینر کھڑے کرکے فاٹا والوں کو اپنی ہی پارلیمنٹ پہنچنے سے روک کر پھر ثابت کیا کہ یہ پارلیمنٹ عوام کے لئے نہیں انجمنِ تاجران اور تنظیمِ آڑھتیاںکے لئے بنی ہے‘ جن کے نمائندگان پارلیمان کی کرسیوں پر براجمان ہیں۔ گزشتہ روز گولڑہ ریلوے سٹیشن کے نواح میں رات کے وقت جانے کا اتفاق ہوا‘ جہاں مہمند برادری کے سینکڑوں گھر ہیں اور یہ میرے انتخابی حلقے NA-48 کا حصہ ہیں۔
جنید مہمند کے بیٹے کی شادی میں شرکت کی۔ کھلے آسمان تلے بیٹھ کر "عربی کبسہ" اجتماعی پلیٹ سے کھایا۔ کبسہ معروف عربی پلائو ہے جو بڑے تھال میں مہمانوں کے سامنے رکھا جاتا ہے۔
اس قدر لذیذ کہ اسے پہلی دفعہ کھانے والا آخری کھانا سمجھ کر کھاتا ہے۔ یہاں پر بھی ایک ہی سوال ہوا۔ پشتو میں سوال یہ تھا کہ سیاسی ملاگان فاٹا کو کے پی کے صوبے میں شامل کرنے کے کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ میری جگہ فاٹا والوں نے خود ہی سوال کا جواب بھی دیا۔ کہا: کے پی کے میں فاٹا کی مخالفت کرنے والے فاٹا کے رہنے والے ہیں‘ نہ ہی ووٹر۔ کوئی بنوں کا ہے‘ کوئی چمن کا اور کوئی ڈی آئی خان کا۔ سب اپنا اپنا سیاسی ٹھیلہ چلانے کے لئے فاٹا میں غربت اور بیروزگاری کے اندھیرے میں کمی نہیں دیکھنا چاہتے۔
قبائلی علاقہ جات کا مسئلہ جتنا سیدھا ہے وفاقی حکومت اتنی ہی دوغلی پالیسی پر چل رہی ہے‘ جس کے عہدے دار پشتون علاقوں میں فاٹا کو کے پی کے میں شامل کرنے کے حامی ہیں‘ لیکن اسلام آباد میں اپنے سیاسی مولانا صاحب کو ناراض نہیں کر سکتے۔ فاٹا لمبے عرصے سے مک مکا کی سیاست کی وجہ سے پسماندہ ہے۔ ذاتی مفادات کے اس سیاسی گٹر کی بد بو سے ہٹ کر دیکھا جائے تو فاٹا کا مسئلہ کچھ اس طرح ہے۔
آئین کے آرٹیکل 142 کے مطابق جس صوبے کی جغرافیائی حدود میں تبدیلی کرنی ہو متعلقہ/ متاثرہ صوبے کی صوبائی اسمبلی قرارداد کے ذریعے صوبے کی حدود میں تبدیلی کی اجازت دیتی ہے۔ کے پی کے اسمبلی نے قبائلی علاقہ جات کی صوبے میں شمولیت (merger) کی قرارداد پا س کر دی ہے۔ دوسرا صدرِ پاکستان آئین کے آرٹیکل 89 کی رو سے صدارتی حکم نامے کے ذریعے‘ اور وفاقی حکومت سالہا سال سے تیار شدہ فاٹا ریفارمز پیکیج کی بنیاد پر پانچ منٹ میں مسئلہ حل کر سکتی ہے۔ مجھے کیبنٹ ڈویژن کے انچارج وفاقی وزیر کی حثیت سے بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات میں ریفارمز کے لیے کردار ادا کرنے اور وہاں جا نے کا موقع ملا۔ قبائلی عوام کی دشمنی کی تین وجوہات ہیں اور تین ہی گروہ ان سے ہمیشہ دشمنی کرتے ہیں۔ پہلا گروہ اُن میں سے ہے جس گروپ نے فاٹا میں ٹیکس فری انڈسٹری لگا رکھی ہے۔ ماربل انڈسٹری، لوہا فیکٹریاں اور سب کچھ۔
جونہی فاٹا ریفارمز پر سناٹا ختم ہو‘ قبائلی علاقہ جات کے پی کے کا حصہ بن جائیں تو ان بڑے انویسٹروں کو بجلی کے بھاری بل اور سارے ٹیکس ادا کرنا پڑیں گے۔ ٹیکس چوری کے عادی گروہ بعض سیاسی مولویوں اور پختونخواہی کے دعوے داروں پر بھاری سرمایہ کاری کرتے ہیں‘ جس کی وجہ سے بندگانِ شکم فاٹا کے قومی دھارے میں شمولیت کا راستہ روکنے کی ایزی لوڈ ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ دوسرا گروہ سرحد پار کی زبان بولنے والوں کا ہے۔ جسے شک ہو وہ ان کے بینک اکائونٹ چیک کرا لے‘ جہاں براہ راست ان کے ناموں پر ماورائے سرحد سے بھاری رقوم آنے کے ثبوت موجود ہیں۔ تیسرا گروہ فاٹا کو اپنی منفی سیاست کی نرسری سمجھتا ہے۔ اس گروہ کے نزدیک فاٹا کے عوام صرف ایک ''آئٹم‘‘ ہیں‘ پاکستانی شہری نہیں کہ انہیں آئینی حقوق دے کر حیات آباد، اسلام آباد، لاہور یا کراچی کے برابر لایا جا سکے۔
اگلے روز فاٹا کے موضوع پر عمران خان سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات ہوئی۔ خان کو فاٹا کے دکھی عوام کے لئے بہت دکھی پایا۔ مجھے کہنے لگے: سارے آپشنز تلاش کریں‘ قبائلی علاقہ جات کو ہر حال میں غربت کے منحوس چنگل (Vicious Circle) سے نکالنا ہے۔ میں نے تین دن سے پورے لیگل سٹاف کو ریسرچ پر لگا رکھا ہے۔ اس دوران دو عدد چشم کُشا چیزیں سامنے آئیں۔ پہلی یہ کہ فاٹا میں فرنگی راج کے غیر انسانی قوانین رائج ہیں۔ ان قوانین کے خاتمے کا موقع آیا تو فاٹا کو KPK بنانے کے لئے مخالفت مطلب پرست وہ کر رہے ہیں‘ جو غیر ملکیوں کو چند ماہ پہلے تک پاکستانی آئی ڈی کارڈز، پاکستانی پاسپورٹس اور پاکستانی شہریت زبردستی دلوانے کے لئے جلسے کرتے رہے ہیں۔ اس تازہ دوغلی پالیسی سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں اپنے غریب قبائل کی ترقی سے نہیں ذاتی وسائل کی ترقی سے محبت ہے۔
قبائلی علاقہ جات سے عوام دشمنی کرنے والے سخت فکر مند ہیں کہ ان کی 70 سالہ پرانی سیاسی دکانداری کے خاتمے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ پاکستان کے سارے لوگ فاٹا کے لوگوں کے ساتھ ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں۔ قبائلی عوام نے اپنی چھاتی پر ناکردہ گناہوں کے زخم برداشت کرکے مادرِ وطن کو ہمیشہ لہو کا نذرانہ دیا۔ قبائلی عوام کا دشمن کچھ بھی کر لے‘ فاٹا قومی دھارے میں ضرور شامل ہو گا۔ پاکستان مواقع کی سرزمین ہے۔ قبائل کے لیے یہ موقع ضائع نہیں ہو گا۔
چلو اُٹھو زمیں کھودیں
اور اس میں اپنے دل بو دیں
اسے سینچیں
پھر اپنی آرزوئوں کے پسینے سے
کہ اس بے رنگ جینے سے
نہ میں خُوش ہوں، نہ تم خُوش ہو...
جنید مہمند کے بیٹے کی شادی میں شرکت کی۔ کھلے آسمان تلے بیٹھ کر "عربی کبسہ" اجتماعی پلیٹ سے کھایا۔ کبسہ معروف عربی پلائو ہے جو بڑے تھال میں مہمانوں کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ اس قدر لذیذ کہ اسے پہلی دفعہ کھانے والا آخری کھانا سمجھ کر کھاتا ہے۔ یہاں پر بھی ایک ہی سوال ہوا۔ پشتو میں سوال یہ تھا کہ سیاسی ملاگان فاٹا کو کے پی کے صوبے میں شامل کرنے کے کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ میری جگہ فاٹا والوں نے خود ہی سوال کا جواب بھی دیا۔ کہا: کے پی کے میں فاٹا کی مخالفت کرنے والے فاٹا کے رہنے والے ہیں‘ نہ ہی ووٹر۔ کوئی بنوں کا ہے‘ کوئی چمن کا اور کوئی ڈی آئی خان کا۔ سب اپنا اپنا سیاسی ٹھیلہ چلانے کے لئے فاٹا میں غربت اور بیروزگاری کے اندھیرے میں کمی نہیں دیکھنا چاہتے۔