جوتیاں اٹھانا ایک محاورہ ہے۔ طعن و تشنیع یا خدمت گزاری اس کے دونوں مطلب نکلتے ہیں۔ چلیے یہاں اسے طعنہ سمجھ لیجئے۔ کیونکہ سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے نااہل شریف کی جوتیاں اٹھانے کا طعنہ اپنی پارٹی کے ہم نفسوں کو ہی دے دیا۔ بجا طور پر وہ پچھلے 3 عشروں سے شریف سیاست کی لنکا میں گھر کے بھیدی کہلا سکتے ہیں۔ سوال مگر انہوں نے سنجیدہ اُٹھایا ہے۔ علم، تصوف اور حفظِ مراتب کی دنیا میں ذات و صفات کی قطع و برید کرنے والے کی جوتیاں اٹھانا ایسی سعادت سمجھی جاتی ہے جو ہر کسی کے نصیب میں کہاں؟ بازارِ سیاست کی بات مگر دوسری ہے جہاں اکثریتی سیاست لمیٹڈ کمپنیوں کی نوکری میں تبدیل ہو چکی ہے‘ جس کا پہلا اصول یوں ہے ''BOSS IS ALWAYS RIGHT‘‘
دو سال پہلے گرمیوں کی چھٹی کا سیزن یاد آتا ہے۔ میں بڑے بیٹے عبداللہ کے ہمراہ سیاسی کیریئر کے سب سے زیادہ تکلیف دہ مذاکرات کے لیے ہائیڈ پارک کے کونے پر واقع ایک عمارت کی تیسری منزل پر پہنچا۔ میزبان نے اپنے بائیں جانب مجھے نشست آفر کی اور دائیں طرف عبداللہ سے بیٹھنے کو کہا۔ اتنی دیر میں انتہائی نامور شاہ صاحب وارد ہوئے‘ میزبان نے جس کا نام سن کر پہلے قہقہہ لگایا پھر میری طرف شرارت سے دیکھا۔ ساتھ بولا: اسے اندر آنے دو۔ اسی دوران میزبان کرسی پر لڑھک گیا اور اپنے دونوں پائوں اٹھا کر میز پر رکھ دیے۔ چند لمحوں میں قبلہ شاہ سائیں کمرے میں داخل ہوئے اور سیدھے اپنے ہاتھ میرے میزبان کے پائوں پر رکھ دئیے۔ پھر اس تبرک کو سینے سے جا چمٹایا۔ ان دنوں پنجاب کے ایک سیاسی پیر صاحب کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ تصویر میں موصوف دونوں ہاتھ جوڑ کر ایک سیاسی خاتون کے سامنے رکوع کی حالت میں اپنی وارفتگی یا وفاداری کا اظہار کر رہے ہیں۔
جن دنوں میں وفاقی وزیر تھا تب دو عدد وزیروں کے درمیان خوشامداتی مقابلوں کے بڑے معرکے برپا ہوتے تھے۔ ایک کھانے میں دونوں وارداتیے نو رتن اپنے فن کی انتہا پر تھے۔ وہی جوتیاں اٹھانے کا فن۔ ایک نے صاحبِ اختیار کے سامنے خوشامد کا نہلا مارا۔ کہنے لگا: سر جی میں اپنے فرض کی ادائیگی میں ناکام رہوں گا‘ اگر آپ سے یہ نہ کہہ سکوں کہ آپ نے نواب زادہ نصراللہ کی خالی آسامی پُر کر دی ہے۔ آپ بابائے جمہوریت ہیں۔ فنِِ حکمرانی کی یہ لاثانی تاریخ صدر ہائوس کے پنک روم میں لکھی جا رہی تھی۔ جتنی دیر پہلا وزیر بات کرتا رہا‘ اتنی دیر تک دوسرا ایسے پہلو بدلتا رہا‘ جیسے گرم توے پر پڑا ہوا مکئی کا دانا۔ پھر اس وزیر سے نہ رہا گیا‘ مدِمقابل کا جملہ اُچک کر نہلے پر دھلا مارنے کے انداز میں کہنے لگا: منسٹر صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ میرے صاحب کی حیثیت مہاتما گاندھی سے زیادہ نہ ہو تو کم بھی نہیں ہے۔ میں نے دونوں کو نظر انداز کیا اور تماشہ گر میزبان سے کہا ''یار تھوڑا گھٹ کرا دے‘‘۔ میزبان بھی شرارت کے موڈ میں تھا۔ اس نے سلیپر ڈھونڈنے کی ایکٹنگ شروع کر دی جو پنک روم کے اندر واقع پائوڈر روم کے باہر سلیقے سے رکھے تھے۔ پہلا وزیر ابھی مہاتما والے حملے کے سکتے میں تھا کہ دوسرے نے بجلی کی رفتار سے سلیپر عرف جوتیاں اٹھائیں اور موصوف کے سامنے لا کر رکھ دیں۔ ان دو وزیروں کے عرف NICK NAME)) دو آئینی اداروں کے سربراہوں نے رکھے ہوئے تھے۔ پہلے کو ایک سربراہ گوربا چوف کا جادو کہتا تھا اور دوسرے کو دوسرا حامد کرزئی۔ گوربا چوف کے جادو اور حامد کرزئی کی قبیل کے کلاکار ایوانِ عدل میں بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی عدالت میں ایسے ہی ایک فن کار کو میں نے رنگے ہاتھوں پکڑا لیا۔ کوہ مری میں ایک بڑی ہائوسنگ سوسائٹی کا مقدمہ تھا۔ سابق ایم پی اے راجہ شفقت عباسی میرے ساتھ وکیل تھے اور گائوں کا نام تھا سَل کھیتر۔ اس مقدمے میں دوسری جانب سے ایک سابق وزیرِ قانون جو ان دنوں ایکٹیو پریکٹس نہیں کرتے۔ موجودہ اٹارنی جنرل آف پاکستان تب بطور پرائیوٹ وکیل اور دو دوسرے حضرات بھی تھے۔ اس مقدمے نے بہت ساری کہانیوں کو جنم دیا‘ جس میں سیکٹر F-6 کے بڑے گھر کا ذکر بھی آتا ہے۔ بڑے سے مراد 2200 گز کا گھر۔ مقدمہ شروع ہوا تو کلاکار نے کہا کہ ڈوگر صاحب میں مائی لارڈ کو اپنا ایک خواب سنانا چاہتا ہوں۔ خواب میں نے مدینہ شریف میں جا کر دیکھا ہے۔ میں نے فوراً کہا کہ پہلے میری بات سنیں اور پھر خواب۔ چیف جسٹس بولے: آپ کو کیا جلدی ہے۔ میں نے کہا: خواب سے پہلے بولنا چاہتا ہوں، بڑی مختصر بات کروں گا۔ اجازت ملنے پر میں نے کلاکار سے کہا کہ سر جو خواب آپ نے مدینہ شریف عمرے کے دوران میرے لیے دیکھا تھا‘ اس کے علاوہ جو مرضی ہے خواب سنا دیں۔ عدالت میں قہقہے لگے اور خواب سنائے بغیر کارروائی آگے بڑھ گئی۔
پوٹھوہار میں میرا نانکا علاقہ کلیام اعوان ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ گجر خان میں کلیام اعوان رزلٹ متاثر کرنے والے ووٹ رکھتا ہے۔ ایک ضمنی الیکشن میں میرے رشتے داروں نے کسی وکیل امیدوار کی مخالفت کر دی۔ میرے پاس جرگہ آیا کہ میں اپنے قبیلے کی سوچ بدلنے کے لیے مداخلت کروں۔ ایک امیدوار صاحب نے میری شان میں ایسی گفتگو شروع کی‘ جو دو منٹ مزید جاری رہتی تو یقینا میرے پر نکل آتے‘ اور میں اپنے لا آفس کی کھڑکی سے اُڑ کر مارگلہ ہلز کی چوٹی پر جا بیٹھتا۔ آج کل جوتیاں اُٹھانے والوں کا سیزن لگا ہوا ہے۔ اکثر اتنے بڑے ماہرِ فن ہیں کہ وکٹ کے دونوں طرف چھکے لگا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر بات بے بات بولنے کے شوقین وزیرِ داخلہ کے حملے کی وجوہات۔ ان کلاکاروں کی نظر میں معاشرے کے تشدد پسند لوگ اس کے ذمہ دار ہیں۔ وہ لوگ حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔ باعزت حکمرانوں سے اُن کی آمدن کے ذرائع اور اچھی حکمرانی کے خاندانی نسخے پوچھتے ہیں۔ جوتیاں اٹھانے والے ماہرینِ فن۔ سبزہ زار اجتماعی قتل، ماڈل ٹائون قتل عام نمبر ایک اور دو سپریم کورٹ پر حملے، لوہے کے چنوں کے ذریعے دانت توڑنے والے ڈائیلاگ‘ اپوزیشن کے خلاف واجب القتل کے فتوے‘ مخالف جماعت کی خواتین کو ٹھمکے لگانے والیاں اور ''اس بازار‘‘ سے تشبیح دینا ان کے نزدیک قومی اتفاقِ رائے اور مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کے نادر و نایاب نسخے ہیں۔
جوتیاں اُٹھانے والے خوشامد میں بازی لے جانے کو اُدھار پر نہیں رکھتے۔ پانامہ مقدمے میں نااہل نمبر2 نے تا حیات نااہل کو برسرِ عام یقین دلایا لوگ پنامہ شنامہ کو بھول جائیں گے۔ تبدیلی صرف پاکستان میں نہیں آرہی‘ بلکہ ملائیشیا میں تو آ بھی چُکی۔ نجیب رزاق والی نون لیگ کو 60 سال بعد اقتدار سے دھکا لگ گیا۔ 94 سالہ ریٹائرڈ ویٹرن مہاتیر محمد کی قیادت میں اپوزیشن نے دھاندلی زدہ 'سٹیٹس کو‘ کا منہ کالا کر دیا۔ نون سے نجیب پر ن سے نا جائز دولت بنانے کا الزام ہے۔ کوالالمپور کے اڈیالہ جانے سے پہلے نجیب رزاق ''کیوں نکالا‘‘ کہے گا؟ کیا برادر ملک میں جوتیاں اُٹھانے والا کلچر احتساب کے سیلاب میں بہہ جائے گا‘ یا پھر ملائیشیا کی زمینوں پر فتنہ اُٹھے گا اور ملایا پُکار اُٹھے گا:
اُٹھا رہا ہے جو فتنے مری زمینوں میں
وہ سانپ ہم نے پالا ہے آستینوں میں
کہیں سے زہر کا تریاق ڈھونڈنا ہو گا
جو پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے سینوں میں
کسی کو فکر نہیں قوم کے مسائل کی
ریا کی جنگ ہے بس حاشیہ نشینوں میں
قصوروار سمجھتا نہیں کوئی خود کو
چھڑی ہوئی ہے لڑائی منافقینوں میں
یہ لوگ اس کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں
کہ اقتدار رہے اُن کے جانشینوں میں
یہی تو وقت ہے آگے بڑھو خدا کے لیے
کھڑے رہو گے کہاں تک تماش بینوں میں