آفاقی اصول کون بدل سکتا ہے؟
پانی نیچے کی طرف راستہ بنائے گا۔ آگ کی چنگاری کسی کے دامن میں ہو یا انگارہ اپنی ہتھیلی پر۔ دونوں جگہ آگ کا کام جلانا ہے۔ ہوا ہو ، روشنی یا خوشبو تینوں کسی جغرافیائی بارڈر پر نہیں رک سکتے ۔ اسی طرح وحشت ، نفرت اور دہشت کسی علاقے ، رنگ نسل اور مذہب سے مخصوص ہے‘ نہ منسوب ہو سکتی ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے تک لینڈ آف کیویز میں کرائم ریٹ زیرو تھا... مگر آج وقت کا پہیہ الٹا چل دیا۔ گزشتہ رات میں نے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ سے شکستہ دل کے ساتھ کرائسٹ چرچ کے 50 سے زائد شہید نمازیوں، درجنوں مجروح روحوں کا نوحہ عالمی اداروں کے نام ان لفظوں میں لکھا ''روہنگیا ، فلسطین ، کشمیر کے بعد کرائسٹ چرچ، خونِ مسلم کی ارزانی کی عالمی قتل گاہیں۔ سوچتا ہوں دہشت گرد ہے کون؟ 49 شہید نمازیوں کا خون عالمی ضمیر سے سوال کرتا ہے!‘‘
ضیاء آمریت کے بینر تلے ''چارلی ولسن وار‘‘ شروع کرنے والوں نے کب سوچا ہو گا کہ وہ صدیوں قدیم نازی ازم کے پودے کو نئے جمہوری نازی ازم کی نرسری میں پروان چڑھانے جا رہے ہیں۔ اگر کوئی صاحب اس بات پر حیران ہیں کہ دنیا میں جرمنی کے علاوہ بھی کہیں نازی ازم تھا‘ تو اس حیرانی کو دور کرنے کے لیے چند حقائق یہ ہو سکتے ہیں:
یونان (Greece) میں ہونے والے تین واقعات کا ذکر سب سے پہلے:
پہلا وقوعہ : فروری 1897ء میں حملہ ہوا‘ جس میں 850 سے 1000 تک مسلمان شہید ہوئے۔ مارنے والے کرسچین تھے۔ اس میں 4000 ہزار لوگ زخمی ہوئے۔
دوسرا وقوعہ : اکتوبر 2010ء میں وحدت پسندوں کی طرف سے کیا گیا‘ جس میں مسلمانوں کا قبرستان مسمار کیا گیا۔
تیسرا وقوعہ : ستمبر 2015ء میں کیا گیا‘ جس میں مسلمان پناہ گزینوں کو مار پیٹ کر واپس اپنے ملکوں میں بھیجنے کا مطالبہ شامل تھا۔
میانمار : 26 مئی 1930ء 120 سے 200 کے درمیان شہادتیں‘ 900 سے لے کر 2000 تک زخمی مسلمان اور جائے وقوعہ ہے‘ رنگون برٹش برما۔دوسرا وقوعہ : 1938ئ‘ 204شہید 1000 مسلمان زخمی اور جائے وقوعہ ہے‘ رنگون برٹش برما (مارنے والوں کا مذہب ہے بدھ ازم) ۔تیسرا وقوعہ : مئی 2001ء سے مئی 2002 تک مختلف حملوں میں 88 مسلمان شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔ حملہ آور بدھ بھکشو تھے۔ چوتھا وقوعہ : 2012ء کا ہے‘ جس میں 200 مسلمان اور رخائن کو مارا گیا۔ مارنے والے بدھ بھکشو تھے۔ پانچوں وقوعہ: مارچ 2013ء سے اکتوبر 2013ء تک 50 مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ 80 سے زائد زخمی ہوئے مارنے والوں کا مذہب بدھ ازم تھا۔
ناروے : جولائی 2011ء کار بمبنگ اور فائرنگ کے ذریعے 77 مسلمان شہید اور 319 تک زخمی ہوئے۔
فلپائن: مارچ 1970ء سے جنوری 1972ء کے درمیان 300 سے زائد مسلمان شہید ہوئے‘ علاقہ ہے‘ منڈانائو کا جزیرہ ملک ہے، فلپائن۔
19 جون 1971ء کو 70/80 مسلمان شہید جب کہ 17 زخمی ہوئے‘ علاقہ ہے صوبہ کارمن، ملک فلپائن۔
24 اکتوبر 1971ئ‘ فائرنگ کے ذریعے 66 مسلم شہید‘ علاقہ ہے‘ صوبہ میگاسسے، ملک فلپائن۔
24 ستمبر 1974ئ‘ 1500 مسلمان شہید‘ قاتل تھی فلپائنی آرمی ۔
سری لنکا: مئی 1915ئ‘ 116 مسلمان شہید ، قاتل تھے بدھسٹ۔
1990ء میں 1 30 مسلمان شہید‘ سری لنکن ملٹری قاتل۔ جائے وقوعہ صوبہ متر۔
اگست 1990ء میں 147 مسلمان شہید‘ لبریشن ٹائیگر آف تامل قاتل۔ جائے وقوعہ مشرقی صوبہ کاتن کودے کک۔
29 اپریل 1992ء 157 مسلمان شہید‘ لبریشن ٹائیگر آف تامل قاتل۔
اکتوبر 1992ء میں 285 مسلمان شہید نا معلوم زخمی‘ قاتل ہے لبریشن ٹائیگر آف تامل۔
سپین میں 2014ء تا 2017ء مختلف مساجد پر حملے ہوئے‘ جن میں متعدد مسلمان شہید‘ حملہ آور گروپس میں NEO-NAZI اور رائٹ ونگ انتہا پسند شامل تھے۔
سویڈن: 2009ء سے لے کر 2017ء تک مختلف اسلامک سنٹر اور پناہ گزین کیمپوں پر حملے کیے گئے۔ جن میں 5 مسلمان شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔
سوئٹزر لینڈ: 19 دسمبر 2016 میں اسلامک سنٹر پر حملہ ہوا‘ جس میں 2 مسلمان شہید اور 3 زخمی ہوئے۔
یو کے: یونائیٹڈ کنگڈم کے مختلف شہروں میں 2005ء سے لے کر اکتوبر 2018ء تک متعدد مسلمانوں کو شہید کیا گیا‘ اور مختلف اسلامک سنٹرز، مساجد پر حملے کیے گئے۔
امریکہ: میں ستمبر 2001ء سے ستمبر 2017ء تک 45 ایسے واقعات ہیں‘ جن کو کم از کم اسلام فوبیا دہشت گردی تصور کیا جاتا ہے۔
ویتنام : میں مسلمانوں کو اقلیت قرار دیا گیا ہے اور 2010ء تا 2013ء مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم میں گائوں کے گائوں تباہ کیے گئے۔ مساجد جلائی گئیں۔
سپین: 2014 تا 2017 متعدد حملوں میں مسلمان خواتین، بچوں اور مساجد کی توہین کی گئی۔ حملہ آور تھے:NEO-NAZI اور رائٹ وِنگ ایکسٹریمسٹ۔
بوسنیا، ہرزے گوینیا‘ نوے کی دہائی میں 2 لاکھ مسلمان قتل کیے گئے، لاکھوں گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ حملہ آور تھے‘ کرسچین سرب اور کروٹ ملٹری۔
کورین جنگ 1940ء میں کم از کم 2.5 ملین عام انسان لقمۂ اجل بنائے گئے۔
پہلی جنگِ عظیم (1914-1918ئ) میں تقریباً 37 ملین لوگوں کو مارا گیا‘ جن میں ایک اندازے کے مطابق 10 ملین فوجی‘ باقی تمام کے تمام نہتے شہری تھے۔
دوسری جنگِ عظیم (1939-1945) میں تقریباً 70 سے 85 ملین اموات ہوئیں‘ جن میں 50 سے 56 ملین عام انسان تھے۔
ویتنام وار (1964-1969) میں تقریباً 20 سے 25 لاکھ کے درمیان لوگ مارے گئے۔
موجودہ عشرے میں مسلمانوں کے اجتماعی قتل کے واقعات لکھنے کے لیے کالم کافی نہیں‘ پوری کتاب کی ضرورت ہے۔ بھارت کے طول و عرض میں مقبوضہ کشمیر سمیت شاذ ہی کوئی ایسا دن گزرے کہ بے گناہ مسلمان گائے کی بَلی نہ چڑھا ہو۔ فلسطین کی داستان صدی کا سب سے طویل المیہ ہے۔
اس تفصیل کے 2 مطلب ہرگز مت نکالیں۔
پہلا ہے‘ نسل پرستانہ ٹرینڈ۔ دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے نام پر چند لوگوں نے جو کچھ کیا‘ وہ وحشت گری اور دہشت گردی نہیں تھا۔ اکیلے پاکستان کا مقدمہ کتنا درد ناک ہے کہ ہر گائوں، شہر، کوچے کے قبرستان میں اس کی شہادتیں ایستادہ ہیں۔ سرد جنگ کے بعد اسلاموفوبیا کو طاعون کی طرح پھیلایا گیا۔ کارپوریٹ میڈیا نے مغربی لیڈروں کے منہ میں اس کے جراثیم ڈالے اور ساتھ ہی سفید فام یوتھ کو اس کے قطرے پلا دیے۔ یوں مغربی طرزِ حیات کا نیا دشمن اسلاموفوبیا تخلیق کیا گیا؛ چنانچہ غریب مسلم ممالک اور اجڑے ہوئے مسلمان معاشرے بلڈ باتھ کی نذر ہوتے چلے گئے۔
آج میرا رُوئے سُخن تنقید ہے نہ اعتراض، اجتماعی احساس کے نام اپیل سمجھ لیں یا درد مندانہ درخواست۔ ہندوستان کے سینئر جج کاٹجو مرکنڈے نے بھی حامد میر صاحب سے گفتگو کے دوران عالمی ضمیر سے ایسی ہی درخواست کی‘ جس کا ویڈیو کلپ وائرل ہے۔ 2 اشارے میں دیے دیتا ہوں۔
پہلا؛ گلوبل ویلیج کی کوئی خبر، سرگرمی یا اچھی، بُری حرکت اب سر بستہ راز نہیں رہ سکتی۔ اسی رفتار سے نفرت کی آگ بھی پھیلتی ہے۔ کوئی نہ سوچے کہ ایک طبقہ، فرقہ، علاقہ جو آگ بھڑکائے گا جواباً اُسے محبتوں کے گلستان اور بُوستان ملیں گے۔ اس لیے اجتماعی حیات کا تازہ ترین سبق یہ ہے۔
منائو جشنِ بہاراں اس احتیاط کے ساتھ
کسی چراغ کی لو سے کسی کا گھر نہ جلے