وہ زندگی کی 93ویں بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ پاکستان ان سے 22 سال چھوٹا ہے۔ ان کا شکریہ کہ وہ 94ویں بہار پاکستان سے شیئر کر گئے‘ جس کا آغاز وزیرِ اعظم مہاتیر انشاء اللہ اس سال جولائی میں کریں گے۔
میری نشست ملائیشیا کے وزیر اعظم کے سامنے تھی۔ وزیرِ اعظم ہائوس کے بینکوئٹ ہال میں تھوڑے سے چُنیدہ مہمانوں کے درمیان انہیں خطاب کے لیے پُکارا گیا۔ ایک ملائیشین عسکری جوان نے آگے بڑھ کر ان کی کرسی پیچھے کرنے کی کوشش کی۔ وزیرِ اعظم مہاتیر محمد نے ہاتھ کے اشارے سے اپنے فوجی کو روک دیا۔ نشست پر سے متانت سے اُٹھے۔ سامنے پڑے سپیکر کا مائیک آن کیا‘ اور بسم اللہ الرحمن الرحیم، السلامُ علیکم سے خطاب شروع کیا۔ اسی صبح میں نے پہلی بار وزیرِ اعظم مہاتیر محمد سے ہاتھ ملایا۔ میں جونہی استقبالیہ لائن سے آگے بڑھا‘ وزیرِ اعظم عمران خان نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور کمال مہربانی اور اپنائیت سے مجھے مہمان وزیرِ اعظم سے متعارف کروایا۔ اس بے ساختہ اور فرینک اندازِ تعارف کے نتیجے میں وزیرِ اعظم مہاتیر محمد نے مجھ سے 60/70 سیکنڈ کی گفتگو کی‘ ساتھ پوچھا: آپ ملائیشیا گئے ہیں؟ عرض کیا: جی ہاں! بہت مختصراً۔ وزیرِ اعظم مہاتیر محمد شفقت سے کہنے لگے: پھر آ جائیں اور تفصیل سے ملائیشیا دیکھیں۔ شکریے کے ساتھ میں نے انہیں بتایا کہ پاکستان میں لوگ انہیں بہت پسند کرتے ہیں‘ مسلم اُمہ ان کے دلیرانہ فیصلوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے‘ اور 23 مارچ کے قومی دن پر پاکستان میں ان کی آمد سے پاکستانی عوام بہت خوش ہیں۔ وزیرِ اعظم مہاتیر محمد مسکرائے اور فرمایا: میں ہمیشہ سے پاکستان آنا پسند کرتا ہوں۔ یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ ملائیشیا کو پاکستان کی طرح اگست کے مہینے میں ہی آزادی حاصل ہوئی تھی۔ ہماری آزادی کے بعد‘ یعنی 31 اگست سال 1957 کے دن ملائیشیا کو منزلِ مراد ملی۔
یہ 1925 کا سال ہے۔ ملک ہے برٹش ملایا۔ تب ایشیا پر یونین جیک کا سایہ تھا اور فرنگی راج میں Kedah کے علاقے میںAlor Setar انتہائی پسماندہ بستی تھی۔ وہاں سکول کے پرنسپل صاحب کے گھر 10 جولائی 1925 کے دن ایک صدی کا آئیکون پیدا ہوا‘ جس کا نام مہاتیر بن محمد چُنا گیا۔ مہاتیر کا مطلب ہے‘ بڑے حوصلے والا۔ سیکنڈری سکول کے امتحان میں مہاتیر اول آئے۔ پھر تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ ورلڈ وار دوئم کے عرصے میں ملائیا پر جاپان کی فوجوں نے قبضہ کر لیا۔ اسی دوران مہاتیر نے کافی، کیلے، کوکو اور سنیکس وغیرہ کا بزنس شروع کیا۔ جونہی جنگِ عظیم دوئم ختم ہوئی مہاتیر محمد سینئر کیمرج کے امتحان میں بیٹھے۔ پھر میڈیسن کی تعلیم کے لیے کنگ ایڈورڈ II کالج آف میڈیسن میں داخلہ لے کر سنگا پور جا پہنچے۔ ڈاکٹر بننے کے بعد سنگا پور میں ملازمت پر گائوں واپسی کو ترجیح دی‘ اور آبائی علاقے میں میڈیکل پریکٹیشنر بن گئے۔
پاکستان بننے سے ایک سال پہلے اور ملائیشیا کی آزادی سے 11 سال قبل 1946 میں مہاتیر نے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ابتدا میں یونائٹیڈ ملائیشیا نیشنل آرگنائزیشن جوائن کی۔ عملی سیاست میں مہاتیر محمد نے پرجوش حصہ لیا اور اپنے 73 سالہ سیاسی کیریئر میں سال 1964 میں پارلیمنٹ کے رکن بن گئے۔ اسی دوران مہاتیر محمد کی سیاسی زندگی میں ایک اہم ٹوئسٹ آیا‘ جس کے نتیجے میں مہاتیر نیشنل لیڈر کے طور پر ابھرتے چلے گئے۔ یہ تھا‘ اس وقت کے وزیرِ اعظم تنکو عبدالرحمن کا انتہائی متنازع معاہدہ‘ جس کے تحت برٹش افواج ملائیا کی آزادی کے بعد بھی ملائیشیا میں رہنی تھیں۔ مہاتیر محمد اپنی ملائیشیا کی حکومت کی پالیسیوں کے اہم ترین ناقد بن گئے۔ لیکن سال 1969 کے انتخابات میں انہیں آبائی علاقے سے شکست ہوئی۔ پارلیمنٹ سے باہر ہو جانے کے باوجود بھی مہاتیر محمد نے حکومتی پالیسیوں پر تنقید جاری رکھی۔ پالیسی سازی کے بارے میں ان کا ایک خط‘ جو وزیرِ اعظم کو لکھا گیا تھا‘ عوامی حلقوں میں سُپر ہٹ ثابت ہوا۔ اس قلمی مہم جوئی کے دو نتائج نکلے: پہلا‘ ملائیشیا کے وزیرِ اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ زور پکڑ گیا‘ جبکہ دوسرے‘ مہاتیر محمد کو UMNO کی سپریم کونسل سے خارج کر دیا گیا۔ مہاتیر محمد نے یہ وقت بھی ضائع نہیں کیا؛ چنانچہ وہ کتاب لکھنے بیٹھ گئے‘ جس کے ذریعے انہوں نے ملائی قوم کو پیسے اور وقت کی قدر کرنے کا سبق پڑھایا۔ اس کتاب نے ملائیشیا کے عام لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے جگا دیا؛ چنانچہ مہاتیر محمد کی کتاب پر پابندی لگا دی گئی‘ مگر وزیرِ اعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔ سال 1970 میں تنکو عبدالرحمن عوامی دبائو کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ملائیشین وزیرِ اعظم کے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ UMNO پورے احترام کے ساتھ مہاتیر محمد کو سپریم کونسل میں واپس لے آئی۔ فنِ حکومت و امورِ سیاست کے طلباء کے لیے مہاتیر محمد کی سیاست کا اگلا مرحلہ خاصا دلچسپ ہے۔ 1973 میں وہ سینیٹ کے رکن بن گئے۔ پارلیمنٹ کے اسی عہدے کی بنیاد پر ایک سال بعد 1974 میں انہیں وزارتِ تعلیم کا Portfolio ملا۔ تب ملائیشیا کی کابینہ کے سربراہ وزیر اعظم حسین تھے‘ جنہیں صحت کے سنجیدہ مسائل درپیش ہوئے؛ چنانچہ مہاتیر محمد ڈپٹی وزیر اعظم چن لیے گئے۔ سال 1981 میں وزیر اعظم حسین نے خرابیٔ صحت کی بنیاد پر وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔ اس طرح مہاتیر محمد کی سیاست کا پرائم ٹائم شروع ہوا۔ مہاتیر محمد 16 جولائی 1981 سے لے کر اکتوبر 2003 تک ملائیشیا کے چوتھے وزیر اعظم رہے۔ ملائیشین وزیر اعظم مہاتیر محمد کو دنیا میں سب سے لمبے عرصے تک کے لیے Serving Elected Representative رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ملائیشیا میں اپنی عظیم ترین شہرت اور مسلم اُمہ میں محبوب ترین شخصیت بن جانے کے باوجود مہاتیر محمد نے اقتدار کا ''بھریا میلہ‘‘ چھوڑنے کا فیصلہ کر دیا۔ اسی تسلسل میں وزیر اعظم مہاتیر محمد نے سال 2003 میں اپنی سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ اس عرصۂ اقتدار میں مہاتیر انتہائی عزم اور حوصلے کے ساتھ مسلم اُمہ اور خاص طور سے فلسطین کے لیے مؤثر ترین آواز بنے رہے۔ 9/11 کے بعد اکثر مسلمان حکمران امریکی صدر کے ٹوڈی بنے ہوئے تھے۔ امریکی انتظامیہ کا ادنیٰ آفیسر ٹیلی فون کرتا اور عالمِ اسلام کے شیر کانپتے ہاتھوں سے فون اٹھا کر ڈھیر ہو جاتے۔ ایسے ماحول میں مہاتیر محمد مسلم نشاۃِ ثانیہ کی آواز بن کر ابھرے‘ اور 9/11 کو امریکن نوٹنکی قرار دے دیا۔ مہاتیر محمد ملائیشیا کے خزانے کو لُٹتا نہ دیکھ سکے، پلنڈر اور قومی وسائل کی ڈکیتی پر خاموش تماشائی بننے سے انکارکیا؛ چنانچہ فروری 2016 میں UMNO کو تج دیا۔ اسی سال 9 ستمبر کے دن ملائیشین یونائٹیڈ انڈیجنئس پارٹی کو رجسٹرڈ کروایا‘ اور اس کے چیئرمین چنے گئے۔Paktan Horpan Colliation نے 8 جنوری 2018 کو مہاتیر محمد کو پھر سے ملک کا ساتواں وزیرِ اعظم منتخب کر لیا۔ نئی صدی کے مہاتیر محمد نے ملائیشیا کو ایک بار پھر عالمی معاشی طاقت کے طور پر استحکام کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ گزشتہ حکمرانوں کی کرپشن اور شاہی خاندان کے اختیارات کا خاتمہ 94 سالہ وزیرِ اعظم کے جرأت مندانہ کارنامے ہیں۔
برادر اسلامی ملک ملائیشیا کے اس گلوبل آئیکون کے 2 منظر میری آنکھوں کو ٹھنڈک جیسے لگے۔ متروک وزیرِ اعظم ہائوس کے بینکوئٹ ہال سے نکلتے ہوئے مہاتیر محمد نے مسکرا کر کہا ''ہم ملتے رہیں گے‘‘۔ دوسرا وہ لمحہ جب His Excellency مہاتیر محمد نے ہمارے پرچمِ ستارہ و ہلال کو چوم کر آنکھوں سے لگا لیا۔ ہمارے اس محترم قومی مہمان نے فوٹون گاڑی کی چابی وزیرِ اعظم عمران خان کو کمال محبت سے پیش کی۔ انہوں نے مسلم دنیا کے 2 بہادر ملکوں کے مابین نئی صدی کی پارٹنرشِپ کا دروازہ کھولا ہے۔ پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے اللہ تعالیٰ پھر سے مواقع کی سرزمین بنا رہے ہیں۔ حکمران قومی وسائل کا چوکیدار ہوتا ہے۔ چوکیدار چور نہ ہو تو ملک کو کسی سے خطرہ نہیں رہتا۔
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر، میرِ کارواں کے لیے