"SBA" (space) message & send to 7575

رِنگ آف فائر

25 دسمبر، حضرت عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام کا یومِ ولادت، بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا یوم پیدائش۔ یہ سب کمرشل بولنے والوں کو بھول گیا۔ جو یاد رہا وہ 15 کلو ہیروئن کے ہاضمے کے فضائل اور فوائد تھے۔ ذرا سرحد پار دیکھ لیں۔ پورا سیکولر بھارت، بلا تفریق مذہب مودی راج کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔ سانحہ جلیانوالہ باغ، امرتسر سے نکل کر پورے بھارت میں پہنچ رہا ہے۔ ریاستی دہشت گردی سوشل میڈیا کے ذریعے عالمی برادری کے سامنے ہے۔ بلوائی کہیں نظر نہیں آ رہے؛ البتہ باوردی پولیس بَیج اُتار کر لمبی لمبی ڈانگوں سے مسلح۔ چاروں اَور انسانوں، کاروں، موٹر سائیکلوں، گھروں اور روشنیوں کو تہس نہس کرتی پھر رہی ہے۔ ہر پُلسیا ادتیہ ناگ یوگی ہے۔ یہ بھی کوئی ''اہم‘‘ خبر نہیں تھی۔
بھارت نے لائن آف کنٹرول اور ہمارے مشرقی بارڈر سے خاردار تاروں کی دیوار میں نقب لگائی۔ ایک نائب صوبے دار کنڈیرو اور سپاہی احسان شہید ہوئے۔ اسی آہنی دیوار کے پیچھے ہمارے خلاف جارحیت کے لئے بارود کے انبار لگائے جا چکے ہیں۔ ہندوستانی مذہبی اقلیتوں پر کُھلا تشدد، فائرنگ‘ ہلاکتیں بھارت میں ہو رہی ہیں مگر امریکہ بہادر نے کرسمس کے روز پاکستانی اقلیتوں کے خلاف تصوراتی تشدد (Imaginary Violence) پر رپورٹ جاری کر ڈالی۔
اس سال مجھے پنڈی، اسلام آباد کی دو بڑی کرسمس سروسز میں شرکت اور گفتگو کا موقع ملا۔ (Grace of God) چرچ راولپنڈی کے پاسٹر عادل گِل اور کرسچین کمیونٹی کے لیڈر دعوت دینے لاء آفس آئے۔ اُٹھتے ہوئے کہنے لگے‘ ہمارے لائق کوئی خدمت؟ عرض کیا‘ کینٹ کی کرسچین لائبریری بہت مشہور ہے‘ جہاں انتہائی قدیم کتابی نسخے ہیں۔ وہاں لے چلیے گا۔
سینکڑوں سے زیادہ خاندانوں اور پاکستان میں روشن مستقبل پر نظر رکھے ینگ کرسچین لڑکے لڑکیوں سے گفتگو ایک علیٰحدہ تجربہ تھا۔ اُسی شام برادرم خورشید ندیم کا ٹیلیفون آیا۔ کہنے لگے‘ آپ کو دعوت دینی ہے‘ اسلام آباد کرسچین کالونی میں کرسمس کے حوالے سے تقریب ہے‘ آرگنائزیشن فار ریسرچ اینڈ ایجوکیشن نے سکول کے بچوں میں سٹڈی بیگ کرسچین برادری کے لئے لنچ باکس، کتابوں اور میری گفتگو کا اہتمام کر رکھا تھا۔ وہاں بچوں اور عورتوں کی تعداد زیادہ تھی۔ شہر کے کچھ جانے پہچانے مسلم سماجی کارکن بھی۔ دونوں جگہ تلخ نوائی ہوئی نہ مایوسی کا پرچار۔ امریکہ شریف کی تقلید کیسے کیسے شریف لوگوں کا سیاسی فلسفہ ہے۔ اس کا اظہار حضرت سیاسی مولانا کے انٹرویو کے اقتباس سے دیکھ لیجیے۔ 
''فاٹا انضمام جس طرح ہم نے کیا ہے بالکل اُسی طرح کشمیر کا انضمام انڈیا نے کیا ہے۔ ہم نے فاٹا کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا ہے۔ انڈیا نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا ہے۔ ہم نے آرٹیکل 247 کا خاتمہ کیا ہے۔ انہوں نے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا ہے۔ فاٹا براہِ راست صدرِ مملکت کے ذریعے ختم ہوا ہے۔ بالکل اس طرح کشمیر براہِ راست ''صدر جمہوریہ ہند‘‘ کے ذریعے ختم ہوا ہے۔ فاٹا جہاں پاکستان کا آئین میسر نہیں تھا۔ کشمیر جہاں انڈیا کا آئین میسر نہیں تھا۔ فاٹا جہاں پر وزیر اعظم کا ایگزیکٹو آرڈر نہیں چلتا تھا۔ کشمیر جہاں انڈیا کے وزیر اعظم کا ایگزیکٹو آرڈر نہیں چلتا۔ کشمیر جہاں پر انڈیا کا پارلیمنٹ میسر نہیں۔ اب اس مشابہت کی بنیاد پر دیکھیں کہ اب فاٹا کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ ہم وہاں پر رو رہے ہیں کہ کشمیر میں یہ ظلم ہو رہا ہے۔ لیکن ہم نے جو وعدہ کیا تھا فاٹا کے ساتھ کہ ہر سال آپ کو 100 ارب روپیہ دیں گے اور 10 سال تک 1000 ارب روپیہ دیں گے۔ آپ کو مستقل ایریا کے برابر لائیں گے۔ آج تک ایک ''ٹیڈی پیسہ‘‘ اس کو نہیں ملا ہے‘‘۔
اس ویڈیو انٹرویو پر تبصرے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ قبلہ مولانا کے بزرگوں نے پاکستان بنانے کی ''غلطی‘‘ میں شرکت نہیں کی تھی۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر پہ موجودہ لاک ڈائون پر اُن کا موقف جمعیت علمائے ہند اور ابوالکلام آزاد کے موقف کی کاربن کاپی ہے۔ ہاں البتہ یہ موقف پاکستان کے بعد بھارت میں بھی لنڈے بازار کا کنڈم مال بن گیا۔ ان دنوں بھارتی یوتھ کی زبان سے فیض احمد فیض کی نظم ''ہم دیکھیں گے‘‘ اور حبیب جالب کی نظم ''ایسے دستور کو میں نہیں مانتا‘‘ ہر احتجاج میں گونج رہی ہیں۔ قائد اعظم کے دو قومی نظریے سمیت۔
دو قومی نظریہ پر 15 اکتوبر 1937 کو لکھنو میں قائد اعظم نے فرمایا تھا
''اکثریتی کمیونٹی نے واضح طور پر دکھا دیا ہے کہ ہندوستان صرف ہندوئوں کے لئے ہے‘‘۔
پھر 9 مارچ 1940 کو برطانوی جریدے Time and Tide میں آرٹیکل لکھا: 
ترجمہ: ''برطانوی لوگ کبھی کبھار عیسائی ہوتے ہوئے بھی اپنی ہی تاریخ کی مذہبی جنگوں کو بھول جاتے ہیں۔ اور آج مذہب کو انسان اور خدا کے درمیان ایک ذاتی اور نجی معاملہ تصور کرتے ہیں۔ ہندو ازم اور اسلام میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ دونوں مذاہب میں سماجی زندگی کے مخصوص ضوابط اور اصول ہیں‘‘۔
23 مارچ 1940 کو لاہور کے تاریخی خطاب میں قائد اعظم نے یہ اٹل حقیقت دہرائی:
''ہمارے پاس پچھلے اڑھائی سال کا تجربہ ہے۔ ہم سبق سیکھ چکے ہیں۔ اب ہم خائف ہیں اور کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتے... ہمیشہ یہ بات کہنا غلط ہو گا کہ مسلمان ایک اقلیت ہیں۔ مسلمان قومیت کی ہر تعریف کے مطابق ایک قوم ہیں... یہ کہنا ایک خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک قوم میں ایوالو (Evolve) ہو سکتے ہیں۔ اس ''ایک انڈین قوم‘‘ کی غلط فہمی میں بہت مصائب ہیں، اور اگر ان (غلط) قیاسات کو وقت پر ٹھیک نہ کیا گیا تو یہ انڈیا کو تباہی کی طرف لے جائیں گے... ہندو اور مسلمان دو (مختلف) مذاہب، فلاسفی، سماجی اقدار اور لٹریچر (ادبی روایات) سے تعلق رکھتے ہیں۔ نہ وہ ایک دوسرے سے شادی کرتے ہیں نہ اکٹھے کھانا کھاتے ہیں۔ اور درحقیقت دو ایسی مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کی بنیادیں دو مخالف افکار اور تصورات پر استوار ہیں۔ اُن کا تصورِ حیات مختلف ہے۔ ان کی داستانیں، واقعات اور ہیروز مختلف ہیں۔ اکثر اوقات ایک کا ہیرو، دوسرے کا دشمن ہے۔ اور اسی طرح اُن کی فتوحات اور شکست ایک دوسرے کے خلاف ہیں‘‘۔
سال 1943 میں انگلش جرنلسٹ Beverley Nicholas سے انٹرویو میں بانیٔ پاکستان نے دو قومی نظریہ ان الفاظ میں واضح کیا:
''اسلام صرف ایک مذہبی عقیدہ نہیں ہے بلکہ روزمرّہ کی زندگی اور تمام اہم معاملات کے لئے ایک حقیقت پسندانہ ضابطۂ حیات ہے۔ ہماری تاریخ، قوانین اور فقہ‘ ان سب میں ہمارا نقطہ نظر نہ صرف ہندوئوں سے مختلف ہے بلکہ ان سے متصادم ہے۔ زندگی میں کچھ بھی ایسا نہیں ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے جوڑ سکے۔ ہمارے نام، لباس، خوراک، تہوار اور رسومات سب مختلف ہیں۔ ہماری معاشی زندگی، ہمارے تعلیمی افکار، خواتین کے ساتھ سلوک، جانوروں سے برتائو اور انسانی اقدار سب کے سب بہت مختلف ہیں‘‘۔
ایک اور موقع پر قائد اعظم نے فرمایا ''ایک بھارت کا آئیڈیا عملی نہیں۔ میری Judgment میں یہ ہمیں ایک بڑی آفت میں مبتلا کر دیتا‘‘۔ 8 مارچ 1944 کو علی گڑھ یونیورسٹی میں دو قومی نظریے کے موضوع پر طلبہ کی یوں رہنمائی کی:
''ہندو، مسلمان ایک قصبے، گائوں میں رہ کر بھی ایک قوم نہیں بن سکے۔ یہ ہمیشہ سے الگ الگ وجود ہیں... مسلمانوں کی حکومت سے بہت پہلے، قیام پاکستان کا آغاز تب ہوا‘ جب پہلے غیر مسلم نے اسلام قبول کیا۔ جیسے ہی کوئی ہندو اسلام قبول کرتا ہے اسے مذہبی، سماجی اور معاشی طور پر نکال باہر کیا جاتا ہے۔ اسلام مسلمان پر فرض عائد کرتا ہے کہ وہ اپنی شناخت اور انفرادیت کسی اجنبی معاشرے میں ضم نہ کرے۔ صدیوں سے ہندو، ہندو ہیں اور مسلمان، مسلمان۔ دونوں نے اپنی شناخت برقرار رکھی۔ یہی قیام پاکستان کی بنیاد ہے‘‘۔
آج اکھنڈ بھارت اور ہندتوا کے نعرے رِنگ آف فائر کی زد میں ہیں۔ یہی قائد اعظم کے مؤقف کی سچائی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں