"SBA" (space) message & send to 7575

کاٹھ کی ہنڈیا اور بے فیض ادارے

ایلیٹ پاکستان کے مقتدر حلقوں میں سوچنے والے کو کمزور اور سمجھنے والے کو کمی کمین جانا جاتا ہے۔ بلا سوچے سمجھے بے نقط سنانے والا اثاثہ ہوتا ہے۔ کیونکہ بوقت ضرورت اس اثاثے کو استعمال میں لاتے ہیں۔ اس کے باوجود کچھ پیدائشی نادان یہ سوچنے کی جسارت کرتے ہیں کہ سب سے پرانی جمہوریت روم‘ اور سب سے ممتاز ڈیمو کریسی انگلستان میں ہے۔ جہاں لفظ 'ادارے‘ کبھی سننے کو نہیں ملتا۔ ماسوائے اس کے کہ رومن ایمپائر میں پالیسی سازی‘ فیصلہ سازی اور Implementation‘ تینوں ایک ہی ادارے سینیٹ کے پاس جمع تھے‘ جبکہ برطانیہ میں تاجِ برطانیہ اور دارالعوام‘ صرف دو ادارے پائے جاتے ہیں۔ ان دونوں بڑی ایمپائرز نے اکثر ملکوں کو فتح کیا‘ انہیں غلام بنایا اور ان کی سلطنتوں پہ سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔ مگر دونوں جگہ کھلا بحث مباحثہ‘ ریاست کی پالیسیوں پہ تنقید اور حکمرانوں کا شدید ترین احتساب کرنے کی تاریخ ملتی ہے۔ اس جمہوریت کے بارے میں عظیم سوچ رکھنے والے مفکر شاعر حضرت علامہ اقبالؒ نے محمود و ایاز کی برابری کے اصول کو جمہوریت ہی کے عنوان سے یوں بیان کیا:
اس راز کو اک مردِ فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
پاکستان کے لوگوں نے ساری قسم کی گنتی کو 8 فروری کے دن پلٹا کر رکھ دیا۔ نئے پاکستان کا یہ پلٹا دیکھ کر درباری ماہرین‘ پیڈ کانٹینٹ والے اور اشتہاری حرف و صوت سب 'دڑ‘ گئے۔ سندھی زبان میں دڑو کو قبر‘ کھڈا اور پناہ گاہ کے معنوں میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ چُک چُکا اور مار دھاڑ سے بھرپور مہم کے نتیجے میں پرانے کرداروں کے مابین نیا مذاقِ جمہوریت وجود میں آیا۔ اس کے تین مرکزی کرداروں نے ہر حکومت میں براہِ راست اور بے راہِ راست حصہ بقدرِ جُثہ وصول کیا۔ یہ اتحادِ ثلاثہ اب مل کر نئی کاٹھ کی ہنڈیا پکانے نکلا ہے جس کے نیچے ایک لکڑی لسانی ہے‘ دوسری صوبائی اور تیسری نیم صوبائی نیم خاندانی۔ عوام کے لیے حکم شاہی یہ ہے کہ گلے سڑے‘ بوسیدہ کاٹھ کی اس ہنڈیا کو بلا سوچے سمجھے بغیر کسی چوں چرا کے‘ نمائندہ اور منتخب جمہوری حکومت لکھا اور پکارا جائے۔ تازہ ڈیمو کریٹک چورن کو مقامی منڈی کے علاوہ انٹرنیشنل مارکیٹ نے بھی مسترد کر چھوڑا ہے۔
اب ذرا چلتے ہیں بے فیض اداروں کی طرف جن میں پاکستان سٹیل ملز‘ ملک کا محکمہ ریل گاڑی‘ گریٹ لوگوں کو فلائی کروانے والی پی آئی اے اور اَن گنت دوسرے اداروں کو شامل کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے انچارج فیڈرل منسٹر کیبنٹ ڈویژن اور پارلیمنٹیرین کی حیثیت سے میں نے درجنوں سے زیادہ آخری درجے کی لایعنی بریفنگز میں شرکت کی۔ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ہر مرتبہ اعلیٰ درجے کے سیاسی بیورو کریٹس 75‘ 85 سالہ راج نیتی کے ریٹائرڈ سنیاسی باوے‘ پچھلی بریفنگ کا ایکشن ری پلے کرتے تھے۔ اس بریفنگ کے تین حصے ہوتے۔ پچھلی حکومت کی پولیٹیکل Will کی مذمت کی جاتی۔ سفید کاغذ کے زمانے والی بریفنگ کو ملٹی میڈیا رنگین سلائیڈ کے ذریعے نیا ویژن کہہ کر دکھایا جاتا۔ میٹنگ کے آغاز میں ہی سرکاری خرچ پر مہنگے پانی کی بوتلیں اور کھانے پینے کی چیزیں شرکا کے سامنے آ جاتیں۔ آخر میں میٹنگ بغیر کسی روڈ میپ یا بغیر کسی نتیجے کے 'آل از ویل‘ والے فلمی ڈائیلاگ پر ختم ہو جاتی۔ ملکی معیشت کو نوچنے والے پرانے گھاگ گدھ خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں‘ بے فیض ادارے‘ بے فیض نمائشی کارروائی‘ بے فیض قیادت اور عام آدمی کے لیے بے فیض نظام ہمیشہ اسی ڈگر پر چلایا جاتا رہا ہے۔ ایسی ڈگر جس سے ایلیٹ مافیا کا بھلا ہو سکے۔ پاکستان کی نئی نسل نے کاٹھ کی ہنڈیا کی طرح اس بے فیضی سے مزید فیض یاب ہونے سے کھل کر انکار کر دیا۔
فیض یاب ہونے سے یاد آیا‘ ابھی چند دن پہلے دو تاحیات اقتداری پارٹیوں نے قوم کو خوشخبری دی کہ وہ عوام کے لیے بجلی مفت کر دیں گی‘ پاکستان ترقی کرے گا۔ ایک نے کہا: ملک ایشین ٹائیگر بنے گا‘ دوسرے نے کہا: نہیں‘ یہ پیرس بنے گا۔ ایک نے قسم کھائی: دوسرے کا پیٹ پھاڑ کر چوری کا مال نکالوں گا۔ پھر اُسے لاہور‘ کراچی‘ پشاور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹوں گا۔ دوسری پارٹی بولی: چاہے کچھ بھی ہو جائے اب میں پنجاب والوں کے ساتھ اقتدار میں نہیں جائوں گی۔ جوں ہی 9 فروری والے الیکشن کا نتیجہ تیار ہونا شروع ہوا‘ ان دونوں کے درمیان نہیں چھوڑوں گی اور نہیں جائوں گی والی تکرار ختم ہو گئی۔ نو نشستوں میں اکٹھے بیٹھ کر یہ تمہارا‘ یہ ہمارا یعنی ادھرہم‘ اُدھر تم کا اقتداری فارمولا پھر سے بنا لیا۔ یہ دونوں الیکشن سے پہلے کہتے تھے: ہمیں میثاقِ معیشت کرنا چاہیے۔ اُن کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے تھا‘ وہ سچے تھے۔ اُنہوں نے دونوں خاندانوں کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے اور جو نقصان اُنہیں عبوری حکومتوں کے دور میں ہوا‘ اُس کی ریکوری کے لیے آپس میں کھنڈ کھیر ہو گئے۔ جس کی سادہ سی وجہ وَنڈ کھائو‘ کھنڈ کھائو ہے۔ مجھے گائوں کی اُس ترناک بڑھیا کا قصہ یاد آ رہا ہے جو محلے سے چندہ جمع کر کے اجتماعی کھانے کا بندوبست کرتی تھی۔ ایک دن محلے کے لوگوں نے اُس کے کھانوں سے تنگ آ کر کہا: اب ہم ہر روز ایک ہی کھانا نہیں کھائیں گے۔ بڑھیا فوراً مان گئی۔ شام کے کھانے پہ اُس نے سب کے سامنے ایک ایک روٹی رکھی اور کہا کہ لسوڑے کا اچار کھائو۔ ایک بزرگ بولا: میں لسوڑا نہیں کھاتا‘ اُس نے کہا: آم کی ڈلی ڈال لو۔ تیسرے نے کہا: مجھے آم سے الرجی ہے۔ بڑھیا بولی: مولی کا اچار لے لو۔ ایک اور آواز آئی‘ مولی سے کھٹی ڈکاریں آتی ہیں۔ اُس نے کہا: تمہارے لیے کریلا اچار میں ڈالا تھا۔ ایک سیانا کہنے لگا: آنٹی یہ سارا اچار آپ نے ہم پہ بانٹ دیا ہے‘ آپ کیا کھائیں گی؟ اُس نے کہا: میں نے کیا لینا ہے‘ بس کھنڈ ملائی کھا مر لوں گی۔ PDM راج ٹو کے سیزن ٹو کے میثاقِ معیشت میں کھنڈ ملائی حکمرانوں کے لیے ہی ہے۔ مگر IMF کا قرضہ عوام کے لیے۔ غلط مطلب مت لیں قرضہ واپسی عوام نے کرنی ہے۔ اسے کھانے والوں میں سارا ایلیٹ مافیا شامل ہے۔ اسی لیے قیدی نمبر 804 کا خط ان کی آنکھ کا شہتیر بن گیا ہے‘ جو کہتا ہے قرض مینڈیٹ چوری کرنے والوں کو ملا تو اُسے چوری کا مال سمجھ کر آپس میں بانٹ لیں گے۔
یادش بخیر! یہ IMF کا وفد زمان پارک میں خان سے ملنے گیا اور درخواست کی کہ آپ IMF پروگرام کو Public Approval دیں ہم Fair اینڈ Free الیکشن کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔ اب اگر قیدی نمبر 804 یاد دہانی کا Reminder بھیجے تو اُس میں غلط کیا ہے؟؟ ویسے اگر قرض پر ہی چلنا ہے تو پھر پاکستان کی ترقی کا جھوٹ بولنے کی ضرورت کیا ہے۔ بقول جالبؔ:
قرض سے ملک بھی چلے ہیں کبھی
زندہ قوموں کا یہ شعار نہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں