میں نے گزشتہ کالم میں ڈکسن پلان کا ذکر کیا تھا۔ ڈکسن کو 50ء کی دہائی میں مسئلہ کشمیر پر ایک اتھارٹی مانا جاتا تھا۔ پاکستان اور انڈیا کی حکمران اشرافیہ‘ خصوصاً پنڈت جواہر لال نہرو نے اس حقیقت کو کھلے عام تسلیم کیا تھا کہ ڈکسن کشمیر کے مسئلے اور اس کے حل کے بارے میں غیرمعمولی علم اور دسترس رکھتا ہے‘ مگر اس کے باوجود ڈکسن پلان کو رد کر دیا گیا۔ اس کے بعد جو شخص مسئلہ کشمیر پر پلان یا تجاویز لے کر آیا‘ وہ مسئلہ کشمیر پر ڈکسن سے بھی زیادہ دسترس رکھتا تھا۔ یہ شخص جوزف کاربل تھا۔ جوزف چیکو سلواکیہ کا سفارت کار تھا جو شروع دن سے ہی مسئلہ کشمیر سے منسلک رہا تھا۔ اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا پاکستان کا ممبر اور چیئرمین بھی رہا تھا۔ وہ اس کے علاوہ کشمیر پر ریسرچ پیپر اور ایک کتاب بھی لکھ چکا تھا‘ لیکن جوزف نے بھی جو حل تجویز کیا وہ استصوابِ رائے کے گرد ہی گھومتا تھا اور اس میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔
جوزف کاربل نے 1953ء میں لکھا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ریاست جموں و کشمیر کے تنازع کو سکیورٹی کونسل کے ایجنڈے پرآئے ہوئے چھ سال ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اس کے پُرامن اور حتمی حل کے لیے کوشش کر چکی ہے‘ جس میں اس کو کامیابی نہیں ہوئی۔ اس سلسلے میں ہونے والی تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ اقوامِ متحدہ کے لیے یہ مسئلہ ثالثی تک محدود رہا اور اب بھی یہ مسئلہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہے‘ جو اس مسئلے کے فریق ہیں۔ گزشتہ سال اگست میں پاکستان اور بھارت نے اس تنازع کا پُر امن حل نکالنے کا عندیہ دیا تھا۔ یہ بات آزاد دنیا کے لیے باعثِ اطمینان تھی۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور پاکستانی وزیراعظم محمد علی بوگرا کے درمیان چار دن کی گفتگو کے بعد دونوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا۔ پاکستان اور انڈیا کے حکمران دہلی میں کئی ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ یہ ملاقاتیں اس بات چیت کا تسلسل تھیں جو تین ہفتے قبل کراچی میں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں کشمیر سمیت دوسرے تمام معاملات پر کھل کر بات ہوئی۔ دونوں وزرائے اعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دونوں ممالک کے مفاد میں اس مسئلے کا حل نکالیں گے۔ یہ ان کی پختہ رائے تھی کہ یہ مسئلہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق ان کے بہترین مفاد میں کچھ اس طرح حل کیا جائے کہ اس کی وجہ سے ان کی موجودہ زندگی میں کوئی بڑی پریشان کن تبدیلی نہ ہو۔ عوام کی رائے کے اظہار کا سب سے زیادہ قابلِ عمل طریقہ استصوابِ رائے ہے۔ اس طرح کا استصوابِ رائے چند سال پہلے تجویز کیا جا چکا ہے لیکن کچھ ابتدائی مسائل کی وجہ سے اس سمت میں پیش قدمی نہ ہو سکی۔ وزرائے اعظم نے اتفاق کیا کہ ان ابتدائی مسائل پرا تفاق کے لیے براہِ راست بات چیت کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے اور اگلے قدم کے طور پر استصوابِ رائے کے لیے انڈمنسٹریٹر مقرر کیا جائے۔ ایک عارضی ٹائم ٹیبل کے لیے یہ طے کیا گیا کہ ایڈ منسٹریٹر کا تقرر اپریل 1954ء کے اختتام سے پہلے کیا جائے۔ اس سے پہلے جن ابتدائی مسائل کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ان کا حل نکالا جائے اور اس پر عمل درآمد کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے فوجی اور سول کمیٹیاں بنائی جائیں جو وزرائے اعظم کی معاونت کریں۔ ایڈمنسٹریٹر کی نامزدگی اور جموں و کشمیر حکومت کی طرف سے اس کے تقرر کے سلسلے کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کی جائے اور اس سلسلے میں دیگر اقدامات کے لیے تجاویز پیش کی جائیں گی۔اس سرکاری اعلامیے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ دونوں وزرائے اعظم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے پوری ریاست میں استصوابِ رائے کرایا جائے۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے ایڈ منسٹریٹر کے تقرر پر غور کیا ہے جو استصوابِ رائے کے لیے تجاویز دے گا۔ تیسرا یہ کہ تقرر کے لیے جو عارضی ٹائم ٹیبل بنایا گیا ہے اس کا دارومدار ابتدائی مسائل کے حل پر ہے۔ یہ ابتدائی مسائل کیا ہیں؟ اقوامِ متحدہ کی ثالثی کی تاریخ سے یہ سامنے آتا ہے کہ ان ابتدائی مسائل میں پہلا مسئلہ فوجوں کا انخلا ہے‘ جس کے بغیر استصوابِ رائے ممکن نہیں۔ یہ ابتدائی مسئلہ گزشتہ چھ سال سے ایک بڑی رکاوٹ رہا ہے لیکن دوستی کے نئے جذبے کے تحت اور نئے معاشی مسائل کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کی حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ سکیورٹی کونسل میں کشمیر ایشو جنوری 1948ء میں آ گیا تھا۔ اس دن بھارت نے پاکستان کے خلاف اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل34 اور 35 کے تحت شکایت درج کی ۔ سکیورٹی کونسل نے باب چھ کے تحت اس مسئلے پر غور و فکر شروع کیا جو مسائل کے پُر امن حل کی بات کرتا ہے۔ یہ باب سکیورٹی کونسل کے اختیارات کو سفارشات تک محدود کرتا ہے۔ اس باب کے تحت جارحیت کا تعین نہیں کیا جاتا یا پابندیوں کا اطلاق نہیں کیا جاتا۔ اس درخواست کے جواب میں سکیورٹی کونسل نے 21 اپریل 1948ء کو ایک قرار داد پاس کی۔ اس قرار داد میں پاکستان اور بھارت سے کہا گیا کہ وہ کشمیر میں لڑائی کو روکنے کے لیے پوری کوشش کریں۔ کونسل نے پانچ رکنی کمیشن کا تقرر کیا جو قیامِ امن کے لیے دونوں ممالک کی معاونت کرے گا۔ کمیشن نے تجویز کیا کہ دونوں ممالک اپنی افواج کو نکال کر کم از کم سطح پر لائیں اور سیکرٹری جنرل ایڈمنسٹریٹر کو نامزد کریں جو استصوابِ رائے کا بندوبست کرے۔ پاکستان اور بھارت دونوں نے اس قرارداد پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔ پاکستان کے نزدیک یہ قرارداد ناکافی تھی کیونکہ یہ استصوابِ رائے کی ضمانت نہیں دیتی تھی۔ بھارت کے نزدیک یہ قرارداد ضرورت سے زیادہ تھی کیونکہ یہ پاکستان کو‘ جو بنیادی طور پر مدعا علیہ تھا‘ بھارت کے مقابل کھڑا کرتی ہے‘ تاہم دونوں ممالک نے کمیشن کی ثالثی قبول کرنے پر رضا مندی ظاہر کی۔ کمیشن کے لیے صورتحال خوشگوار نہیں تھی۔ کمیشن کی آمد سے پہلی ہی پاکستانی پریس نے خبردار کر دیا تھا کہ ان کا سیاہ جھنڈوں سے استقبال کیا جائے گا۔ دوسری طرف بھارتی اخبارات نے لکھا کہ بھارت کمیشن سے مشروط تعاون کرے گا۔ اس طرح دونوں طرف سے کمیشن کے لیے شک کا اظہار کیا گیا۔ کمیشن کے لیے یہ افسوسناک صورتحال تھی‘ چونکہ کمیشن کا کام محض تجاویز دینا اور اپنی سفارشات پیش کرنا تھا اور ایسا تب ہی ممکن ہو سکتا تھا جب دونوں ممالک کی طرف سے اس کو اعتماد حاصل ہو۔
اس لیے کمیشن نے بڑی احتیاط سے آگے بڑھنا تھا۔ پاکستان اور بھارت کے نمائندوں سے طویل ملاقاتوں کے بعد کمیشن کو مسئلہ کشمیر کی پیچیدگیوں کا بہتر اندازہ ہوا۔ دریں اثنا کشمیر کی جنگ جاری رہی۔ اکتوبر 1947ء سے اس تصادم میں ایک طرف مہاراجہ ہری سنگھ کی افواج اور بھارتی افواج تھیں‘ اور دوسری طرف پاکستان کے قبائلی علاقوں کے لوگ۔ یہ آزاد کشمیر کی تحریک منظم کر چکے تھے اور پاکستان کے ساتھ ملنے کے خواہش مند تھے۔ بھارتی حکومت نے مہاراجہ ہری سنگھ کی مدد کے لیے اپنی افواج ارسال کر دیں اور کمیشن کے جولائی 1948ء میں برصغیر میں پہنچنے سے پہلے پاکستان اپنے تین بریگیڈ کشمیر میں داخل کر چکا تھا۔ اس سے صورتحال پیچیدہ تر ہوتی گئی۔ فوجوں کا انخلانہ ہونے کی وجہ سے استصوابِ رائے کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ جوزف کاربل کے بعد کشمیر کا نیا حل کون لے کر آیا اس کا احوال کسی آئندہ کالم میں بیان کیا جائے گا۔