قانون‘ جیلیں اور طاقتور مجرم

چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس مشیر عالم کا یہ بیان لمحہ فکریہ ہے کہ’’ حکومت بیرونی دبائو پر سزائے موت اور دیگر سزائوں سے متعلق عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کر رہی جبکہ دہشت گر د اور دیگر خطر ناک مجرم جیلوں میں نہ صرف عیاشیاں کر رہے ہیں بلکہ اپنے نیٹ ورک کے ذریعے سنگین وارداتیں کر وا رہے ہیں اور بد امنی پھیلا رہے ہیں‘‘۔ کراچی میں میڈیا سے بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ ’’انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کی کارکردگی تسلی بخش ہے،نمٹائے جانے والے پچاس فیصد مقدمات میں ملزموں کو سزائیں سنا ئی جا چکی ہیں۔سزائے موت کے لیے جیلوں میں قید کئی خطر ناک مجرموں کی اپیلیں بھی مسترد ہو چکی ہیں‘ لیکن حکومت نے تاحال عدالتی فیصلوں پر عمل درآمدنہیں کروایا۔‘‘ ہے ناں تشویش کی بات! عام آدمی یا کسی معمولی سرکاری عہدیدار کا بیان نہیںہے۔ گزشتہ حکومت کی عدلیہ اور حکومتی محاذ آرائی سے کون واقف نہیں۔ سبھی جانتے ہیں‘ عدالتوں کے کئی فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ۔ان عدالتی فیصلو ں میں بڑے بڑے اہم مقدمات کے فیصلے بھی شامل ہیں۔ سابق حکومت میں کسی مجرم کو جیل نہیں بھیجا گیا؛ حالانکہ بقول شیخ رشید اب سب سے محفوظ مقام جیل ہے۔جیل میں بجلی ،پانی ،گیس کا کوئی مسئلہ ہے نہ کسی خودکش حملے کا ڈر۔روٹی وقت پر ملتی ہے اور با اثر لوگوں کو تو بہت اچھی ملتی ہے۔اثرو رسوخ والے لوگ جیل میں بھی شاہانہ انداز سے دن گزارتے ہیں ۔بعضوں کو تو گھر کے کھانے کی سہولیات بھی میسر ہیں۔جیلوں میں فاسٹ فوڈز کی ڈلیوری تک کرائی جا سکتی ہے۔ بڑے بڑے مگرمچھ قسم کے مجرم جیل کے بادشاہ ہیں ۔کراچی میں تو سزائے موت کے کئی قید ی اور خطر ناک مجرم جیل سے بھی بڑے بڑے کارنامے سر انجام دے لیتے ہیں ۔کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کراچی میں کئی بڑی وارداتوںکے پیچھے جیل کے بادشاہوں کے ہاتھ ہیں اور ظاہر ہے حکومتی اہلکاروں کی اشیرباد اور سیاسی سرپر ستی کے بغیر یہ سب کچھ ممکن نہیں۔جیل میں بھی منشیات کا کاروبار چلتاہے۔با اثر قیدیوں کے اپنے موبائل فون کے ذریعے موثر لوگوں سے رابطے ہیں۔جیلوں میں خطرناک مجرم تو ہوتے ہی ہیں‘ احتساب کے مارے سیاسی رہنمائوں کو بھی جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔خود ہمارے صدر آصف زردار ی جیل کاٹ چکے ہیں اور اِن دنوں سابق صدر پرویز مشرف بھی اپنے چک شہزادکی سب جیل میں قید ہیں۔دونو ں صدور میں فرق یہ ہے کہ ایک قید کاٹ کر صدر بنے ہیں جبکہ دوسرے صدارت سے لطف اندوز ہونے کے بعد قیدی ہوئے ہیں۔ سیاسی رہنمائوں کو جیل میں بھی پروٹوکول ملتا ہے۔کئی سیاسی رہنما تو جیل کی کوٹھڑ ی سے صاحب ِکتا ب بن کر رہا ہوئے ہیں۔یوسف رضا گیلانی اور جاوید ہاشمی بھی ایسے مصنفین میں شمار ہوتے ہیںجنہوں نے جیل میں بیٹھ کر کتابیں لکھیں۔نجانے آصف زرداری نے جیل میں رہ کر اپنی یادداشتیں کیوں نہیں لکھیں؟حال ہی میں انہوں نے اپنا چپ کا روزہ توڑا اور کہا ہے کہ وہ اگلا صدارتی امیدوار بننے کا حق نہیں رکھتے اور یہ کہ پیپلز پارٹی کی انتخابات میں شکست کے حوالے سے وہ ستمبر میں بات کریں گے۔ستمبر تک بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہو گا۔ ہو سکتا ہے اُس وقت احتساب کی ہوا چلنے لگے اور سابق حکومت کے بہت سے چُوری کھانے والے ایک بار پھر جیل میں آرام کر نے چلے جائیں۔بہت سے اہم مقدمات ابھی فیصلوں کے منتظر ہیں‘ اور اب تو حکومت بھی تبدیل ہو چکی ہے۔ عام آدمی کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد پر کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔اگر ایسا ہوا تو بڑے بڑے اور اہم مقدمات کا فیصلہ کرپشن میں ملوث بڑے بڑے مگرمچھو ں کے خلاف جا سکتا ہے۔کیا ہی اچھا ہو‘ قانون سب کے لیے برابر ہو جائے اور اثر و رسوخ والے لوگوں کے خلاف بھی قانون حرکت میں آتا نظر آئے۔ریلوے، پی آئی اے ،سٹیل ملز، واپڈا،رینٹل پاور،ایفی ڈرین اور کرپشن کے اہم مقدمات میں اگرنامور افراد کو سزائیں ملتی ہیں تو عام آدمی کا قانون اور حکومت پر اعتمادبڑھے گا۔مگر بات پھر جیلوں پر آ جاتی ہے۔ اگر جیلوں میں بھی مجرم عیش و آرام اور سکون سے زندگی بسر کرنے لگے ہیں تو پھر ایسی زندگی کو سزا کیونکر قرار دیا جاتا ہے ؟کیا جیل بھی صرف غریب آدمی کے کس بل نکالنے کے ہے؟ اب تو جیلوں سے سینکڑوں کی تعداد میں خطرناک قیدی فرار بھی ہو جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ اگر نئی حکومت قانون اور انصاف کو باقاعدہ لاگو کر دے اور ہر شعبے میں انصاف اور میرٹ کو ملحوظ رکھنے لگے تو معاشرے سے جرائم کا قلع قمع ہو سکتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاںقانون کا خوف ختم ہو چکا ہے۔ ان دنو ں دولت کا راج ہے،پیسے والا کوئی بھی جرم کر کے آسانی سے بچ جاتا ہے۔ جس دن ملک اور قوم کے دو چار بڑے مجرموں کو کسی چوک میں الٹا لٹکا کر نشان ِ عبرت بنا دیا گیا باقی سب خود بخود باز آجائیں گے۔اب تو میڈیا کا دور ہے۔ کیمرے کی آنکھ سب کچھ دکھاتی ہے۔ لوگ رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں ،اسلحے کی نمائش سے لے کر اغوا برائے تاوان اور بھتہ لینے والوں کی ویڈیو بھی موجود ہیں۔مگر ایسے ’’گرگوں‘ پر کوئی ہاتھ ڈالنے والا نہیں۔جن کے سروں کی قیمتیں لگی ہوتی ہیں وہ بھی سیاست کا نقاب اوڑھ کر سرِعام دندناتے پھرتے ہیں۔اصل بات قانون پر عمل درآمد کی ہے۔جب ہارنے والوں کو بھی حکومت میں شامل سیاسی جماعتیںسرکاری عہدے دیتی ہیں تو عوام کے مینڈیٹ کی سرِ عام توہین ہوتی ہے اور ایسی توہین ہمیشہ سے ہو رہی ہے۔ اپنے حلقے سے ہارنے والا فوراََ وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کا مشیر بن جاتا ہے۔ایسے حالات میں معاشرے میں انصا ف اور میرٹ کے پھلنے پُھولنے کی توقعات نادانی قرار دی جا سکتی ہیں۔لیکن کہتے ہیں مایوسی کفر ہے‘ ہم بھی مایوس نہیں ۔میاںمحمد نوازشریف کو عوام کا مکمل اعتماد حاصل ہے ۔انہیں کوئی ’’اتحادی نما ‘‘ پارٹی بلیک میل بھی نہیں کر سکتی ۔ان کے لیے بہترین موقع ہے کہ وہ ایک با ر غیر جانبدار چئیرمین نیب مقرر کریں اور سب کا کڑا احتساب ہونے دیں۔علاوہ ازیں آزا د عدلیہ کے فیصلوں پر مکمل عمل درآمد کریں۔ جس دن انصاف پر مبنی معاشرہ قائم ہو گیا،باقی کے معاملات خود بخود ٹھیک ہوتے چلے جائیں گے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق مسلم لیگ ن کے لیے بھی یہ آخری چانس ہے۔اگر ڈلیور نہ کیا گیا تو اگلی بار صدر زرداری کی جگہ میاں صاحبان بھی اپنی شکست کے اسباب تلاش کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہوں گے: ؎ یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں