ایک وقت تھا جب کھمبا صرف کھسیانی بلی کے نوچنے کے کام آتا تھامگر آج کل یہ اہل ِسیاست میں بھی بہت تیزی سے مقبول ہو رہا ہے ۔دیکھا یہی گیا ہے کہ مقبول سیاست دان عوام میں اپنی شہرت اور ساکھ کے لیے کھمبے کو بھی ’’تختہ مشق‘‘ بناتے رہتے ہیں۔ ایسے مقبول رہنما اگر کسی حلقے سے کھمبا کھڑا کر دیں تو اسے بھی ووٹ پڑ جاتے ہیں بلکہ بقول شخصے ’’ جیت بھی جاتے ہیں‘‘۔ حالیہ انتخابات میں میا ں برادران اس قدر مقبول رہے کہ ان کے کئی کھمبے جیسے امیدوار بھاری تعداد میں ووٹ حاصل کر کے اسمبلیوں میں جا بیٹھے ہیں ۔ایسے کھمبے ہر سیاسی جماعت میں کثرت سے پائے جاتے ہیں؛ بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ گزشتہ ساٹھ برسوں میں کھمبوں ہی کی اکثریت اسمبلیوں میں پہنچتی رہی ہے‘جو صرف اپنے انتخابی اخراجات کو چار سے ضرب دے کر واپس حاصل کرنے اور عیش و آرام کے لیے سیاست میں حصہ لیتے ہیں۔ان کی اپنی کوئی خاص حیثیت نہیں ہوتی ۔یہ کھمبے سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے ’’بروقت‘‘ کام آتے ہیں۔ ان کی بہت سی عادات لوٹوں سے بھی ملتی جلتی ہیں۔جیسے لوٹے پارٹیاں چکھتے رہتے ہیں۔کھمبے بھی مقبول لیڈروں کے ایک اشارے پر الیکشن میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔کھمبے اور کھسیانی بلیوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بلیاں کھسیانی ہوتے ہی کھمبے کی طرف دوڑتی ہیں اور اسے نوچنے لگتی ہیں۔ہمارے ہاں کھمبے عموماََ بجلی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔کبھی کبھی تو ہم سوچتے ہیں کہ شاید کھمبا زمانہ قدیم سے اپنے پائوں پر جم کر کھڑا ہے ۔یہ بجلی کی تاریں تو بعد میں،یعنی بجلی کے وجود میں آنے پر، کھمبے کے دوش پر دراز ہوئیں ۔اس سے اندازہ ہوا کہ کھسیانی بلیاں بجلی کی دریافت سے قبل بھی کھمبے نوچتی رہی ہیں۔اب تو کھمبے کی علامت اپنے اندر بہت گہری معنویت لیے ہوئے ہے۔آج کل تو کھمبا ’’بہ نفسِ نفیس‘‘ احتجاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔بھلے بجلی کی تاریں اس پر جھول رہی ہوں لوگ بلا خوف وخطر کھمبے پر چڑھ جاتے ہیں۔ گزشتہ روز ایک خبر سامنے آئی کہ ایک رکشہ ڈرائیور پولیس کی طرف سے رکشہ بند کیے جانے پر احتجاجاََکھمبے پر چڑھ گیا ۔اگر چہ یہ خاصا خطر ناک عمل ہے اور بجلی کبھی کبھی اِن تاروں کا چکر بھی لگا لیتی ہے جس سے اہلِ کھمبا کی جان جا سکتی ہے مگر لوگ ہیں کہ وہ ایسے خطرناک احتجاج سے باز ہی نہیں آتے۔ انہیں بجلی کی تارگریزی پر اس قدر پختہ یقین ہے کہ وہ کھمبے پر درخت کی طرح چڑھ جاتے ہیں۔بس جیسے ہی کوئی کھمبے پر چڑھتا ہے میڈیا حرکت میں آجاتا ہے اور ہر زاویے سے کھمبے پر استراحت کرتے شخص کی لائیو کوریج کرنے لگتا ہے۔ایسے کھمبے کے نیچے پولیس سمیت عوام کا جم غفیر جمع ہو جاتا ہے۔اس انوکھے احتجاجی شخص کو ہر طرف سے واسطے دیے جاتے ہیں مگر وہ اپنے مطالبے کی تکمیل تک ’’مرقع احتجاج ‘‘بنا رہتا ہے۔آخرش! پولیس اور ضلعی انتظامیہ اپنے ریسکیو کے جوانوں کو کھمبے پر چڑھا دیتی ہے‘ جواحتجاج کرنے والے سے باقاعدہ مذاکرات کرتے ہیں اس کے مسائل سنے جاتے ہیں اور اس کا مطالبہ مانے جانے کی یقین دہانی پر اسے کھمبے سے اتار لیا جاتا ہے۔ عزیز قارئین! آپ نے ایسے ناٹک ٹی وی کے علاوہ سر راہ بھی دیکھے ہوں گے۔جب سے کھمبے پر چڑھنے والوں کے مطالبات مانے جانے لگے ہیں ہر کوئی اپنے مطالبات منوانے کے لیے کھمبے تلاش کرتا پھرتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر اپنے مطالبے کے حق میں مسلم لیگ ن کی کئی خواتین بھی ’’ کھمبا دوشی ‘‘کا لطف لے چکی ہیں۔ہمیں توقع ہے کہ رکشہ ڈرائیور کے کھمبیاتی احتجاج کے بعد اس کا رکشہ واپس کر دیا گیا ہو گایا پھر ابھی تک اس کی چھان پھٹک کی جارہی ہو گی۔میڈیا اور لوگوں کے سامنے تو احتجاجی شخص کے ترلے منتیں اور اس کے مطالبا ت پورے کرنے کے وعدے کر لیے جاتے ہیں مگر تھانے لے جانے کے بعد کیا خبر اس احتجاجی کو کیا کیا برداشت کرنا پڑتا ہوگا۔سڑکوں پر میتیں رکھ کر یا ٹائر جلا کر بھی احتجاج کیا جاتا ہے مگر آج کل کھمبا احتجاج تیر بہدف نسخہ بن چکا ہے کہ اس سے فی الفور میڈیا کی توجہ بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ایک زمانہ تھا اخبارات میں سنگل کالم خبر کے اثرا ت دیدنی ہوا کرتے تھے۔جس شخص یا ادارے کے خلاف سنگل کالمی خبر بھی چھپ جاتی‘ اس کے ہاتھ پائوں پھول جاتے تھے اور مسئلہ فی الفور حل ہو جاتا ۔مگر اب تو آپ کرپٹ افراد کو ٹیلی ویژن پر رنگے ہاتھوں گرفتار ہوتا دکھا دیں تو کسی کی شان میں فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی وہ کھسیانا ہوتا ہے۔ کھسیانا ہونے میں بھی اب کمی آگئی ہے ۔لوگ جھوٹ فریب ،دھوکہ دہی اور کرپشن پر شرمندہ ہونے سے بھی اجتناب کرنے لگے ہیں۔آپ کسی افسر یا ادارے کے خلاف پورا پروگرام ٹیلی کاسٹ کر دیں اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔آپ کچھ بھی کر لیں کسی محکمے میں اہلکاروں کی مٹھی گرم کیے بغیر کام نہیں ہو سکتا۔ہم نے اپنے گھر میں گیس لگوانے کے لئے درخواست دے رکھی ہے۔ ہمیں متعلقہ محکمے کے اہلکاروں نے صاف کہہ دیا ہے کہ نذرانہ نہ دیں گے تو دو تین سال تک آپ کی باری نہیں آنے والی۔ واقعتاً ہم بھی آرام سے گھر بیٹھ گئے ہیں کیونکہ اب کھمبے پر چڑھ کر گیس لگوانے کا مطالبہ تو ہم افورڈ نہیں کر سکتے۔ کاش ایسا نظام رائج ہو جائے کہ لوگوں کو، گیس ،بجلی،پانی کے کنکشنوں کے حصول کے لیے مختلف محکموں میں خوار ہونے سے نجات مل جائے۔ بنیادی ضروریات کے یہ معاملات ایک سادہ سی درخواست پر خوش اسلوبی سے نمٹائے جانے لگیں اور سادہ لوح عوام الناس کو اپنے احتجاج کے لیے کسی بھی قسم کے کھمبوں کا سہارا نہ لینا پڑے ۔خدا کرے کھمبوں کو صرف اور صرف بلیوں کے نوچنے کے لئے خالی رکھا جائے۔یہ الگ بات ہے کہ ہم نے تو آج تک کسی بلی کو کھسیانا ہوتے اور اس کے بعد کھمبے کو نوچتے نہیں دیکھا۔ممکن ہے نئے دور کی بلیاں بہت سیانی ہو گئی ہوں اور وہ کھسیانی نہ ہوتی ہوں۔ اگر انہیں کھسیانا ہونا بھی پڑے تو وہ کھمبے کو نوچنے کی بجائے درخت پر چڑھنا زیادہ آسان سمجھتی ہیں۔ فی الوقت تو لوڈ شیڈنگ کے ستائے لوگ سہمے ہوئے ہیں۔ ملاوٹ، بدامنی، ذخیرہ اندوزی، بھتہ خوری، رشوت اور کرپشن جیسے مسائل نے عوام کو ’’ ادھ موا ‘‘ کر دیا ہے۔احتساب کے نعرے لگانے والوں کو وطنِ عزیز کی دولت لوٹنے والے نظر نہیں آتے ۔کرپشن کرنے والے ببا نگ ِدہل للکار رہے ہیں کہ آئو کسی میں جرات ہے تو ہمیں گرفتار کر کے دکھائے۔عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔کمیشن اپنی رپورٹ پیش کرنے کے بعد منہ چھپائے پھرتے ہیں مگر فیصلوں پر کوئی کان دھرنے والا نہیں۔ عبدالستار ایدھی (اللہ تعالیٰ صحت عطا کرے) اس قوم پر یہ احسان بھی کریں کہ عوام کے احتجاج کے لیے ’’کھمبا ہائوس‘‘ بنا دیں۔ جہاں کثیر تعداد میں کھمبے لگا دیے جائیں تاکہ عوام اپنے احتجاج کے لیے کھمبوں پر چڑھ جائیں۔ ہمارے نام نہاد نمائندے تو سرکاری گیسٹ یا چمبہ ہائوسوں میں پڑے ، اپنے ٹی وی پر مفلوک الحال عوام کو کھمبے پر لٹکے دیکھ کر محظوظ ہو رہے ہوں گے۔کاش کوئی کرپشن میں گردنوں تک دھنسے مجرموں کوبھی ان کھمبوں پر الٹا لٹکانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔مگر ایسا کون کرے؟