ایوانِ صدر کے مکین

لیجئے صاحب! ایوانِ صدر کے پرانے مکیں رخصت ہوا چاہتے ہیں اور بقول لطیف کھوسہ نئے اور ایک ’’ریموٹ کنٹرول مکیں‘‘ منتخب ہونے والے ہیں۔صدر زرداری نے پانچ برس نہایت ’’خوش اسلوبی‘‘ سے مکمل کر کے ’’پوری مدت‘‘ کے صدور میں اپنا نام لکھوا لیا ہے۔صدر آصف زرداری نے صدارتی الیکشن کا شیڈول آتے ہی ایوانِ صدر سے اپنے پالتو جانور بھی کراچی منتقل کرالئے ہیں۔ عزیز قارئین ! حیران ہونے کی کوئی بات نہیں،قسم سے ایوانِ صدر میں جانور بھی پائے جاتے ہیں۔صدر زرداری تو اُس زمانے میں بھی نسلی گھوڑے اپنے ساتھ رکھتے تھے جب وہ وزیر اعظم کے شوہر ہوا کرتے تھے۔اپنی صدارت کے دوران انہوں نے آسٹریلوی گائیں ،بھینسیں،عربی نسل کے گھوڑے اور بکریاں بھی ایوان صدر میں منتقل کر لی تھیں۔ہمیں معلوم نہیں امریکہ کے وائٹ ہائو س میں صدر اوباما نے کون کون سے پالتو جانور رکھے ہوئے ہیں۔ایوان ِصدر کے جانوروں کی ’’ٹہل سیوا‘‘ کے لیے کتنے ہی سرکاری خادموں کی ضرورت پڑتی ہو گی۔ایک زمانے میں آصف زرداری کے گھوڑوں کو سیب کے مربے کھلائے جانے کا بڑا چرچا تھالیکن بکریوں اور بھینسوں کو کون سے مربے کھلائے جاتے رہے ہیں اِس حوالے سے تاریخ خاموش ہے۔صدر زرداری نے پانچ برس خاموشی سے اپنے بنکر میں گزار دیے اور صدارتی الیکشن کا شیڈول آتے ہی ایوان ِصدر کے جانوروں کو کراچی منتقل کردیا۔ ظاہر ہے اب یہاں نئے صدر کے جانوروں کی موج مستیاں ہوں گی۔مگر یہ موج مستیاں ویسی نہیں ہوں گی جیسی صدر زردار ی کے دور میں ہوتی رہی ہیں ۔صدر زرداری نے تو ایوانِ صدر میں جیالوں کو بھی ہم نوا لہ بنائے رکھا۔ مگر صدر ممنون اِس حوالے سے صرف اور صرف میاں نواز شریف کے ہی ممنون رہیں گے ۔انہیں مسلم لیگ کے کارکنوں کی دلجوئی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ایم کیو ایم سے کُٹی ختم کرنے پر مسلم لیگ پر تنقید ہو رہی ہے۔وزیر داخلہ چودھری نثار بھی بجھے بجھے دکھائی دیتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے بہت سے خیر خواہ مسلم لیگی وفد کی ’’نائن زیرو‘‘ یاترا پر نالاں ہیں۔ بہت سو ں کا خیال ہے کہ محض ایک ’’بے اختیار صدر‘‘ کے انتخاب کے لیے مسلم لیگ ن کو ایم کیو ایم کا ’’ممنونِ احسان ‘‘ ہونے کی کیا ضرو رت تھی؟حالانکہ خیر خواہوں کو خوب علم ہے کہ سیاست میں منہ زبانی لڑائیاں اور تندو تیز بیانات کوئی معنی نہیں رکھتے ۔اگر دو سیاسی جماعتیں مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے بعد باہم شیرو شکر ہو گئی ہیں تو آخر اس میں برائی کیا ہے؟اب پیپلز پارٹی ایم کیو ایم پر برس رہی ہے۔حالانکہ خود پی پی اپنے دور میں ایم کیو ایم کی ’’الطاف برداریاں ‘ ‘ کرتی رہی ہے اور اس کے لیے پی پی نے باقاعدہ ایک ’’وزیرِ نازبرداری برائے ایم کیو ایم‘‘ بھی رکھا ہوا تھا۔ اِدھر ایم کیوایم کسی بات پر حکومت سے الگ ہونے کی دھمکی دیتی، اُدھر جھٹ (ڈاکٹر) رحمن ملک لندن یاترا پر نکل پڑتے ۔ پانچ برسوں میں ایم کیوایم کی حکومت میں ’’ آنیاں جانیاں‘‘ عوام نے جی بھر کے دیکھیں ۔اب شرجیل میمن طنزاً کہتے ہیں کہ: ’’ایم کیوایم نے حکمران جماعت کا ساتھ دینے کی اپنی روایت برقرار رکھی ہے‘‘ جبکہ لطیف کھوسہ آنے والے نئے صدر کو ’’ریموٹ کنٹرول‘‘ کہہ کر داد طلب نظروں سے ادھر اُدھر دیکھ رہے ہیں۔پی پی نے صدارتی انتخاب کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے میں اس کے اتحادی بھی شامل ہیں۔ اور تو اور شیخ رشید بھی ممنون حسین کو اپنا ووٹ دینے پر راضی نہیں ہیں۔ان کا خیال ہے کہ ممنون صاحب رفیق تارڑ کا ’’پارٹ ٹو‘‘ ہیں۔ ہمیں تو ممنون حسین بہت بھلے لگتے ہیں۔ سناہے کہ وہ ادبی ذوق بھی رکھتے ہیں‘ سوخوشی ہے کہ ایوانِ صدر میں بھی کوئی باذوق صدر تعینات ہورہا ہے۔ صدر بھلے کتنا ہی بے اختیار ہو، ایوانِ صدر میں ادبی رونقیں تو لگا ہی سکتا ہے۔ صدر ممنون ہوئے تو کم ازکم ہمارے اسلام آباد کے شعراء کی پذیرائی ممکن ہو گی۔ہم تو گورنر ہائوس لاہور میں بھی ادبی گہما گہمی دیکھنے کے لیے بے تاب تھے‘مگر اپنے عطا الحق قاسمی صاحب نے تو سفارت کاری تک سے معذرت کر لی ہے۔ ورنہ ہم سب اہلِ ادب قاسمی صاحب کے بے حد ممنون ہوتے ۔ نہ جانے ،ممنونِ نواز کو دہی بھلے اور گول گپوں کے طنزیہ نشتر چلا کر زچ کرنے کی فضول کوشش کیوں جاری ہے؟ حالانکہ ممنون حسین نے مسلم لیگ ن کی رکنیت سے الگ ہونے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے ۔مسلم لیگ کے نامزد صدر کو ممنون ہی ہونا چاہیے ۔مسلم لیگ ن کی حکومت خوش قسمت ہے کہ اسے دو اپوزیشنوں کا سامنا ہے۔ایک نے صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا ہے تو کیا ہوا،قدرے اصلی اپوزیشن تحریک انصاف نے جومقابلے کی ٹھان لی ہے۔شنید ہے کہ پہلے تو عمران خان نے بھی صدراتی الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر لیا تھا مگر نہ جانے اچانک کیا بات ہوئی کہ انہوں نے اپنا صدراتی امیدوار میدان میں اتار دیا‘ حالانکہ اس کے جیتنے کے امکانات کم ہیں۔سیاسی تجزیہ نگار اور تحریک انصاف کے دوست اسی حق میں تھے کہ صدارتی الیکشن کا مکمل بائیکاٹ کر دیا جاتا۔مگر عمران خان ایک بار پہلے بائیکاٹ کا مزا چکھ چکے ہیں سو دوسری بار یہ غلطی دہرانے کے موڈ میں نہیں۔یہ الگ بات ہے کہ کل کلاں اس انتخاب میں حصہ لینے کوبھی اپنی دیگر غلطیوں میں شمار کر لیں گے۔ عمران خان کے محبی ناقدین کا خیال ہے کہ وہ ہمیشہ غلطیوں کے بعد سوچتے ہیں اور ان کے حریف اسی بات پر خوش ہیں کہ وہ بروقت اہم فیصلہ کرنے میں منیر نیازی کی طرح ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں۔کہنے والے کہتے ہیں کہ عمران لاہور کے جلسے کے بعد اگر گیس لوڈ شیڈنگ کے احتجاجی مظاہروں کی قیادت کر کے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبو رکر دیتے تو پھر انہیں معمر نگران وزیر اعظم یا عمر رسیدہ فخرو بھائی کو قبول نہ کرنا پڑتا۔ ان کی اعترافی غلطیوں میں پرویز مشرف باقیات کی قبولیت ،پارٹی الیکشن اور انتخاب کے موقع پر ٹکٹو ں کی تقسیم کے علاوہ موجودہ صدارتی الیکشن میں حصہ لینا بھی شامل ہیں‘ جبکہ عید کے بعد وہ حکومت کے خلاف چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ ’’نادرانہ‘‘ گنتی کے لیے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ بھی کر چکے ہیں ۔ مسلم لیگ خوش ہے کہ ہمیشہ غلط فیصلہ کرنے والا مقبول اپوزیشن لیڈر ان کے لیے سود مند ثابت ہو رہا ہے‘ بالکل ایک ناپختہ نشانے باز کی طرح ۔ سنا ہے ویت نام کی جنگ کے دوران ایک ویت نامی کمانڈر اگلے مورچوں کا دورہ کر رہا تھا کہ اچانک دشمن کی طرف سے ایک گولی آئی اور کمانڈر کے سر سے گزر گئی ۔ کمانڈرنے فوراً حکم دیا ۔جدھر سے گولی آئی ہے، اُدھر فائر کھول دیا جائے ۔قریب کھڑے ایک نوجوان سپاہی نے کہا: جناب! ’’ہمیں اپنا اسلحہ ضائع کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ دشمن کا سپاہی کس جگہ چھپا ہوا ہے اور ہم جس وقت چاہیں اسے گولی کا نشانہ بنا سکتے ہیں‘‘۔ تو پھر گولی کیوں نہیں چلاتے؟ کمانڈر نے کہا۔ ’’ اِس لیے کہ اُس سپاہی کا نشانہ بہت خراب ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ اگر ہم نے اسے گولی مار دی تو اُس کی جگہ وہاں کسی صحیح نشانے والے کو نہ بھیج دیا جائے ‘‘ کچھ دوست عمران خان کو بھی کمزور نشانے والے سپاہی سے تشبیہ دیتے ہیںجوکبھی تاک کر نشانہ نہیں لگاتا ۔ واللہ اعلم بالصواب۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں