فوڈ سٹریٹ سے بُک سٹریٹ تک

صاحبو! مبارک ہو،لاہور میں ایک اور فوڈ سٹریٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔یہ فوڈ سٹریٹ لاہور اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر۲کے ریزرویشن آفس کی چھت پر بنائی جائے گی۔جہاں مسافروں کے ساتھ ان کے عزیزو اقارب کے لئے بھی ایک ہی چھت کے نیچے لاہوری چٹ پٹے کھانے دستیاب ہوں گے۔گوال منڈی،انار کلی اور شاہی محلے کے قریب فوڈ سٹریٹس کے بعد اسٹیشن پر فوڈ سٹریٹ کے قیام سے کھانے پینے کے شوقین بہت خوش ہوں گے۔ الحمدللہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ جاری ہے اور لوگ خشوع وخضوع سے اپنی عبادات میں مصروف ہیں۔وطنِ عزیز میں راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا ہے۔بس اخبارات کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے کیسی کیسی خبریں شائع کرنے لگے ہیں ۔ڈیرہ اسماعیل خان جیل سے اگر دہشت گرد، با جماعت اپنے ساتھیوں کو چھڑا کر لے گئے ہیں تو وفاقی حکومت یا عوام کیا کریں؟یہ تو سراسر خیبر پختو نخوا کا ’’ دردِ سر ‘‘ ہے ۔آخر اتنے خطر ناک قسم کے قیدیوں کو جیلوں میں رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟اچھا ہوا انہیں رہا ئی نصیب ہوئی ویسے بھی یہ قیدی جیل حکام کے لیے بھی قیدی بیرکو ں میں مصیبت بنے ہوتے ہیں۔ ان کی ’’ناز برداریاں‘‘ اور وہ بھی اس بابرکت مہینے میں کیونکر اٹھائی جا سکتی تھیں؟جبکہ جیل حکام بھی آخر کو مسلمان ہیں۔انہیں بھی سحر و افطار کے ساتھ عبادات کا حق حاصل ہے اور پھر عید بھی سر پر ہے۔ البتہ یہ خبر خوش آئند ہے اور قوم کو مبار ک ہو کہ نئے صدر کا انتخاب بہ طریقِ احسن مکمل ہو گیا ہے اور مسلم لیگ ن کے امید وار ممنون حسین نئے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ مسلم لیگ اپنے نئے صدر کی کامیابی پر جشن منا رہی ہے۔ جہاں تک ملک کے حالات کا تعلق ہے تو باقی سب خیریت ہے‘ بالکل اُن صاحب کی طرح جو کافی عرصے بعد اپنے گائوں جا رہے تھے۔ راستے میں انہیں اپنا نوکر مل گیا۔انہوں نے اُس سے اپنے گھر کے حالات پوچھے۔ نوکر بولا: ’’باقی سب خیریت ہے بس آپ کا کتا مر گیا ہے‘‘۔ وہ صاحب بولے: میرا کتا مر گیاہے؟ کیسے؟ نوکر : آپ کے مرے ہوئے گھوڑے کا گو شت کھا کر وہ کیسے زندہ رہ سکتا تھا۔ ’’ تو میرا گھوڑا بھی مر گیا ہے، وہ کیسے‘‘؟ ’’بھوک سے مر گیا‘‘ ’’لیکن میں تو تجھے اس کے راشن کے لیے پیسے بھی دے کر گیا تھا وہ کہاں گئے؟‘‘ ’’وہ تو آپ کی والدہ کے کفن دفن پر لگ گئے ‘‘ ’’تو کیا میری والدہ کا بھی انتقال ہو گیا؟‘‘ ’’جی ہاں!وہ دو ماہ کے پوتے کا غم برداشت نہ کر سکیں‘‘۔ نوکر نے معصومیت سے جواب دیا۔ وہ صاحب چیخ اٹھے : ’’ہائے اللہ میرا بچہ بھی فوت ہو گیا‘‘ ’’جی ہاں! ماں کے بغیر بچہ کیسے زندہ رہتا‘‘ ’’کیا؟یعنی میری بیوی بھی چل بسی‘‘ ’’بس جناب گھر کی چھت گری تھی تو وہ کیسے بچتی‘‘ ’’اف خدایا‘ کچھ بچا بھی ہے؟‘‘ نوکر نے جواب دیا: میں بچا ہوں اور بچا کھچا آپ کے سامنے ہوں ۔ پاکستان بھی بچا کھچا ،ہمارے سامنے ہے اور یہاں اِسی طرح کی خیر و عافیت ہے۔ کراچی کوئٹہ ٹارگٹ کلنگ، پشاور اور قرب وجوارمیں دھماکے ،خودکش حملے لاہور میں ڈاکے ،اغوا کی وارداتیں، معمول کی کارروائیاں ہیں۔ اگلے روز خبر تھی کہ تھانیدار نے چرغے کے پیسے مانگنے پر ہوٹل والے کو مرغا بنائے رکھا۔ایک سب انسپکٹرنے مفت مالش نہ کرنے پر مالشی کو الٹا لٹکاکر اس کی خوب مالش کی۔کئی جگہوں پر باوردی پولیس جوان اپنا ذاتی ناکہ لگا لیتے ہیںکہ عید سر پر ہے ۔لاہور شہر کی سکیورٹی الرٹ ہے ۔ مختلف ناکوں پر ہر گاڑی چیک ہورہی ہے۔ دہشت گردوں کی وارداتوں سے قبل ایجنسیاں خبر دار بھی کرتی رہتی ہیں مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟ ہمارے بہادر عوام، بد امنی،لوٹ کھسوٹ،ملاوٹ ،ذخیرہ اندوزی اور لوڈشیڈنگ جیسے عذابوں کے درمیان، رمضان المبارک کی عبادات جاری رکھے ہوئے ہیں ۔اب تو اعتکاف کے لیے بھی باقاعدہ شہر ِاعتکاف قائم ہونے لگے ہیں ۔گزشتہ رمضان میں ہم مصر میں تھے۔وہاں بھی مصری نوجوانوں کی کثیر تعداد مساجد میں اعتکاف بیٹھتی ہے۔وہاں اعتکاف میں ہم نے نوجوانوں کو لیپ ٹاپ بھی استعمال کرتے دیکھا۔ہمارے ہاں بھی موبائل اعتکاف میں ساتھ رہتا ہے۔سحرو افطار کی رونقیں دیدنی ہیں۔ بہت سے سیاستدان اورمیاں صاحب عمرے پر جارہے ہیں ۔صدر زرداری نجی دورے سے واپس آگئے ہے اور فرماتے ہیں: ’’ ایوانِ صدر سے نکل کر عوام کی سیاست کروں گا‘‘ عوام شاید صرف اور صرف سیاست کرنے کے لیے رہ گئے ہیں ۔ معاشی حالات کچھ بھی ہوں، اتنا ضرور ہے کہ عوام کو کھانے پینے کی اعلیٰ سہولیات دینے کے لیے فوڈ سٹریٹوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ فوڈ سٹریٹ کے ساتھ ساتھ بک سٹریٹ کو بھی فروغ دیا جائے۔ کتب شائع کرنے والے ایک دو اداروں نے اس سلسلے میں کچھ کام کیا ہے۔ اردو بازار کی اپنی اہمیت ہے لیکن ایک خاص سٹریٹ میں اگر صرف کتب کی دکانیں ہوں تو لوگ کتب بینی کی طرف بھی مائل ہو سکتے ہیں۔لوگوں کو کھانے پینے کی طرف مائل کرنے کے ساتھ ساتھ اگر کتاب دوستی کی طرف راغب کیا جائے تو معاشرے میں امن محبت اور برداشت کا کلچر فروغ پا سکتا ہے۔ اگر صدر ممنون حسین ادب کا ذوق رکھتے ہیں تو یقینا وہ علم و ادب اور کتب دوستی کے فروغ کے لیے بھی کچھ کر سکتے ہیں۔ہمارا ذاتی خیال ہے کہ صدر اور گورنر صاحبان کو علم و ادب کی ترقی کے لیے شہروں میں بک سٹریٹس بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ علاوہ ازیں شہر کے ادیبوں ،شاعر وں کی پذیرائی کے لیے بھی انہیں مصروف رکھا جاسکتا ہے۔ نئے گورنرا پنے ہاں ماہانہ مشاعرے شروع کرا سکتے ہیں۔ مشاعرے سے یاد آیااگلے روز بک سٹریٹ کے پہلو میں ایم آر شاہد کا سالانہ نعتیہ مشاعرہ منعقد کیا گیا۔یہ مشاعرہ ایک گلی میں باقاعدہ ٹینٹ لگا کر منعقد کیا جاتا ہے۔اس مشاعرے کی صدارت احمد ندیم قاسمی کیا کرتے تھے۔ان کی وفات کے بعد اب یہ سالانہ مشاعرہ عطاالحق قاسمی کی صدارت میں منعقد ہوتا ہے۔ہم حیران تھے کہ اِس گلی کے مشاعرے کے لئے، رمضان المبارک کے مہینے میں سخت حبس اور گرمی میں عطاالحق قاسمی موجود تھے۔ اور یہ کسی نواب ،جاگیردار ، وزیر مشیر یا سیاسی شخصیت کی دعوت نہیں تھی بلکہ یہ ایک نوجوان، ادیب اور محقق کا ذاتی پروگرام تھا۔ جس کی دعوت پر یہاں کئی نامور شاعر ،صحافی اور شہر کے معزز لوگ سخت گرمی کے باوجود آئے ہوئے تھے۔احمد ندیم قاسمی کی صاحبزادی ڈاکٹر ناہید قاسمی بھی بطور خاص اِس نشست میں موجود تھیں ۔مشاعرے کا اختتام افطاری پر اس وقت ہوا جب پنجاب کی آواز شوکت علی، میاں محمد بخش کا کلام پیش کر رہے تھے۔ میں اَنھّا تے تلکن رستہ دیوے کون سنبھالا دھکے دیون والے بوہتے تو ہتھ پکڑن والا

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں