اخوت کا سفر

پہلی بار کسی گورنر سے یہ بات سنی کہ انہیں محل نما گورنر ہائوس میں نیند نہیں آتی ۔جی ہاں‘ پنجاب کے نئے گورنر چودھری محمد سرور نے اگلے روز بھری محفل میں یہ انکشاف کیا کہ وہ جب سے اِس ’’عظیم ہائوس‘‘ میں آئے ہیں انہیں نیند نہیں آئی۔ انہوں نے بتایا کہ چند روز قبل وہ اپنے آبائی علاقے میں گئے تو وہاں البتہ تین چار گھنٹے گہری نیند سوئے۔ چودھری سرور کے بقول گورنر ہائوس میں وہ اچھی طرح اس لیے نہ سو سکے کہ ان کا دھیان وطنِ عزیز کے ان بے گھر اور غریب لوگوں کی طرف چلا جاتا ہے جن کے پاس زندگی کی بنیادی سہولتیں نہیں ہیں۔کسی کے پاس چھت نہیں ،کسی کو روٹی نہیں ملتی ، کوئی بیماری میں دوائی کو ترستا ہے اور کثیر تعداد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ یہ سارے مسائل دیکھ کر دل کڑھتا ہے۔ بہت سے کام کرنے والے ہیں مگر سب سے پہلی ترجیح پینے کا صاف پانی ہے جس کے چند منصوبوں کا آغاز کردیاگیا ہے۔ یہ باتیں گورنر صاحب نے ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں کیں۔ ڈاکٹر اجمل نیازی نے کہا کہ چودھری محمد سرور گورنر ہو کر بھی گورنر نہیں بلکہ چودھری سرور ہی لگتے ہیں۔ ان کے آتے ہی گورنر ہائوس میں (جہاں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی) ادیبوں، شاعروں، فنکاروں اور معذور بچوں کے اکٹھ ہونے لگے ہیں۔ بچے تو میاں محمد اظہر کی گورنری میں بھی آیا کرتے تھے مگر اہل ِقلم اور معذور بچوں کے لیے یہ دروازے کبھی نہ کھل سکے۔گورنر ہائوس میں یہ دوسری تقریب تھی جو کسی کتاب کی رونمائی کے لیے منعقد ہوئی تھی۔ کتاب بھی کوئی عام نہ تھی‘ یہ غریبوں کے دوست، غمخوار اور تنظیم اخوت کے روح و رواں ڈاکٹر امجد ثاقب کی دلچسپ اور فکر انگیز تصنیف ’’اخوت کا سفر‘‘ تھی۔ اسٹیج پر گورنر چودھری محمد سرور کے ساتھ صاحبِ کتا ب ڈاکٹرامجد ثاقب کے علاوہ کالم نگاروں میں ڈاکٹر اجمل نیازی‘ اوریا مقبول جان اور بشریٰ اعجاز تشریف فرما تھے جبکہ تقریب کی نظامت معروف شاعرہ ، کالم نگار اور منفرد میزبان صوفیہ بیدار بڑے سلیقے سے نبھارہی تھیں۔ ایک بزرگ نے (نام یاد نہیںرہا) بڑی دلچسپ گفتگو کی اور امجد ثاقب کے لیے بے پنا ہ محبتوں کا اظہار کیا ۔سعد اللہ شاہ نے منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ عزیز قارئین! اخوت سے آگاہ ہونے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ اس کتاب میں زندگی کے سفر کو ہر گام پر یاد گار بنا دیا گیا ہے۔ پڑھنا شروع کریں تو ختم کیے بغیر کتاب چھوڑنے کو جی نہیں کرتا۔امجدثاقب کی شخصیت اور ان کے باطن کی روشنی، اس کتاب سے اجاگر ہوئی۔ جناب مجیب الرحمن شامی نے درست فرمایا ہے کہ بنگلہ دیش والوں کے پاس اگر پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس ہے تو ہمارے پاس ڈاکٹر امجد ثاقب ہیں۔ امجد ثابت لوگوں میں خیرات اور بھیک مانگنے کی عادت ڈالنے کی بجائے انہیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی تر غیب دیتے ہیں اور ان کی عزتِ نفس مجروح کیے بغیر بلا سود قرض حسنہ سے نوازتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ بہت سے مفلوک الحال افراد اخوت کی وساطت سے باعزت روزگار ،محنت اور زندگی سے آشنا ہو چکے ہیں۔ مستنصرحسین تارڑ کی اِس بات کو ماننا پڑے گا کہ اخوت ایک چھوٹی سی کشتی ہے لیکن اس میں وہ طاقت ہے جو گہرے‘ خطر ناک اور اندھیرے سمندروں کے پار روشنی کی طرف لے جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کا عظیم کارنامہ اخوت ہے اور اخوت کی عظیم کارکردگی یہ ہے کہ اس نے لوگوں میں امیدوں کے چراغ روشن کیے اور گرے پڑے افراد کے دلوں میں یہ جذبہ اور احساس اجاگر کیا کہ وہ زندگی کے دکھوں میں تنہا نہیں بلکہ ان کے ساتھ اخوت کی قوت ہے جو انہیں سنبھالا دیتی رہے گی۔ کہتے ہیں غربت ایک لعنت ہے ۔کچھ لوگ غربت کو جرم بھی قرار دیتے ہیںکہ بہت سی معاشرتی بیماریاں اِسی کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔ ضرورت اِس بات کی تھی کہ ہمارا نظام بہتر کیا جاتا۔ حکمران عام لوگوں کے بارے میں بھی کچھ کرتے مگر انہیں تو صرف اپنی پڑی ہے۔ ہماری اسمبلیوں کے ارکان‘ وزیر مشیر اور امیر سے امیر تر ہوتے جارہے ہیں۔وہ بینکوں سے قرضے لیتے ہیں اور معاف کرا لیتے ہیں ۔عام آدمی مکان کا قرض نہ ادا کرسکے تو اس کا سب کچھ ضبط کر لیا جاتا ہے۔ ایسے سماج میں امجد ثاقب جیسے درویش صفت انسان نے لوگوں کو روشنی کا وہ راستہ دکھایا جو ہم فراموش کر چکے ہیں اوریا مقبول جان نے تقریب میں فکر انگیز تقریر کی اور کہا کہ سود کو قرآن ِحکیم میں اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ قرار دیا گیا ہے اور ہم سب خو د کو مسلمان کہلوانے والے اِس نظام سے منسلک ہیں۔ کیا اللہ سے جنگ جیتی جا سکتی ہے ؟ محفل میں سناٹا تھا کہ بات سو فیصد درست تھی مگر ایسی باتوں پر عمل کرنا حکومت کا کام ہے۔اوریا صاحب اپنے کالموں میں بھی ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں، کچھ قدرے تلخ باتیں حسن نثار بھی کرتے ہیں ،حسن کاظمی نے ٹھیک کہہ رکھا ہے: ؎ سچی باتیں کڑوی باتیں ہوتی ہیں لیکن کہنے والی باتیں ہوتی ہیں ڈاکٹر امجد ثاقب نے مسجدوں کی چٹائیوں پر بیٹھ کر دوسروں کے لیے عملی طور پر کچھ کر گزرنے کا چارہ کیا۔آج اخوت ایک ایسی شفیق تحریک بن چکی ہے کہ لوگ خود بخود اِس سے جُڑتے چلے جاتے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ امجد ثاقب نے خلوص کے ساتھ دوسروں کے دکھ اور درد کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ وہ اپنا آرام‘ آسائش اور بااختیار افسری ترک کر کے،بے اختیار اور عام لوگوں کے درمیان آبیٹھے ہیں۔وہ بیمار‘ بے بس‘ لاچار‘ دکھی انسانیت اور معاشرے کے کچلے افراد کی دستگیری کے لیے ان کی عزت نفس مجروح کیے بغیر انہیں سہارا دیتے ہیں تاکہ وہ بھی زندگی کی دوڑ میں باعزت طور پر شریک ہو سکیں۔ اخوت کے سفر کو دیکھیں تو بیوائوں، مسکینوں، بے بس لوگوں اور بیمار خواجہ سرائوں کی دلجوئی کرتے امجد ثاقب ہمیں ایک سچے کھرے مسلمان دکھائی دیتے ہیں جو سسکتے ،بلکتے اور مایوس اور محروم دلوں کے لیے امید کی روشنی بن کر رواں دواں ہیں۔ہماری دعا ہے‘ رب العزت انہیں مزید برکتیں اور ترقیاںعطا کرے۔ ’’اخوت کا سفر‘‘ میں اخوت کی کہانی ہی نہیں،اس کتاب میں معاشرے کے پسماندہ کرداروں کے روح فرسا حالات اور واقعات کے ساتھ، آنسو اور سسکیاں بھی ہیں اور اخوت کا انہیں دلاسا دینے میں عظیم کردار ہے جس نے اُن کے دلوں میں ’’محنت میں عظمت‘‘ جیسے قول کو زندہ و جاوید کر دیا ہے ۔اب ملک کے کونے کونے میں اخوت کے دیے روشن ہیں اور لوگ اِن چراغوں سے اپنے گھر کی تاریکیاں دور کرنے میں مگن ہیں۔ اگر ایک تنہا آدمی لاکھوں افراد کے لیے مسیحا بن سکتا ہے تو حکمران یہ سب کام کیوں نہیں کر سکتے ؟اخوت جیسا نظام ملک بھر میں رائج کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ کہنے کو تو ہم سب یہ کہتے نہیں تھکتے کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا‘ یقینا یہ سچ ہے مگر یہاں مواخات کا فلسفہ لاگو کیوں نہیں کیا جاتا ؟بھائی چارے،ہمدردری اور دستگیری کے لیے کیا کوئی آسمان سے اترے گا ؟ ہم سب اور ہمارے سیاسی رہنمائوں کو ان سوالات پر غور کرنا چاہیے کہ ہمارے سامنے اسی دھرتی کا ایک بیٹا مشعلِ راہ بن کر کھڑا ہے۔ ویل ڈن امجد ثاقب ویل ڈن!!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں