ابو العلا معّری کہتا ہے ’’دنیا مُردار ہے اور ہم اِس کے ارد گرد بھونکنے والے کتے۔ ناکام رہا جس نے اِس میں سے کھایا اور کامیاب رہا وہ جو خالی پیٹ پلٹا ‘‘غور کیا جائے تو آج کا انسان ’’ دنیاداری ‘‘ کو ہی سب کچھ سمجھے ہوئے ہے۔دنیا کی حرص و ہوس نے انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے ۔دنیا کی اِس چکا چوند میں آج ہر کوئی اکلاپے کے عذاب سے دوچار ہے ۔ایک عجیب سی بے سکونی اور بے یقینی ہمیں اندر سے چاٹ رہی ہے۔رات دن عجیب بھاگ دوڑاور آپا دھاپی کا سامنا ہے۔ہمارے پاس اپنے لیے بھی فرصت نہیں۔لوگ کئی کئی جگہوں پر کام کرتے ہیں پھر بھی گزر نہیں ہوتی۔ہم رات دن کی چکی میں پِستے چلے جارہے ہیں اور ہمیں خبر ہی نہیں۔زندگی کی اسی بھاگ دوڑ میں بیماریوں میں گھِر کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔پتہ اُس وقت چلتا ہے جب موت سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔پھر احساس ہوتا ہے کہ اگر مرنا ہی تھا تو مر مر کے جینا کس لیے تھا؟ہم نے تو اپنے ارد گرد آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھاکہ اتنی فرصت ہی نہ تھی ۔ ع ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا مگر کیا کیا جائے ہم سبھی آسائشوں کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ہماری منزل تو صرف دولت ،شہرت ،عزت اور لذت ٹھہری ۔ہمیں تو ہوش ہی نہیں کہ کائنات غور و فکر اور تدبر کا تقاضا کرتی ہے مگر ہم کھانے پینے پہننے ،سنورنے میں وقت کھو بیٹھتے ہیں۔اور چسکوں نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ قومی سطح پر ہم علم و دانش کے فروغ اور آنے والی نسلوں کے لیے کچھ نہ کر سکے۔ہمارے پاس کوئی نظام ہی نہیں ۔ہر شعبے میں ’’ایڈہاک ازم ‘‘ کا دور دورہ ہے۔ہم مختصر راستے اپناتے ہیں اور آگے چل کر انہی راستوں کی گرد میں کھو جاتے ہیں۔آپ قوم کی نفسیات جاننے کے لیے کسی بھی سڑک پر آ کر ٹریفک کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ ہم کس قدر جلدی میں ہیں، ہمیں کسی دوسرے کی پروا نہیں ۔بس ہم گزر جائیں باقی سب جائیں بھاڑ میں ۔کیا ایسا کبھی ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے آگے نکلتے ہوئے کوئی منزل تک پہنچ جائے کیونکہ سامنے آنے والوں نے بھی یہی کچھ کرنا ہے سو ٹریفک جام تو ہونا ہے۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ ہم میں صبر ، برداشت، ایثار کیوں ختم ہو چکا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ ہم اپنی اصل سے دور ہو چکے ہیں، اپنی روایات اور اقدار کے ساتھ دین کی راہ سے عملی طور پر ہٹ گئے ہیں۔اور پھر جس ملک میں انسانی غذائوں اور دوائوں تک میں ملاوٹ ہوتی ہو،اس معاشرے کی بے حسی ،خود غرضی ،حرص اور لالچ کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔۔کیاہم کبھی سنجیدہ ہوں گے ؟؟ یہ سب کام تو دانشوروں اور درسگاہوں میں تعلیم دینے والوں کا ہے لیکن پھر وہی بات جب آوے کا آوا بگڑا ہو تو گلہ کس سے کیا جائے؟دانشور اور راہ دکھانے والے خود دنیا کی دلدل میں ’’نکونک‘‘ دھنسے ہوں تو عام آدمی اور ان کے رہنمائوں کا کیا حال ہو گا۔ آج سب سے زیادہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ لوگوں میں شعور وفکر اورعلم و تدبر کی روش عام کی جائے اور اس کے لیے سب سے پہلا فرض میڈیا کا ہے۔کیا ٹی وی چینلز پر ایسے سنجیدہ پروگرام پیش کیے جاتے ہیں جو لوگوں میں محبت ،امن ،برداشت ،ایثار اورقربانی کا شعور اجاگر کر سکیں ۔معاشرے میں علم و ادب کے فروغ اور کتابوں سے دوستی کے بغیرہم اپنے اندر کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ آج کے اِس افرا تفری کے دور میں صوفیانہ فکر کی ضرورت دوچند ہو جاتی ہے۔آج بابا فریدؒ سے لے کر میاں محمد بخشؒ اور پھر رحمن باباؒ، خوشحال خٹکؒ سے شاہ لطیف بھٹائیؒ تک سبھی صوفی شعراء کے افکار کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں تصوف کی دکانیں موجود ہیں۔اُن کے اشتہار بھی چلتے ہیں ۔’’ سوٹڈ بوٹڈ ‘‘ مفکرین متصوفانہ موضوعات پر لیکچر بھی دیتے ہیں اور ان کی کتابیں بھی بکتی ہیں۔اس سلسلے میں دکان کی مشہوری کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے مگر عوام الناس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ۔وجہ یہ ہے کہ تاثیر کی خوشبو کردار کی مرہون منت ہواکرتی ہے۔خود گُڑکھانے والے کسی کو گڑ کھانے سے کیسے روک سکتے ہیں۔؟ جب اسا تذہ کو اپنے وقار کا بھرم رکھنے کے لیے ٹیوشن پڑھانی پڑے، اکیڈیمیاں جوائن کرنا پڑیں تو بات کیسے بنے گی؟کوٹھیوں ،بنگلوں میں رہنے والے اور بھوک پیاس اور گرمی کے ذائقوں سے نا آشنا دانشور اور مفکر دوسروں کا درد تکلیف کیونکر محسوس کر سکتے ہیں ؟تشویش ناک صورتحال ہے کہ انسان ،انسان سے دور ہورہا ہے۔بہت ضروری ہے کہ آج لوگو ں میں کردار اور عمل سے محبت کی جوت جگائی جائے۔لوگ دو نمبر غذائوں سے نڈھال اور ان کی روح مردہ ہو چکی ہے۔ ہسپتالوں ،پرائیویٹ کلینکوں،حکیموں اور سپیشلسٹ ڈاکٹروں کے ہاں ہجوم نظر آتا ہے ۔جعلی پیروں فقیروں کے ڈیروں پر بھی سکون کی تلاش میں بھٹکنے والے کثرت سے ملتے ہیں۔مگر پریشانیاں اور تفکرات کم نہیں ہوتے ۔ہم لوگ سادگی ، قناعت اور ہمددری سے کوسو ں دور ہو چکے ہیں۔نہ جانے کیوں شاہ عبدا للطیف بھٹائیؒ کے افکار یاد آنے لگے ہیں، ملاحظہ کیجیے: ’’انسانوں سے زیادہ پرندوں میں پہچان ہے کہ وہ جھُنڈ بنا کر آپس میں محبت بانٹتے ہیں مگر انسان انسان سے دور بھاگتا ہے۔ اے سونے والے جاگ کہ اتنی نیند نہیں کرتے کہ سرفرازی و سلطانی کبھی نیند سے حاصل نہیں ہوتی۔ اگر تو اپنے ضمیر کے اند ر ایک مفتی کو بٹھا دے گا تو قاضی کے پاس جانے کی حاجت نہیں رہے گی۔ جس طرح کنڈھی بھینس کے سینگ بل کھا کر آپس میں لپٹے ہوتے ہیں اُسی طرح ہمارا محبوب ،ہماری روح سے بل کھا کر لپٹا ہوا ہے۔ سب آدمی اچھے نہیں ہوتے جس طرح سارے پرندے ہنس نہیں ہوتے۔ شاہ لطیف کی ’’ماروی اور عمر ‘‘کی داستان کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو : ’’اے عمر بادشاہ ! چرواہوں کی یہ ریت نہیں کہ غیروں کے ہاتھوں اپنے ہم وطنوں کو بیچ دیں۔ماروی محل میں رہ کر چرواہوں کی رِیت نبھائے گی او ر تیرے محلوں کو دیکھ کر اپنے جھونپڑوں کی ریت نہیں بھولے گی۔عظیم ہیں میری ہم وطن بیٹیا ں جن کا لباس صحرا ہے۔وہ اپنے ننگے جسم کو ،جنگل بیلو ںاور درختوں کے پتوں سے ڈھانپ کر صحرا میں گھومتی ہیںاور اُن کے میکے والے انہیں ویرانیاں جہیز میں دیتے ہیں‘‘ دیکھا آپ نے صوفی لوگ کیسے ذہنوں اور دلوں کو روشن کرنی والی باتیں لکھتے ہیں۔جن کی سچی خوشبو من کے بھاگ جگا دیتی ہے۔ایک ہم ہیں کہ دنیا کی آسائشوں ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیںحالانکہ یہاں ہمیشہ کسی نے نہیں رہنا ۔ میر تقی میر نے بھی تو کہہ رکھا ہے: آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا سائنسی اور مصنوعی ترقی نے ہمیں فطرت سے دور کر دیا ہے۔انسان ایک مشین بنتا جا رہا ہے۔حالانکہ اقبال نے صاف بتایا کہ: ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات اور اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی