چھٹی کا دن تھا،میں قدرے تاخیرسے بیدار ہوا، ناشتے کے بعد اخبارات کے مطالعے میں مصروف تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی۔ جی بسم اللہ ۔۔۔کون ؟ موبائل کی سکرین پر نام نہیں تھامگر آواز خاصی مانوس تھی، سواگلے پل میں انہیں پہچان چکا تھا ۔ ہمدمِ دیرینہ آصف ہمایوں اپنے مخصوص دھیمے انداز میں بول رہے تھے : جناب کہاں ہیں؟
بتایا : اتوار کے روز کہا ںجا سکتا ہوں، گھر پر ہوں۔
اچھا تو پھر دروازہ کھول دیجئے ، میں آپ کے گھر کے دروازے پر ہوں۔
میں نے حیرت اور سرعت سے دروازہ کھولا تو سامنے آصف ہمایوں اپنے ایک دوست کے ساتھ کھڑے مسکرا رہے تھے۔بیٹھتے ہی انہوں نے ایک بیگ سے کتاب نکالی اور میرا نام لکھ کر پیش کرتے ہوئے بولے : فقیر کا یہی اثاثہ ہے، قبول کیجیے۔
اب میرے سامنے '' ہر پہرکا آسماں ‘‘ تھا۔
برسوں بعد آصف ہمایوں سے ایسے ملاقات ہو گی، میرے وہم گمان میں بھی نہ تھا۔دیر تک ہم گئے دنوں کو یاد کرتے رہے۔ایسے میں اطہر ناسک جسے مرحوم کہتے کانپ اٹھتا ہوں ، بے طرح یاد آیا۔
آصف ہمایوں سے میری ملاقات اطہر ناسک کی وساطت سے ہوئی تھی۔آصف ہمایوں کو نمایاں رہنے کا شوق کبھی نہیں رہا۔دوستوں میں وہ نہایت دھیمے مزاج کے آدمی ہیں۔ٹھہر ٹھہر کر اور گہری بات کرنا ان کے مزاج کا حصہ ہے۔ان کے موضوعات میں مابعد الطبیعاتی فکر،فلسفہ ،تصوف،روحانیت ،انسان اور مظاہرِ کائنات شامل ہیں۔
آصف ہمایوں نے لاہور میں جنم لیا ۔ تعلیمی مدارج بھی یہیں طے کیے۔ معاشریات اور قانون کی ڈگریاں حاصل کیںاور پنجاب یونیورسٹی لاہور میں تدریس کے شعبے سے منسلک ہوگئے۔ آمرانہ دورِ حکومت میں چند دیگر اساتذہ کی طرح انہیں بھی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ وزارتِ داخلہ کے ایک ریسرچ پراجیکٹ پر کام کیا۔اس دوران بچوں کی جیلوں کے علاوہ جرائم پیشہ افراد کی جیلوں کا سروے کیا۔ لاہورثانوی تعلیمی بورڈ کے سیکرٹری بھی رہے، پھر مختلف تعلیمی اداروں میں تدریسی فرائض انجام دیتے ہوئے بطور پرنسپل ریٹائرہوگئے ۔اِن دنوں ایک نجی یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔آصف ہمایوں میرے اُس زمانے کے دوست ہیں جب میں لاہور میں نیا نیاآیا تھااور مختلف مقامی اخبارات کے علاوہ ریڈیو اور فلم کے لیے لکھنے کی جدو جہد میں مصروف تھا۔ عجب بھاگ دوڑ کا زمانہ تھا۔ ملتان کے دوستوں میں اطہر ناسک اور خواجہ ندیم اسلم ایڈہاک لیکچرار تعینات ہو چکے تھے۔اطہر ناسک نے صادق آباد سے لیکچرر سلیکشن بورڈ میں تبادلہ کرا لیا تھا۔ رضی الدین رضی اور طفیل ابنِ گل پہلے سے یہاں موجود تھے۔ ہماری شامیں اکٹھی گزرتیں۔لکشمی چوک میں قائم ہمارے اخبار کے دفتر سے لے کر رائل پارک کے چائے خانوں اور پھر حیدر بلڈنگ ، پاک ٹی ہائوس اور چائنیز لنچ ہوم تک ہر جگہ دوستوں کا ایک جمگھٹا رہتا ۔ آصف ہمایوں سے میری پہلی ملاقات لیکچرر سلیکشن بورڈ کے دفتر میں ہوئی تھی۔اس وقت بورڈ کے سربراہ اداکار محمد قوی خاں کے برادرِ بزرگ پروفیسر نبی انجم خان تھے جو سائنس کالج وحدت روڈ میں انگریزی کے استاد تھے۔اطہر ناسک کی وساطت سے لیکچرر سلیکشن بورڈ اور یہاں آنے والے جن احباب سے ملاقات ہوا کرتی ان میں نبی انجم خان کے علاوہ آصف ہمایوں ، ظہیربدر ،عبدالکریم خالداورطاہر انجم شامل تھے۔ انہی دنوں کبیر والا سے ہمارے استاد شاعر بیدل حیدری لاہور تشریف لائے تو ہم نے انہیں ان سب احباب سے ملایا۔ بعد میں جب کبھی بیدل حیدری لاہور آتے آصف ہمایوں کا ضرور پوچھتے ۔ ان کے اعزاز میں ایک بار آصف ہمایوں نے اپنے گھر میںشعری نشست کا اہتمام بھی کیا ۔ان دنوں لاہور کی ادبی محفلیں شباب پر تھیں۔اتوار اور بدھ کے روز ہم پاک ٹی ہائوس میں اکٹھے ہوتے۔ حلقہ اربابِ ذوق ، حلقۂ ادب اور پنجابی ادبی سنگت کے اجلاسوں میں بھی شرکت کرتے۔ان دنوں احمد لطیف کسی فلمی رسالے سے وابستہ تھا۔منصورآفاق سے عمران نقوی کی شادی کے روز ملاقات ہوئی اورپھر وہ بھی لاہورکا ہو رہا۔ منصور آفاق نے ہی میرا تعارف فرحت شاہ سے کرایاتھا۔ پھر درمیان میں منصور آفاق ٹیلی ویژن کی روشنیوں میںگم ہوگیااورفرحت شاہ شام نگر میں ہماراپڑوسی بن گیا۔ ان دنوں میں اور اطہر ناسک ایک ہی گلی میں رہائش پذیر تھے۔ جدو جہد کادور تھا ، موجودہ افراتفری اور ایک دوسرے کو روند کر آگے نکلنے کا رویہ عام نہیں ہوا تھا۔آصف ہمایوں ہم سب دوستوں میں ایک دھیمے اور سنجیدہ مزاج شخص تھے۔ وہ صاحب ِمطالعہ ہی نہیں جنیوئن تخلیق کار بھی تھے۔ مشاعروں میں جانے کا انہیں کوئی شوق نہ تھا؛ البتہ دوستوں کی محفل میں وہ شعر سناتے تھے۔ ان کی نظمیں اور غزلیں سن کر سبھی انہیں شعری مجموعہ لانے کا مشورہ دیتے مگر وہ ہنس کر ٹال دیتے۔درمیان میں کچھ عرصہ وہ ملازمت کی گرد میں کھو گئے۔بہت دنوں بعد اگلے روز جب وہ اپنے پہلے مجموعے سمیت نمودار ہوئے تو کتنی ہی کہانیاں یاد آ گئیں۔ماضی بھلے تلخ ہو، یادوں میں سنہری نقوش چھوڑ جاتا ہے۔آصف سے ملاقات میںماضی کی ادبی محافل کے ہنگامے آنکھوں کے سامنے آگئے۔ '' ہر پہر آسمان ‘‘ کی بدولت کائنات اور مابعد الطبعیاتی فکری مسائل کی قوس قزح آنکھوں میں در آئی ہے۔آصف ہمایوں کی نظم میں زندگی کے شعور اور فکری گہرائی کے نقوش نمایا ںہیں ۔ ممتاز نظم گو شاعر آفتاب اقبال شمیم لکھتے ہیں:
''آصف ہمایوں کی غزل کسی پرانی کشید کی طرح ایک کیف آور اٹھان اور اڑان دیتی ہے، میں سمجھتا ہوں وہ بنیادی طور پر ایک غزل گو شاعر ہے‘‘۔
اسی مجموعے کے فلیپ پر غزل گو جاوید شاہین اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں :
''آصف ہمایوں کی شاعری ایک کشادہ دل اور کھلا ذہن رکھنے والے شخص کی شاعری ہے۔آصف ہمایوں، غزل کی نسبت نظم میں اپنی بات زیادہ سہولت اور روانی سے کہتا ہوا نظر آتا ہے۔نظم میں اس کا طرزِ احساس‘ فکر اور لسانی تجربہ بڑے مربوط انداز میں آگے بڑھتا ہے اور اس صنفِ شعر کو توانائی بخشتا ہے‘‘۔
آپ نے محسوس کیا، آفتاب اقبال شمیم اسے غزل گو جبکہ جاوید شاہین نظم میں زیادہ بہتر شاعر قرار دیتے ہیں، وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہر شخص اپنے شعبے میں کسی اورکو خود سے بہترکہنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔
میں سمجھتا ہوں ، آصف ہمایوں غزل اور نظم دونوں میں یکساں مہارت کے ساتھ اپنے باطن کے رنگ بکھیرنے پر قادر ہیں۔ ان کی شاعری دماغ سے زیادہ روح اور دل کو چھوتی نظر آتی ہے۔
لوگ دیگ سے چاول کا ایک دانہ چکھ کر ذائقے کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ شاعری چاول کی دیگ نہیں مگر چند اشعار سے بھی شاعرکی فکر ی توانائی اور فنی پختگی سے آشنائی ہو جاتی ہے۔آپ بھی اندازہ لگائیں ، شاعروں کے جھرمٹ میں وہ ایک ''وکھری ٹائپ‘‘ کا شاعر نظر آئے گا:
وہ مل چکا ہے مجھے یا ابھی ملاہی نہیں
یہ مرحلہ تو مری جستجو کا تھا ہی نہیں
دیکھا جو نہیں تھا تمہیں دیکھا ہی نہیں تھا
اب دیکھ رہے ہیں تو فقط دیکھ رہے ہیں
مثالِ مہر خود اپنی دلیل بھی نہ ہوئے
ہم اپنی ایک سحر کے کفیل بھی نہ ہوئے
نہ جانے کون سی منزل ہے یہ سرِ منزل
وجود پہنے سفر کا لباس ہے اب بھی
حدوں کے پار سے آئے حدود میں آئے
پلٹ پلٹ کے ہم اپنی قیود میں آئے
میں ارتقائے مسلسل کی ایک منزل ہوں
تہہِ زمین ذرا سوچ کر اتار مجھے
خاک سے پیدا ہوا اپنا وجود
نام سطحِ آب پر لکھا گیا
ہمارا سلسلہ جا کر ملے سمندر سے
ہمارے اشک ہیں آصف سحاب کے اندر