عوامی نمائندے اور اخلاقیات

اِن دنوں جمشید دستی کی بہت دھوم ہے۔ جو کچھ جمشید دستی نے پارلیمنٹ کے اراکین ‘خاص طور پر ''پارلیمنٹ لاجز‘‘ کے مکینوں کی بابت کہا وہ اگر نہ بھی کہتے تو ممکن ہے عوام یہ سب کچھ جانتے ہوں۔ اور تو اور میڈیا سے بھی یہ سب کچھ چھپا ہوا نہ ہو۔اصل بات یہ ہے کہ وضع داری اور پردہ پوشی ہماری اخلاقیات و روایات کا حصہ ہیں‘اسی لیے کھل کر کوئی بھی کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔ ہمارے ہاں اشارے کنایوںمیں ''تنقید‘‘ کا رواج ہے۔ جہاں تک تلخ سچائیوں کا تعلق ہے تو ہمارے بیوروکریٹ‘ لکھاری‘ سیاستدان اور حکمران خود نوشتوں میں اپنی اندرونی کہانیاں بیان کرتے رہتے ہیں۔بعض بے باک صحافیو ں نے پس پردہ تلخ حقائق پر مشتمل کتابیں بھی تحریر کر رکھی ہیں۔عیش و عشرت اور کرپشن کی حقیقی داستانیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہمارے ایک نوجوان دوست صحافی ظہیر احمد بابر نے کافی عرصہ قبل ''پارلیمنٹ سے بازار حسن تک‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب میں کئی پردہ نشینوں کو بے نقاب کیا ۔آپ اس کتاب کو پڑھیں‘ اس میں کئی سر کردہ شخصیات کے واقعات پیش کیے گئے ہیں۔ہم حیران ہیں کہ جمشید دستی کے انکشافات پر( جو دراصل انکشاف کے زمرے میں بھی نہیں آتے) قومی اسمبلی کے سپیکر کیوں غصے میں ہیں ۔ وہ پارلیمنٹ اراکین کے لیے بنائی گئی ''محفوظ رہائش گاہوں‘‘ کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات پر تحقیقات ضرور کرائیں مگر ایسے بیانات سے پرہیز کریں تو مناسب ہو گا کہ '' اگرچار دیواری کے اندر کچھ ہو رہا ہو تو وہ اس کے ذمے دار نہیں ‘‘۔
ہمیں تو سپیکر صاحب کے اِس بیان پر بے حد حیرت ہوئی ہے۔ کوئی بتائے کہ چار دیواری کے اندر نہیں توکیا سڑکوں اور چوراہوں پر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں؟ کون نہیں جانتا کہ یہ سب کچھ تو ہمیشہ انہی محفوظ جگہوں پرہوا کرتا ہے جہاں کسی قسم کے چھاپے کا ڈر نہ ہو۔جمشید دستی کے'' انکشافات‘‘ سے اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ اب گیسٹ ہائوسزاور '' محفوظ ‘‘ رہائش گاہوں کے مکینوں کو بھی کان ہو گئے ہیں، آئندہ وہ بھی احتیاط کریں گے کہ یہ وہ دور نہیں ہے جب ان کی خفیہ سرگرمیوں کی ،کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوا کرتی تھی ،اب تو دیواروں کے کان ہی نہیں آنکھیں اور ناک بھی ہوتے ہیں۔ سو جناب اپنی منجی تھلے بھی ڈانگ پھیریں ۔اگر قالینوں کے نیچے گند چھپا ہے تو اسے بھی ضرور صاف کرائیں۔چا ر دیواری کے اندر کے ''گند ‘‘پر آنکھیں بند نہ کریں‘ کیوںکہ عام لوگوں اور عوامی نمائندوں ،سربراہوںاور قائدین میں فرق ہوتا ہے۔ایسے لوگوں کی زندگی ''پبلک پراپرٹی‘‘ ہوا کرتی ہے ۔لوگ انہیں آئیڈیل گر دانتے ہیں۔ان کے ایک ایک پل کو اہم سمجھا جاتا ہے، ان کے منہ سے نکلی ہوئی ہربات یا اُن سے سر زد ہر حرکت قوموں کے لیے مثال بن جاتی ہے۔ عوامی نمائندہ ہونے کے دعوے داروں کو اپنے افعال کردارشفاف رکھنا پڑتے ہیں۔ انصاف پسند سماج میں ذرا سی کوتاہی پر ذمہ دار افراد اپنے عہدوں سے خود الگ ہوجاتے ہیں۔ ایک ہمارا معاشرہ ہے کہ بڑے سے بڑے سکینڈل اور مقدمے کے باوجود لوگ اپنے عہدوں سے مستعفی نہیں ہوتے ۔ شراب نوشی کے حوالے سے یونانی فلاسفر افلاطون نے بھی ایک بات کہہ رکھی ہے کہ :
''مملکت کے پاسبانوں کو شراب سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اگر یہ خود ہی حواس باختہ ہوں تو کسی اور کی کیا حفاظت کریں گے‘‘
حکمران اور قوم کے نمائندے بھی قوم کے پاسبانوں میں شامل سمجھے جاتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں قانون کی پاسداری ہمارے نمائندے ہی نہیں کرتے۔ وہ کچھ بھی کریں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ آج تک ہم نے کسی سیاسی شخصیت کو نہ تو اپنے عہدے سے الگ ہوتے دیکھا ہے اور نہ اسے باقاعدہ سزا پاتے۔ جیلوں میں رہنے کے باوجود پارلیمنٹ میں آ بیٹھے ہیں۔ہم ان باتوں پر کبھی غور نہیں کرتے۔ ہم سب نے دنیا کے عیش و آرام ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ہم بے حد معمولی اور چھوٹے چھوٹے مفادات اور مصلحتوں کے لیے اپنی آنکھیں اور کان بند کر لیتے ہیں۔جمشید دستی کوئی فرشتہ نہیں مگر اس نے ثابت کیا ہے کہ وہ عام آدمی کا حقیقی نمائندہ ہے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ یہ سب کچھ پبلسٹی کے لیے کرتا ہے۔ کیا اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے متمول سیاستدان پبلسٹی کے لیے عجیب و غریب بیانات نہیں دیتے ؟ توانائی کی بچت کے لیے ہمارے ہاں '' دستی پنکھے‘‘ بھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔خیموں میں دفاتر بھی لگائے جاتے رہے ہیں۔غلط وعدے بھی ہوا کرتے ہیں۔زرداریوں کو گھسیٹنے اور ان کی بیرونی دولت ملک میں لانے کے دعوے بھی کیے جاتے رہے ہیں۔کیا اس پر کسی نے نام بد ل لیا ہے؟ جمشید دستی سر سے پائو ں تک عام آدمی ہے۔اسے کچھ بھی کھونے کا ڈر نہیں ہے۔ شایداسی لیے اس نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔پردہ پوشی اچھی بات ہے مگر حکمرانوں کو غیر اخلاقی سرگرمیوں سے اجتناب کرنا پڑتا ہے۔انہیں خوف ہونا چاہیے کہ ان کی باز پرس بھی ہو سکتی ہے۔انہیں صرف طاقت اور دولت کے بل بوتے پر قانون کا تمسخر اڑانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔پڑھے لکھے اور ان پڑھ کے جرم میں فرق ہوا کرتا ہے۔قوم کے نمائندے ذمہ دار لوگ ہوا کرتے ہیں ،انہیں نیٹ اینڈ کلین ہونا چاہیے۔اگر گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھانے کی کوشش کی ہے تو اس پر شفاف ایکشن ہونا چاہیے۔اب تو جمشید دستی نے ثبوت بھی فراہم کر دیے ہیں۔دود ھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیا جانا ضروری ہے۔اخلاقیات کے حوالے سے سقراط کہتاہے :
''اعلیٰ درجے کی زندگی مرنے سے قبل موت کی ایک کوشش ہے۔جذبات اور مادی خواہشات سے بچ کر عقل ِخالص اور خیر محض کی طرف جانا جسمانی موت اور روحانی حیات ہے‘‘
دانا انسان اس قسم کی موت کی کوشش جسمانی زندگی کے اندر رہتے ہوئے ہی شروع کر دیتا ہے۔اس کے بعد جسم کی مطلق تحلیل سے ڈرنے کی بجائے اس سے خوش ہوتا ہے اور اس سے گریز نہیں کرتا۔مرد ِعاقل کی نشانی یہ ہے کہ جسمانی موت کا قطعاًکوئی خوف اس کے دل میں نہ ہو۔سقراط کے افکار سے مزید چند سطریں ملاحظہ ہوں :
اپنے نفس کو پہچانو ۔تمام حقائق کا دروازہ اسی عرفانِ نفس سے کھلتا ہے ۔
اخلاقیات ہی اصل علم ہے‘ باقی تمام علوم اس کے مقابلے میں ظنی اور اضافی ہیں۔
کوئی شخص جان بوجھ کر برائی نہیں کرتا ،علم سے ضرور نیکی سر زد ہو گی اور جہالت سے بدی۔بد آدمی بھی شر کو خیرسمجھ کر کرتا ہے،فطرتاًوہ بھی خیر کا طالب ہے۔مگر جہالت کی وجہ سے راستہ بھول گیا ہے۔
نیکی علم ہے، اس لیے اس کی تعلیم ہو سکتی ہے۔خیر اور شر کے اصول عقلی طور پر لوگوں کو سمجھا سکتے ہیں۔
فرد کی زندگی میں سعادت اور ہم آہنگی عدل سے ہی قائم ہو سکتی ہے۔
حُب ِجا ہ اور طلبِ قوت سے لوگ سیاسی رہنما بننے کی کوشش کرتے ہیںاور جمہوری حکومتوں میں بعض ذہین لوگ اس رہنمائی کو خطابت سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
سچ وہی بول سکتا ہے جو دانا ہو‘ جس کا نفع نقصان حکومت یا عوام کے ہاتھوں میں نہ ہو۔
سچا آدمی موت سے نہیں بلکہ بد اعمالی اور تخریب ِروح سے گھبراتا ہے ۔
نیکی کے ساتھ ذوقِ فقر یعنی سادہ ترین زندگی کی خواہش ضروری ہے ‘کیونکہ اس کے بغیر نیکی قائم نہیں رہ سکتی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں