وجوہ دیوار پر لکھی ہیں۔ اگر کوئی آنکھ بند کر لے تو بھی کیا ہو گا...؟ صرف یہی کہ گرتی ہوئی دیواروں کو ایک د ھکا اور لگے گا چاہے وہ جہاں بھی ہوں۔
آپ نے دیکھا۔ ہماری سیاسی تاریخ میں پہلی بار یومِ انتخاب کو یومِ احتجاج کے طور پر منانے والے زیادہ منظم ہو کر باہر نکلے۔ قومی الیکشن کی اولین سالگرہ پر ملک کے درجنوں شہروں میں احتجاجی ہجوم جمع ہوئے۔ زیادہ تر جلسے ٹی وی نے دِکھائے۔ کہیں بھی ''جلسی‘‘ جلوہ افروز نہ ہوئی۔ ساری احتیاطوں کے باوجود ووٹروں نے کھل کر سمجھ لیا کہ یہ تمام ایکسرسائز مڈ ٹرم یعنی وسط مدتی الیکشن کی ریہرسل ہے یا اس کا پہلا ٹریلر۔
یومِ احتجاج کے مطالبے سامنے ہیں۔ اس لیے آنے والے دنوں کادرست اندازہ لگانے کے لیے ان کا ہلکا سا پوسٹ مارٹم کر لیتے ہیں۔ پہلا مطالبہ فراخ دلی سے نئے صوبے بنانے کا ہے۔ یہ مطالبہ سرائیکی صوبہ، پوٹھوہاری صوبہ اور ہزارہ صوبے کے لیے الیکشن مہم میں شہ سُرخیوں اور انتخابی وعدوں کا عنوان تھا۔ دوسرا مطالبہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیلِ نو کا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مسئلے کا ایک حل تو آئین میں نئی ترمیم ہے ۔ دوسرا راستہ موجودہ ارکان کے استعفیٰ کا ہے۔ ان دونوں راستوں پر ہَلہ گُلّا ہو سکتا ہے۔ فی الحال پارلیمنٹ کے اندر نمبر گیم کسی کے پاس نہیں۔ الیکشن کمیشن کے ارکان کو ہٹانے کا تیسرا راستہ آئین کے آرٹیکل 209سے کھلتا ہے‘ جس کی طرف کچھ ارکانِ کمیشن نے درست طور پر اشارہ بھی دیا ۔مگر اس دروازے پر ایک صاحب کے خلاف درج کرپشن ریفرنس کے ہاتھی کی لاش پڑی ہے۔ چوکیدار نہیں چاہتے کہ یہ دروازہ کھلے‘ کیونکہ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اگر یہ ''گیٹ کریش‘‘ ہوا تو پھر بہت سے نام سامنے آ جائیں گے۔ احتجاجیوں کا تیسرا مطالبہ عبوری حکومت کے لیے اچھی اور لانڈری شدہ نگران کابینہ کے چنائو کا ہے۔ ظاہر ہے نگران تب آتے ہیں جب براجمان اُٹھائے جاتے ہیں۔آج کل کے آنے جانے والوں پر ذرا سے تصرف کے ساتھ یہ شعر خوب فِٹ آتا ہے ؎
لائے ''جناب‘‘ آئے‘ قضاء لے چلی‘ چلے
اپنی خوشی نہ آئے‘ نہ اپنی خوشی چلے
''جناب‘‘ کا لفظ مجھے شہرِ اقتدار والوں نے بتایا ہے۔ ویسے بھی جس ملک کی جمہوریت ایک عدد بے جان ''آلو‘‘ کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہ رکھتی ہو‘ اُسے خواہ مخواہ ''صاحبِ حیات‘‘ ہونے کا چیلنج دینا کہاں کا انصاف ہے...؟ ڈی چوک کے ''تحریریوں‘‘ نے دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ حکومت کہتی ہے یہ مطالبہ ٹھیک ہے۔ جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جرگہ سر آنکھوں پر‘ مگرپرنالہ وہیں رہے گا جہاں پہلے تھا۔ ویسے بھی اگر یہ مطالبہ مان لیا جائے توہمارے تازہ مہربان ایاز صادق کی ماہرانہ سپیکر شپ کا کیا بنے گا...؟ پھر ریلوے چلے نہ چلے بے تکان اور صاحبِ زبان محکمے کا کیا حال ہو گا...؟ جہاں 22گریڈ کے صرف دو عدد سیکرٹری کراچی جانے والی ٹرین کو اختیارات کے بھائی پھیرو سے دو مخالف سمتوں میں کھینچ کھینچ کر تھک چکے ہیں۔ اس لیے ایک صاحب زیرِ زمین چلے گئے۔ دوسرے مواقع کے آسمان کا سیکنڈ ہینڈ ستارہ بن گئے۔
وفاق کے مشیروں کا تازہ مشورہ مخالفوں کی پکڑ دھکڑ کا ہے‘ تاکہ نظر آنے والے اور بولنے کی سکت رکھنے والے کچہریوں کے چکر کاٹنا شروع کر دیں۔ ان مشیروں میں سے اکثر وقت کے سکندر سے مفاہمت کر لیتے ہیں۔ اس لیے اچھا وقت اچھے طریقے سے گزارتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تا تو پروٹیکشن آف پاکستان آرڈیننس صدارتی فیکٹری سے نکل کر قومی اسمبلی سے دو دفعہ منظور نہ ہوتا۔ مشیروں کو معلوم ہے کریں گے وہ‘ بھگتے گا کوئی اور۔ موجودہ عظیم عوامی اور جمہوری نظام کے پنجے سرمائے کی فیکٹری میں بنے ہیں۔ جہاں بھکر اور میانوالی کے لڑاکا مُرغوں کی طرح پنجوں پر لوہے کے دستی چاقو چڑھائے جاتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ ہمیشہ سے یہی ہے کہ مینڈیٹ جتنا بھاری ہو گا‘ اُتنا ہی دیمک زدہ بھی۔ مخالفوں کا ناطقہ بند کیے بغیر نہ تو احتجاجی آوازوں میں اضافہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی احتجاجی مچ (آگ کا الائو) مزید تیز ہو گا۔ آگ اور شعلوں کے الائو کی کیمسٹری بتاتی ہے کہ یہ محض ایک ماچس کی تیلی سے شروع ہوتا ہے‘ پھر جو لکڑی بھی دستیاب ہو وہ شعلوں کو مزید بھڑکاتی رہتی ہے۔ اس لیے مڈ ٹرم کی ریہرسل کرنے والے تسلّی رکھیں‘ سرکار دربار کے مشیروں سے زیادہ ان کی مدد سیمنٹ اور گھی کی ایجنسی سمیت کوئی دیگر ایجنسی بھی بالکل نہیں کر سکتی۔
ہمارے کالم فتوے نہیں ہوتے‘ اس لیے پڑھنے والوں کے تبصروں کا ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتے۔ روزنامہ ''دُنیا‘‘ میں میرا پہلا کالم 12مئی کو چھپا۔ اُن ہزاروں قارئین کا شکریہ جنہوں نے دُنیا اخبار کی ویب سائیٹ، مختلف بلاگز اور ویب پورٹل پر یہ کالم لگایا۔ خاص طور سے برادرِ عزیز حسن نثار نے 13مئی کے اپنے کالم میں وکالت نامے کی خوبصورت رسید بھجوائی‘ ساتھ ہی اپنی کتاب ''پچھلے پہر کا چاند‘‘ کی غزل کے کچھ اشعار میرے نام کیے۔ میں یہ حسبِ حال اشعار آپ کے نام کرتا ہوں:
ہر محلے میں صفِ ماتم بچھا دی جائے گی
جو زباں بولے گی، پتھر کی بنا دی جائے گی
اتنی دوری سے خدائوں کو نظر کیا آئے گا
یہ زمیں اب آسمانوں تک اُٹھا دی جائے گی
کاٹ دی جائیں گی شاخیں ہر تناور پیڑ کی
فصل ِ تازہ اچھے بیجوں کی جلا دی جائے گی
بِن دوا، مر کے شفا پائیں گے صدیوں کے مریض
تندرستوں کو زبردستی دوا دی جائے گی
خون پی لے گی مرا، اک دن بلوغت کی بلا
مجھ کو میری ہوش مندی کی سزا دی جائے گی
شعر اور شیر وہی ہوتا ہے جو ہر صدی کے حالات میں تر و تازہ نظر آئے‘ جبکہ عوامی شعر حافظے کے بینک میں سیف ڈپازٹ کی طرح موجود رہے۔ حافظہ وہ استعمال کرتے ہیں جنہوں نے ماضی سے سبق سیکھنا ہو۔ ایسی مخلوق پاکستان کے نگار خانوں میں تو ہو گی اقتدار خانے اس سے خالی ہیں۔
اس لیے مڈٹرم کی ریہرسل میں سب سے زیادہ حصہ پنجاب پولیس نے ڈالا۔ پولیس اپوزیشن پر اس قدر مہربان تھی کہ اُس نے ہر علاقے میں ناکے لگائے۔ ایسے ہی درجن بھر ناکے ہمارے گھریلو ڈرائیور چاچا مجید نے اپنے گائوں پکّی شاہ مردان تحصیل میانوالی سے ایف ایٹ اسلام آباد پہنچنے تک بھگتائے۔ ہر ناکے پر پویس نے ڈرائیور کو نیچے اُتارا‘ اُس سے جمہوری نظام کے تحفظ کے لیے مفاہمتی مذاکرات کیے۔ پھر جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کی خاطر بس ڈرائیور سے گولڈن ہینڈ شیک کر ڈالا۔ سواریوں کی عزت افزائی کی خاطر ایک ایک کے نیفے اور تھیلے کی تلاشی لی اور ہر کسی سے کہا کہ جس کے پاس کوئی جھنڈا یا ڈنڈا ہے نکال کر باہر رکھ دے۔ خود سوچیے ریہرسل کہاں کہاں تک پہنچی۔