اجتماعی دانش

کابینہ کے اجلاس کے لیے تلاوت شروع ہوئی‘ ساتھ ہی کیبنٹ روم کا دروازہ بند ہو گیا‘ مگر تلاوت قرآنِ کریم کے دوران ہی ایک سدا بہار بیوروکریٹ اٹھا اور وزیراعظم کے کان میں کُھسر پُھسر شروع کر دی۔وزیراعظم نے چِٹ لکھی اور سیکرٹری کیبنٹ کو بھجوائی ۔کابینہ کا ایجنڈا جو حکومتِ پاکستان کے رولز آف بزنس مجریہ 1973ء کے مطابق وفاقی وزراء کو اجلاس سے کم از کم تین دن پہلے بھیجا جانا ضروری ہے‘ دھرے کا دھر ا رہ گیا ۔ایور گرین بیوروکریٹ نے وزیراعظم پروگرام کے لیے ''پاور پوائنٹ‘‘ کے سہارے بریفنگ کا آغاز کرنا چاہا ۔میں نے اُسے اونچی آواز میں ٹوک دیا۔ بیوروکریٹ بولا‘ یہ وزیراعظم پروگرام کی بریفنگ ہے ۔ میں نے پُر عزم لہجے میں جواب دیا‘ کابینہ رولز کے تحت چلتی ہے ۔ رولز آف بزنس کسی بلڈوزر کو نہیں مانتے۔یہ کہنا تھا کہ کابینہ کا اجلاس مچھلی منڈی میں تبدیل ہو گیا ۔
2010ء میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کی یہ کارروائی مجھے وفاقی حکومت کے سب سے ہمدرد اردو اخبار کی خبر پڑھ کر یاد آئی۔ اخبار کہتا ہے: ہائوسنگ اینڈ ورکس کے وفاقی سیکرٹری نے وزیراعظم کی صاحبزادی کو ''وزیراعظم اپنا گھر ہائوسنگ سکیم‘‘ کی پراگریس کے حوالے سے غلط بریفنگ دے دی ۔رپورٹر نے جو تفصیل لکھی اس میں سے ''غلطی‘‘ آپ ڈھونڈ نکالیں۔تفصیل کے مطابق سیکر ٹری نے میٹنگ میں بتایا کہ پچھلے ایک سال کے دوران میں کم لاگت کے رہائشی منصوبے پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ چنانچہ متعلقہ وزارت کی طرف سے اپنے ہی سیکر ٹری کے خلاف خبر چلوائی گئی‘ حالانکہ قانون کی رُو سے وفاقی سیکرٹری وزارت کا چیف اکائونٹنگ آفیسر یعنی مستقل سر براہ ہوتا ہے۔ جبکہ ڈاکٹر اجمل نیازی کے بقول وزیر شزیر آتے جاتے رہتے ہیں ۔ خبر میں یہ 'بریکنگ نیوز‘ بھی چلوائی گئی کہ وفاقی سیکر ٹری پانچ دن سے بلا اجازت ڈیوٹی پر نہیں آیا۔یوں لگتا ہے جیسے وزارت ہائوسنگ اینڈ ورکس کے لیے بھی یونس ڈھاگا کی جگہ کوئی ''برادری کا بندہ‘‘ ڈھونڈا جا رہا ہے ۔مجھے اس وفاقی سیکرٹری کو شاباش دینی ہے‘ جس نے بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ اور اپنی آخر ی عدالت کے ریمارکس کی رُو ح کے عین مطابق غلط بیانی کو ''اِن دی لائن آف ڈیوٹی‘‘ سے نکال باہر کیا۔
ہمارے موجودہ اُدھاریہ نظام کے پاس ذاتی نمودو نمائش، تقریر، انٹرویو، شبھ شبھا اورسوٹ بوٹ کے علاوہ باقی کیا بچا ہے ؟ اس کی صحیح تصویر آپ پچھلے اور اگلے دور کے دونوں واقعات میں دیکھ سکتے ہیں ۔ صرف نام تبدیل کر لیں‘ سٹیٹس کو وہی ہے ۔موجودہ راج نیتی کا پاکستانی نظام ہے کیا ؟اس کا اندازہ لگانے کے لیے معاشرتی علو م کی کتابوں کے بجائے جگہ جگہ لگے ہوئے سرکاری بورڈ پڑھ لیں۔ ہم ادھار اور قرض پر پلنے والے ایشیا کے وہ واحد ''ٹائیگر‘‘ ہیں جہاں سبز ٹریکٹر پر وزیراعظم سکیم اور کالی پیلی ٹیکسی پر وزیراعلیٰ سکیم مگر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے غیر ملکی قرضے لیتے وقت ان پر کشکول سکیم نہیں لکھا جاتا۔ جونہی یہ قرضے پاکستانی یوتھ کے نام جاری ہوتے ہیں ان پر وزیرِ اعظم گھریلو سکیم کا ٹھپہ لگ جاتا ہے۔ بے دانش تعلیم کو اجتماعی دانش کے گھیرے سے نکالنے کے لیے ہسپتال، کالج، یونیورسٹیاں وزیراعلیٰ یا وزیر اعظم سکیم کے نا م سے بنائی جا رہی ہیں ۔ پاکستان میں لیاقت علی خان صاحب کے علاوہ کبھی کوئی غریب وزیرِ اعظم برسرِ اقتدار نہیں آیا۔ ہاں‘ البتہ قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو غریبوں کے لیے وزیرِ اعظم تھے۔ اسی لیے انہوں نے امریکہ کے پڑوسی لاطینی امریکہ کے ممالک کی طرزپر سرکاری قرضوں اور چور بازاری کے زور پر بنائی گئی نجی ملکیت کی ''ایمپائر‘‘ اجتماعی ملکیت میں دے دی۔ زرعی مزدوروں کو 'جو اُگائے وہی کھائے‘ کا ریلیف دینا شروع کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ موثر زرعی اصلاحات کے ذریعے زمینوں کی حدِ ملکیت قائم کی اور اس میں سے کسی سکیم پر وزیرِ اعظم سکیم کا بورڈ نہیں لگایا۔بڑوں کی دیکھا دیکھی آج ہر گلی، ہر نالی، ہر لنک روڈ پر جہازی سائز کے بورڈ سرکاری خرچ پر لگائے جاتے ہیں۔اشتہاروں کے ذریعے عوام پر مقامی بادشاہ کی طرف سے سرکاری فنڈ سے بنائے گئے پراجیکٹ کے تحریری احسانات لکھے جاتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے بڑے لیڈر جلسوں کے دوران غریبوں سے ہاتھ اُٹھوا کر کہلواتے ہیں‘ میں نے تمہیں سڑک دی ؟ بولو دی یا نہیں دی؟ میں نے تمہیں پراجیکٹ دیا ؟ بولو دیا یا نہیں دیا؟۔ یوں لگتا ہے جس طرح یہ سرزمین، اس کے وسائل اور اس پر جینے والے غریب عوام عرب شہزادوں کی طرح کسی کی ذاتی ملکیت ہیں ۔ ملک کے کھربوں روپے کے بجٹ سے مونگ پھلی کا جو چھلکا غریبوں کی طرف گرایا جاتا ہے‘ اس کے ساتھ ذاتی تشہیر، شخصی تصویر اور عوام کی تقدیر بدلنے کے دعوے تحریری ڈونگرے سمجھ کر برسائے جاتے ہیں۔جمہوریت لیڈروں اور اُن کے رشتہ داروں کو کیا دے رہی ہے‘ اگر اس ملک کے آٹھ شہروں میں سے 100بڑے منی چینجر اور ہُنڈی بروکر گرفتار کر لیے جائیں تو پہلے دن ہی تفصیل سامنے آجائے گی‘ لیکن موجودہ نظام غریبوں کو سال بھر میںکیا دیتا ہے‘ اس کا ثبوت یہ ہے کہ موجودہ بجٹ نے 20کروڑ لوگوں کی صحت کے لیے 27ارب روپے رکھے ۔ قوم کے سارے بچوں کی تعلیم کے لیے 67ارب روپے‘ جبکہ صرف ایک کشکول سکیم کے قرضوں پر سُود کی ادائیگی کے لیے 113ارب روپے رکھے گئے ہیں جو پاکستان بھر کے لوگوں کے لیے صحت اور تعلیم کے بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ اسی لیے آج کا ایٹمی پاکستان تعلیم میں دُنیا کا 132واں ملک جبکہ صحت کے شعبے میں 134ویں نمبر پر پایا جانے والا ''شیر‘‘ ہے۔ ہاں‘ البتہ غریبی ، جہالت، مہنگائی اور بے روزگاری کے میدان میں ہم عالمی جھنڈے گاڑ کر بلا مقابلہ ایشیئن ٹائیگر بن چکے ہیں۔ جسے یقین نہ آئے وہ ان شعبوں میں ہماری بین الاقوامی رینکنگ دیکھ لے جہاں ہم 4کے ٹولے میں شامل ہیں۔تین دوسرے ملکوں کی فہرست میں جو ''عالمی طاقتیں‘‘ شامل کی گئی ہیں ان میں پہلی صومالیہ، دوسری ایتھوپیا، تیسری ٹُوٹا ہوا سُوڈان اور چوتھی افغانستان ہے۔ اب تو بھارت کے 43 ویں صوبے جیسا افغانستان‘ جس کے32لاکھ مہاجرین کیمپوں میں پڑے ہیں اور جن کے کیمپ سرکاری اداروں کی رپورٹ کے مطابق جرائم کی نرسریاں ہیں‘ بھی ہمیں جنگ سے باز رہنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
2010ء والی کابینہ کے اجلاس کے رُوبرو میں نے ہر دل عزیز وزیر اعظم سکیم کے بارے میں یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ کیا ایسی ہر سکیم سارے پاکستانی وزیر اعظم اپنی ذاتی جیب میں سے بنواتے آ رہے ہیں؟ اس کا جواب مجھے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر نے دیا جو میرے سسرالی گائوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں گپ شپ کے دوران انہوں نے مجھے کہا ''Watch your back‘‘۔ چوہدری نثار علی خان دل کے ہاتھوں علیل ہیں ۔خدا انہیں صحتِ کاملہ سے نوازے۔ آج کل ان کے وزارتی حر یفوںاور خوشامدیوں کے سرکاری لشکروں سے تعلقات دیکھ کر میرا بھی دل چاہتا ہے میں ان سے وہی کہوں جو انہوں نے سالوں پہلے مجھے کہا تھا۔
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی 
 
ہم ذاتی فیصلوں پر کس قدر فخر کرتے ہیں جبکہ اجتماعی دانش سے کس قدر خوف کھاتے ہیں‘ اس کا ثبوت دو جگہوں سے ملتا ہے۔ ایک وفاقی اور صوبائی کابینہ کے اجلاس میں ، دوسرے پارلیمنٹ کے اجلاس میں جہاں پر ایسی خواتین‘ جنہوں نے نہ برتن مانجھے‘ نہ کبھی کچن کا دورہ کیا اور نہ ہی کبھی بجلی کے بغیر پیاز کاٹا یا مرچیں کُوٹیں‘ کہتی ہیں غریب گھریلو خواتین کے لیے یہ بجٹ مثالی ہے۔ اسی طرح وہ لیڈر‘ جو آٹے کی بجائے بران بریڈ کھاتے ہیں‘ انتہائی دیدہ دلیری سے بجٹ کو غریبوں کے نام کرتے ہیں۔ اس عظیم الشان انتظام کے تحت اسلام آباد کی داخلی سکیورٹی فوج اور رینجرز کے حوالے ہے۔ وفاقی وزیر کہتا ہے‘ سیٹ چھوڑ دوں گا چالان کی چِٹ نہیںپکڑوں گا اور اقلیتی ایم پی اے اپنے ہی محافظ کی گولیوں سے بھُون دیا جاتا ہے۔گجرات کے سگے ماں باپ ہسپتال کا بل ادا نہیں کر سکتے اور 32ہزار میں دو بچیاں بیچ دیتے ہیں۔
سلام اُس قوم پر جس کی بیٹی کی کُل قیمت 16ہزار روپے بمطابق 1650امریکی ڈالر لگی ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے غیرت اور عزت سے بھرپور لوگوں کے مقابلے میں مجھے برازیل کے وہ گمراہ لاکھوں لوگ اچھے لگے‘ جن کے جلوس کا نعرہ تھا ہمیں فٹبال نہیں روزگار چاہیے‘ ورلڈ کپ نہیں روٹی چاہیے۔
سورۂ قریش میں اللہ تعالیٰ نے عالمِ انسانیت کے نام یہ اٹل حکم جاری کر رکھا ہے۔ ''پس چاہیے کہ عبادت کریں اپنے پروردگار کی جس نے انہیں بھوک میں طعام دیا اور خوف سے نجات دے کر امن دیا‘‘۔ آفاقی اور اجتماعی دانش سے بھاگنے والے مکافاتِ عمل سے کیسے بھاگ سکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کے فیصلے میں کوئی تاریخ، پیشی مقرر نہیں ہوتی جسے کاریگر وکیل التوا کی درخواست کے ذریعے ٹال سکے۔
 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں