انصاف ضرور ہو گا!

پنجاب کا نیا بجٹ اپنے اعدادوشمار کی رو سے دو شہروں‘ لاہور اور فیصل آباد کے سیاسی سرمایہ کاروں کے لیے بنا ہے۔ اسی لیے راولپنڈی، لیّہ ،میانوالی، گجرات، گوجرانوالہ، سرگودھا، ملتان، بہاولپور،اور رحیم یار خان سمیت ہر علاقے کے لوگ اس پر تنقید کر رہے ہیں ۔پچھلے تیس سالوں میں پنڈی نے پنجاب کے تین گورنر‘ کئی آرمی چیف اور اقتدار کے ''مرغانِ بادِ نما‘‘ کے غول دیکھے‘ لیکن پوٹھوہار کے علاقے کو شہیدوں اور غازیوں کے بے لوث کارناموں کے علاوہ کسی دوسرے معاملے میں ترقی نہ ملی۔ نہ کوئی انڈسٹریل سٹیٹ بنی‘ نہ فری معاشی زون قائم ہوا اور نہ ہی غر بت یا بد ترین بے روز گاری کی رفتار دیکھ کر ترقیاتی فنڈز دیئے گئے۔ پنجاب کے دو شاہی درباروں کے علاوہ باقی علاقوں کی بد حالی ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے ۔بیچارہ قومی مالیاتی کمیشن ایک سال سے چیخ رہا ہے کہ سب ضلعوں کو مساوی فنڈز دو بلکہ پسماندہ علاقوں کو زیادہ دے دو ۔مگر ریاستی سیاست کے قبضہ گروپ کہتے ہیں فکر مت کرو‘ انصاف ضرور ہو گا۔
ہم اکثر سُنتے ہیں انگریز چلا گیا مگر اپنی ذہنیت یہیں چھوڑ گیا‘ لیکن جب سے متحدہ پنجاب کے انگریز گورنر سر ما ئیکل ایف ایڈوائر جسے جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام کا حکم دینے پر پنجاب کی عوامی عدالت نے سزائے موت دے دی تھی‘ کی کتاب India as I knew it میرے زیرِ مطالعہ آئی‘ میں اپنی زنگ آلود یا داغ دار گو رننس کو فرنگی کے طرزِ حکمرانی کا چربہ نہیں کہہ سکتا ۔ یہ بد بخت سر ما ئیکل ایف ایڈوائر ہی تھا جس نے 1919ء میں جلیانوالہ باغ امر تسر میں بریگیڈیئر جنرل ڈائر کونہتے شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا حکم دیا ۔اسی سال اسی گورنر نے گوجرانوالہ میں مظاہرین کے ایک جلوس پر ہوائی جہازوں سے بمباری بھی کروائی ۔ اس موضوع پر میں برادرِ محترم ڈاکٹر صفدر محمود کے ایس ایم ایس کا مشکور ہوں ۔ کاش کہیں فرنگی جیسا کوئی گورنر ہوتا تو وہ پنجاب سے ما لشیے تلاش کرنے کے بجائے ڈاکٹر صفدر جیسی گور ننس کی زندہ جاوید لائبریری سے عوام کو استفادہ کرواتا۔ جس دور میں گلو بٹ قابلِ فخر ہو اس دور کے طرزِ حکمرانی کو چلُو بھر پانی ڈھونڈنا چاہیے ۔
غیر ہندوستانی مائیکل ایڈوائر پنجاب کے عوام کے لیے اپنی حکمرانی کی ترجیح اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 124پر یوں بیان کرتا ہے ''بطور لیفٹیننٹ گورنر پنجاب میں نے جتنا عرصہ خدمات سر انجام دیں،ہمیشہ دیہی عوام کے مفادات کے فروغ کو فوقیت دی ۔انہیں میں صوبے کے استحکام اور خوشحالی کی بنیاد خیال کرتا تھا۔ میری اور میرے پیشروئوں کی کاوشوں کا ہمیں یہ صلہ ملا کہ جنگ کا زمانہ ہو یا امن کا دور ، ہمارے ساتھ دیہی عوام کا جذبۂ تعاون اور فعال وفاداری واضح نظر آنے لگی ہے‘ لیکن فطری سی بات تھی کہ تعلیم یافتہ دیہی اور بورژوا طبقات میں یہ پالیسی مقبول نہ ہو سکی ۔با لخصوص ہندو ناخوش تھے کیونکہ اُن کا مقام و مرتبہ اور طاقت ،دونوں خطرات کی زد میں آچکے تھے‘‘ نظامِ سرمایہ داری اور استعمار کا نامزد کردہ مائیکل ایڈوائر اپنی صدی کے انقلابی خیالات سے متاثر تھا۔ جس کا اظہار اُس نے کھل کر اپنی تصنیف میں بھی ان لفظوں میں کیا۔ ''دیہی '' بورژوا‘‘ طبقہ کسانوں کو اپنا ''فطری شکار‘‘ سمجھتا تھا۔اس کی طرف سے Land Alienation Act -1900 اور اس کے ساتھ ساتھ Rural Cooperative Credit Movement ہر دو سکیموں کی شدید مخالفت کی گئی ۔خوشحالی میں اس اضافے کے نتیجے میں کسانوں اور چھوٹے زمینداروں کے اندر صحت مند اور مثبت آزادی کا جذبہ پیدا ہو چکا تھا ۔وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ سرکار ان سے جو محاصل (ٹیکس) وصول کرتی ہے ،وہ انہی کی فلاح پر خرچ کئے جائیں ۔وہ چاہتے تھے کہ سرکاری ملازمتوں میں انہیں پہلے کی نسبت زیادہ حصہ دیا جائے ۔پہلے ان ملازمتوں پر پڑھے لکھے شہری طبقے نے اپنا تسلط جما رکھا تھا۔سر چارلس ریواز،سر ڈینزل آ بئسٹن اور سر لو ئیس ڈین ،تینوں با لترتیب میرے پیش رو تھے ۔ان کی رہنمائی اور سر جیمز ولسن ،مسٹرایس ایس تھا ربرن اور کرنل منٹگمری جیسے اعلی سرکاری افسران کی فعال معاونت کے نتیجے میں اِن سمتوں میں ِ قابلِ ذکر ترقی کا مشاہدہ کیا گیا‘‘۔
ہر مہذب سماج میں انصاف کی ابتداء معاشی مساوات سے ہوتی ہے۔ پاکستان میں معاشی ناہمواری، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور سرکاری وسائل کی یک طرفہ لُوٹ کھسوٹ نے غریبی اور امیری کے درمیان جزیرے بنا ڈالے ہیں۔ ہماری گورننس کا سب سے بڑا جھوٹ اور سب سے بڑی منافقت یہی نعرہ ہے کہ انصاف ضرور ہو گا۔ ویسے بھی عملی طور پر اگر ہم اگست 1947ء یا جنوری1948ء میں جی رہے ہوتے‘ کوئی کہتا انصاف ضرور ہو گا تو ہم یہ دعویٰ فوراً مان جاتے‘ لیکن 67سال میں پاکستان کے پِسے ہوئے طبقات اور کچلے ہوئے عوام وہاں پہنچ چکے ہیں جہاں ان کے ساتھ مزید ''چارسو بیسی‘‘ کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس کی وجوہ دیوار پر لکھی ہیں۔ آپ بھی پڑھ لیں: 
1۔کیا غریب کے بچے کے لیے تعلیمی نظام، تعلیمی سہولتیں اور اعلیٰ تعلیم کے مواقع یا تعلیمی مقابلے میں شرکت کا چانس ویسا ہی ہے جیسا سرمایہ داروں کے بچوں کو ملتا ہے؟ اس کا جواب ہے‘ نہیں۔
2۔کیا دیہات کے ٹاٹ اور ننگی زمین پر بیٹھ کر بغیر کسی سہولت کے پڑھائی کرنے اور امتحان دینے والے بچے فائیو سٹار اور سیون سٹار انگریزی سکولوں کے تیار شدہ طالبعلموں کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب ہے‘ قطعاً نہیں۔
3۔کیا سرکاری ملازمتوں میں ماسوائے مسلح افواج اور عدلیہ بذریعہ بار ایسوسی ایشن کسی بھی دوسری جگہ میرٹ پر بھرتیاں ہوتی ہیں؟ اس کا جواب ہے‘ بالکل بھی نہیں۔
یہ بھی ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اب غریب لوگ ''چپڑاسی کے عہدے‘‘ کی بھی قیمت ادا کرتے ہیں۔ کبھی کیش کی صورت میں‘ کبھی ووٹ کے ٹھپّے کی شکل میں۔ یہ کہتے ہوئے دل ڈوبتا ہے مگر آج کے پاکستان میں سب سے سستی چیز موت ہے‘ وہ بھی صرف اور صرف عام لوگوں میں رہنے والے عام آدمی کے لیے۔ خاص لوگ با حفاظت ریڈ زون میں رہتے ہیں۔ اب تو پرائیویٹ کمپنیوں اور پلازوں نے بھی سرکاری سڑکوں بلکہ شاہراہوں پر بیریئر نہیں سرِعام کنکریٹ کی اونچی دیواریں کھڑی کر لی ہیں۔ پاکستان کی معاشی چراگاہ میں دندنانے والے ہاتھیوں کے اثر و رسوخ کا یہ عالم ہے کہ کوئی ان کی طرف نگاہِ غلط انداز نہیں اٹھا سکتا۔
بھگت سنگھ کے قاتلوں نے اُسے کہا تھا‘ انصاف ضرور ہو گا۔ شہد کی مکھیوں سے شہرت پانے والے مولوی مشتاق نے پاکستان کے پہلے منتخب آئینی وزیرِ اعظم اور قائدِ عوام سے یہی کہا تھا‘ انصاف ضرور ہو گا۔ ہر روز غریبوں کی آبرو برباد ہوتی ہے۔ ہر روز حکومت اور عدالت نوٹس لیتی ہے۔ ہر روز پریس ریلیز جاری ہوتی ہے۔ہر روز سُرخی اور ٹِکّر بنتے ہیں۔ آئیے اپنے گریبان میں جھانکیں کیا کوئی تفتیش بھی ہوتی ہے؟ کہیں ملزموں کا ٹرائل چلتے بھی آپ نے دیکھا؟ کیا کبھی سیاسی مقدموں کے علاوہ پاکستان کی بیٹیوں کی آبرو کی پائمالی اور قائدِ اعظم کے بیٹوں کے قتلِ عام کے مقدمے میں کوئی تختہ دار تک پہنچا؟
یہ نظام مساوات دینے کے لیے نہیں بنا۔ لہٰذا نہ تو غریب کو انصاف دے سکتا ہے اور نہ ہی عوام کو ریلیف۔ گُلو بٹ کی گرفتاری کی نوراکشتی اور وزیرِ قانون کے استعفیٰ کا ٹوپی ڈرامہ‘ ظلم کے راج کو مضبوط نہیں کر سکتا۔
شورش کاشمیری نے بہت دن پہلے کہا تھا:
مصلحت اندیش لوگوں کا، سیاسی قافلہ
صورتِ حالات سے پیچھا چھڑا سکتا نہیں
اِک عمارت گِر رہی ہے گردشِ ایّام سے
شہر یاروں میں کوئی اس کو بچا سکتا نہیں
بے نوا کے روز و شب کیسے کٹے، کیوں کر کٹے
یہ کہانی میں ابھی، شورش سُنا سکتا نہیں
بے انصافی کے مارے ہوئے عوام یقین رکھیں۔ انصاف ضرورہو گا۔ قدرت کا انصاف! 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں