'' سٹیٹس کو ‘‘ اور عوامی مزاحمت کا عمل تاریخی اور عالمی ہے۔ غیر ملکی حملہ آوروں سے انعامات میں ملنے والی جاگیریں، ایزی ویلتھ یا آسان اقتدار سے جمع ہونے والی دولت سٹیٹس کوکا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ عوام جب بھی اپنا وجود تسلیم کرواتے ہیں یا اپنی طاقت منواتے ہیں، میرے جیسے لوگ خوش ہوتے ہیں، تعصب اور تقسیم کی عینک نہیں چڑھاتے۔ یہ سوچ ہمیں پچھلی دو صدیوں کا ایک عظیم آدمی دے کرگیا جو دنیا کے لیے محمد علی جناح اور ہمارے لئے محترم قائدا عظم ؒ ہیں۔
1973ء کے آئین کی تخلیق کے وقت جو پارلیمانی بحث ہوئی اس میں بانی پاکستان قائداعظمؒ کا ذکربار بار آتا رہا۔ خاص طور پر اپریل 1972ء میں عبو ری آئین کی تشکیل کے دوران سٹیٹس کو کے چوکیداروں اور اسے توڑنے کے خواہش مندوںکے درمیان الفاظ کی عالمی جنگ ہوئی جس میں ظفر احمد انصاری ،شیخ محمد رشید، محمود اعظم فاروقی، محمود علی قصوری، خورشید حسن میر، سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خان، ڈپٹی سپیکر سردار شوکت حیات وغیرہ نے اپنے دلائل کے جوہر دکھائے۔ اس مباحثے میںقائداعظم کی ایک تقریرکا حوالہ موجود ہے جوانہوں نے 1943ء میںآل انڈیا مسلم لیگ کے دہلی میں منعقد ہو نے والے اجلاس کے دوران کی۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس شاہکار عوام دوست تقریرکے کچھ اقتباس پڑھ لیجیے:
''مجھے دیہاتی عوام کی غربت اور مفلوک الحالی دیکھ کر بہت رنج ہوتا ہے۔
میں نے سفرکے دوران میں جب ریلوے اسٹیشنوں پر پنجاب کے دیہاتی مسلمانوں کے گروہ دیکھے تو مجھے ان کے افلاس سے سخت دکھ ہوا۔ پاکستان کی حکومت کا سب سے پہلا کام یہ ہوگا کہ ان لوگوںکا معیار زندگی بلندکرے بلکہ بہتر زندگی سے شاد کام ہونے کا سامان بہم پہنچائے۔ میں ضروری سمجھتا ہوں، زمینداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کر دوں کہ اس طبقے کی خوشحالی کی قیمت عوام نے ادا کی ہے۔ اس کا سہرا جس نظام کے سر ہے وہ انتہا ئی ظالمانہ اورشرانگیز ہے اوراس نے اپنے پرور دہ عناصرکو اس حد تک خود غرض بنا دیا ہے کہ انہیں دلیل سے قائل نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی مقصد براری کے لیے عوام کا استحصال کرنے کی خوئے بدان کے خون میں رچ گئی ہے۔ وہ اسلامی احکام کو بھول چکے ہیں۔ حرص وہوس نے سرمایہ داروں کو اتنا اندھاکر دیا ہے کہ وہ جلب منفعت کی خاطر دشمن کا آلہ کار بن جاتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ آج ہم اقتدارکی گدی پر متمکن نہیں ہیں۔ آپ شہر سے باہرکسی جانب چلے جائیں، میں نے دیہات میں جا کر خود دیکھا ہے کہ ہمارے عوام میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جنہیں دن میں ایک وقت بھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا۔کیا آپ اسے تہذیب و ترقی کہیں گے؟
کیا یہی پاکستان کا مقصد ہے۔کیا آپ نے سوچا کہ کروڑوں لوگوں کا استحصال کیا گیا اوراب ان کے لیے دن میں ایک بارکھانا حاصل کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اگر پاکستان کا حصول اس صورت حال میں تبدیلی نہیں لا سکتا تو پھر اسے حاصل نہ کرنا ہی بہتر سمجھتا ہوں۔ اگر وہ سرمایہ دار اور زمیندار عقلمند ہیں تو وہ نئے حالات کے مطابق اپنے آپ کوڈھال لیں، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر خدا ان کے حال پر رحم کرے ۔ ہم ان کی کوئی مدد نہیں کریںگے‘‘۔
یہ خوشی کی بات ہے کہ آج پاکستان کی تمام سیاسی قیادت ملک کو قائدِ اعظم کا پاکستان بنانا چاہتی ہے۔ 2014 عیسوی ایسا خوش بخت سال ہے جب سرکاری اور غیر سرکاری لیڈروں نے پاکستان کو قائدِ اعظم کے خواب کی تعبیر دینے کا مشترکہ اعلان کیا۔ اعلانات کی اس دوڑ میں سرکار،اپوزیشن سے میلوں آگے نکل گئی جس کا یہ ثبوت کافی ہے کہ 67 سال میں پہلی دفعہ اگست کا پورا مہینہ یومِ آزادی کے طور پر منانے کا اعلان ہوا۔ قائدِاعظم جو پاکستان بنانا چاہتے تھے اوپر درج تقریر میں اس کا کھلا ایجنڈا موجود ہے۔اگلے14اگست تک اگرکوئی سیاسی جماعت اس ایجنڈے پر چلنا چاہتی ہے تو وہ قائد اعظم کے ان نکات پر عمل درآمدکرے:
1۔دیہاتی عوام کی غربت اور مفلوک الحالی دُورکی جائے۔
2۔دیہاتی مسلمانوں کے گروہوں کے گروہ مفلس ہیں، اس غربت اور افلاس کا مداوا ہو۔
3۔پاکستان کی حکومت پہلے کام کے طور پر ان لوگوں کا معیارِ زندگی بلندکرے۔
4۔حکومت دیہی عوام کو بہتر زندگی سے خوش ہونے کا سامان فراہم کرے۔
5۔سرمایہ داروں اور زمینداروںکی خوشحالی والا ظالمانہ اور شرانگیزنظام ترک کیا جائے۔
6۔خوشحال طبقات کی خوشحالی کی قیمت عوام سے وصول نہ کی جائے۔
7۔سرمائے کے آقائوںکو دلیل سے نہیں قانونی اقدامات سے قابوکیا جائے۔
8۔عوام کا استحصال کرنے کی بری عادت والوںکو شکنجے میں لایا جائے۔
9۔اسلامی احکام کو بھول کر حرص و ہوس والے سرمایہ داروںکو دشمن کا آلہء کار بننے کی مزید مہلت نہ دی جائے۔
10۔ عوام میں ایسے لاکھوں افراد جنہیں دن میں ایک وقت بھی پیٹ بھرکرکھانا نہیں ملتاانہیں ریاست روٹی دے۔
11۔ تہذیب و ترقی یہ نہیں کہ اکثریت بھوکی ہو اور چند لوگ عیش کریں۔کروڑوں لوگوں کا استحصال قیامِ پاکستان کا مقصد نہیںتھا۔ قائدِاعظم کو وہ پاکستان پسند نہیں تھا جو بھوک سے بلکتے لوگوں کی صورت حال نہ بدل سکے۔
12۔ حکومت اور ریاست سرمایہ داری اور جاگیر داری کی سرپرستی بندکرکے عوام دوستی کی راہ اپنائے۔
پاکستان کا موجودہ نظامِ حکومت یا گورننس ہے کیا ؟ اس کا اندازہ لگانے کے لئے تازہ واقعہ ہماری کافی مددکرتا ہے۔ سرائیکی علاقے کے ایک وفاقی وزیر جس کی سیٹ طبقاتی اور خاندانی ہے، جب سے وزیر بنے ہیں وزیرِاعظم نواز شریف سے ملنے کی کوشش کرتے رہے۔ تقریباً چند ہفتے پہلے نواز شریف صاحب رائے ونڈ پیلس آئے تو وزیر نے فیصلہ کیا کہ اب کی بار وہ وزیرِ اعظم سے ملے بغیر نہیں ٹلیں گے۔ موصوف تین دن کے لئے عملے کے ساتھ رائے ونڈ آ کر بیٹھ گئے۔ اس کے باوجود نہ زنجیرِ عدل تک پہنچ سکے اور نہ ہی انہیں شاہی دربار تک رسائی ملی۔
آئیے فرض کرتے ہیں پاکستان بدل جائے گا۔ اس فرض کے واجبات پورے کرنے کے لئے چارعدد ایجنڈے سامنے رکھ لیں۔ پہلا ایجنڈا لڑکھڑاتی سرکارکا ہے۔۔۔۔۔''ہم بدلیں گے پاکستان‘‘۔ دوسرا ایجنڈا انقلاب مارچ، تیسرا آزادی مارچ اور چوتھا ایجنڈا بانی پاکستان حضرت قائدِ اعظم کا ہے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھیے اور فیصلہ کیجیے کہ اس ایک سال میں کس طریقے سے کون سی ٹیم پاکستان کوکس ایجنڈے پر چلا سکتی ہے۔
کیا ساری ٹیمیں عوام کی آخری فتح کا کھیل کھیل رہی ہیں یا اپنی برتری کا ؟ اگلا 14اگست اس کا جواب ضرور دے گا۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس پر لاکھوں تبصرے ہو چکے ہیں۔ میرا تبصرہ یوں ہے:
اینج ہوندا اے اُس ویلے
جدوں حد غرور دی مُک جاندی اے
مُچھل جِنّا ڈاھڈا ہووے
مُچھ دی ڈاہلی جُھک جاندی اے
اینج ہوندا اے اُس ویلے
جَد لِسّے بندے رو پیندے نیں
ہنجواں دے ایہہ بے بس بَدّل
چڑھ اسمان تے چوء پیندے نیں
اینج ہوندا اے اُس ویلے۔۔۔۔۔