لیڈر

سال 2009 ء میں گورڈن کیئر نے معرکتہ الآراء کتاب Leaders, who changed the world لکھی۔ ''رہنما جنہوں نے دنیا بدل دی‘‘ نامی یہ کتاب برطانیہ میں تیار ہوئی، بھارت میں پرنٹ کی گئی جبکہ اومنی پریس نے اسے لندن سے شائع کیا۔ انسان کی انتہائی ابتدائی تاریخ اس کا پہلا باب ہے جس میں بُدھا، سکندر اعظم، ہنی بال، حضرت عیسیٰؑ جیسی شخصیات کے تاریخِ انسانیت پر اثرات کا جائزہ قلم بند ہے۔کتاب کے دوسرے باب کا آغاز Medieval and renaissance کے عہد سے ہوا ۔ اس باب کا آغاز محسنِ انسانیت حضرت محمد مصطفیﷺ کے تذکرے سے ہوتا ہے۔ اسی باب میں الفریڈ دی گریٹ، چنگیز خان، جون آف آرک، آئزا بیلا، میری کوئین آف سکاٹ، اولیورکرامویل اور شاکا زولو جیسی تاریخ ساز ہستیوں کے عہد بیان کیے گئے ہیں۔ کتاب کا تیسرااور آخری حصّہ انیسویں صدی کا احاطہ کرتا ہے۔ اس میں کوئین وکٹوریا، جیسی جیمز، ابراہیم لنکن، کارل مارکس، ایلکا پون، ونسٹن چرچل، لیچ ویلیسا، ایڈولف ہٹلر، مائوزے تُنگ، اسامہ بن لادن، ہوچی منہ اور مارٹن لوتھر کنگ سمیت دیگر بڑے رہنمائوں کی کتھا سنائی گئی۔
پچھلے ہفتے میرے چھوٹے بیٹے عبدالرحمن نے مجھ سے دنیا کے بڑے لوگوں کے حالاتِ زندگی پر مشتمل کتابوںکی فرمائش کی تو یہ کتاب ڈھونڈنے کا موقع ملا۔ لیڈر شپ کی تاریخ کا ایک لائن میں سبق یہ ہے : '' لیڈر وہ ہے جو مشکل وقت میں درست فیصلہ کر سکے‘‘۔
جمہوریہ پاکستان 1973ء کے آئین میں اسلامی جمہوریہ کہلایا جو بانی پاکستان حضرت قائدِ اعظم کی وفات حسرت آیات کے ساتھ ہی مسائل کے پہاڑوں اور مشکلات کے طوفانوں میں گھِرگیا۔ عربی کی مشہورکہاوت ہے ''کَبّرنا موت الکُبریٰ‘‘ یعنی بڑوں کی موت نے (بونوںکو) بڑا بنا دیا۔ یہ حادثہ پاکستان کے اقتدار کی تاریخ کے ساتھ بد رُوح کی طرح چمٹا ہوا ہے۔ کبھی ادنیٰ درجے کی اہلیت اور مشکوک قابلیت والے بیوروکریٹ نجات دہندہ بنائے گئے، کبھی عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے دلال اور ایجنٹ ٹیکنوکریٹ کا بیج لگا کر سربراہِ حکومت بنے،کبھی ایسے امپورٹڈکٹھ پتلی عوام کی قسمت سے کھیلنے آئے جن کو عہدہ پہلے ملا پاکستان کا شناختی کارڈ بعد میں۔ جاہ پرست جاگیردار، بندگانِ شکم سرمایہ دار، بے رحم ذخیرہ اندوزاورطاقتور چور بازار بھی اس حمام میں بے لباس کود پڑے۔ '' ھل من مزید ‘‘ سے بھی کچھ زیادہ کی ہوس رکھنے والے کچھ گروہ جن میں ارب پتی سیاسی مولوی اور بعض کرپٹ منصف بھی شامل ہیں، پاکستان کے اس تھرڈکلاس اورگھٹیا ترین انتظامی ٹولے کے پہرے دار بن کر سامنے آتے رہے جس کا نتیجہ قوم کو بنگلہ دیش کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
طویل عوامی جدوجہد نے ذوالفقار علی بھٹو کے ذریعے عوام کو طاقت کا سرچشمہ بنایا۔ سرزمینِ بے آئین کو دستور دیا۔ لوٹ کھسوٹ سے کمائی گئی دولت چند استعماری گماشتوں کی تجوریوں سے نکال کر قومی ملکیت میں لی گئی۔ عوامی لیڈر شپ کے عدالتی قتل کے بعد عوام کی آخری فتح پھر خواب ہو کر رہ گئی۔ ایک ایسا بھیانک خواب جس کے نتیجے میں ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے کے دعوے داروں نے افراطِ زر اور مہنگائی کی جنت بنا دیا۔ آج ایشیا میں کوئی بھی ایسی معیشت نہیں جہاں ڈالرکا ریٹ پاکستان والا ہو۔ ذرا فون اٹھائیے،کسی منی چینجر یا بینک سے پوچھ لیں، ہم سب خواب اور سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جبکہ ڈالر 103روپے سے بھی متجاوز ہوگیا ہے۔ افراطِ زرکی زبان میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے ایک لاکھ روپے پچھلے مہینے بینک میں پڑے تھے ان میں سے تقریباً دس ہزار کم ہو گئے اور جس اکائونٹ ہولڈرکے ایک کروڑ روپے بینک کے کھاتے میں جمع تھے اس کے دس لاکھ روپے بینک میں پڑے پڑے چوری ہوگئے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان واحد زرعی، تجارتی اور صنعتی منڈی ہے جہاں ہر آڑھتی، ہر صنعت کار اور ہر مِل مالک اپنی مرضی کا ریٹ نکالتا ہے۔کوئی حکومتی اہلکار، کوئی انتظامی عہدے دار اورکوئی عوامی سیاست کار ایسانہیں جو مہنگائی کے اس طوفانِ کو روکنے کی جرأت کر سکے۔
پاکستان وہ واحد سماج ہے جہاں ہر دکان، ہر مارکیٹ اور ہر پلازے میں لوٹے جانے والے عوام کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ صارفین کے قوانین اوران قوانین کے نفاذکے لیے عدالتیں تو موجود ہیں مگر یہ نمائشی عدل لوگوں کے کسی کام کا نہیں۔ آئین میں موجود ریاست کے رہنمااصول حکمرانوں کو پابند بناتے ہیںکہ وہ غریب عوام کی زندگی آسان بنائیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں طرزِ حکمرانی ایسا ہے جس میں عوام کی شراکت داری ہے نہ کوئی اہمیت۔ سرمایہ دار اوراقتدار پرست ٹولے ایک دوسرے پر بھونکتے بھی ہیں اور مشکل وقت میں ایک دوسرے کے لیے کاٹنے کی خاطر متحد بھی ہو جاتے ہیں۔
مڈل کلاس کا نچلا طبقہ اپر مڈل کلاس تک پہنچنے کی جدوجہد میں زندگی گزار دیتا ہے۔ اس طبقے کے پاس بھی محروم اور لوئر مڈل کلاس کے لیے کوئی امید ہے نہ کوئی ہمدردی۔ رہی اپر مڈل کلاس تو وہ سرمایہ داری کے دروازے کی زرخرید ہے۔ اس کے سامنے ہر شہر اور ہر طبقے میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ لوگ درِ دولت پر سجدہ ریز ہو کر د دولت مند ہو جاتے ہیں۔جمہوریت، انسانیت اور مذہب کی تبلیغ کرنے والے اکثر لوگ سرمایہ دارانہ زندگی گزارتے ہیں۔ معاشرے اور آئندہ نسلوں کے لیے رول ماڈل کہلانے والے درحقیقت جھوٹے روپ کے درشن سے زیادہ کچھ نہیں۔ ملک کے اندر آدھی تعلیم کاروباری ہے اور آدھی بے روزگاری۔ معیاری تعلیم کے لیے امیروںکے بچے سات سمندر پار چلے جاتے ہیں ، پیچھے بچ گئیں غریبوں کی اولادیں ، وہ جو ٹاٹ اورکھاٹ سے نیچے بیٹھتے ہیں۔ ملک کے اندر امن و امان کے بھی علیحدہ علیحدہ جزیرے بن چکے ہیں۔ امیر طبقے کو پرائیویٹ گارڈ، حفاظتی حِصار اور ذاتی لشکر بنانے کی کھلی چھٹی ہے۔ دوسری جانب مزدورکی تنخواہ، پنشن اورآمدنی سے دو وقت کی چپاتی کے بعد سالن اور پاجامہ بنانے کے لیے بھی کچھ نہیں بچتا۔ اسی لیے ایک طبقہ بد امنی سے مکمل طور پر محفوظ ہے۔ ہاں البتہ اکثریتی آبادی بدامنی کے راستے میں پڑا ہوا ایسا پتھر ہے جو ذاتی اور سرکاری لشکروں اور ڈشکروں کی ٹھوکروں میں زندگی گزار رہا ہے۔ کچی آبادی، غریب دیہات اور پسماندہ بستی میں وہ این جی اوز بھی نہیں پہنچتیں جن کو اس مخلوق کے نام پرکروڑوں ڈالر سالانہ ملتے ہیں۔
اگر آپ اپنے ٹوئٹر پر روزانہ ایک عدد سچی ٹویٹ لکھنا شروع کر دیں، اپنے محلے کی مسجد میں لائوڈ سپیکرکھول کر ایک عدد کھلا سچ بول دیں یا اپنی پسند کے اخبار میں ایک عدد عوامی شکایت اور اس کے پیچھے چھپا چہرہ بے نقاب کریں تو آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے ساتھ کیا ہو گا؟ وہ زمانے گئے جب سنسرکا نام قینچی چلانا تھا۔ جدید جمہوریت کے تحفوں میں سے ایک گفٹ تیز رفتار لفافہ ہے۔ یہ لفافہ بھیجنے والے کی مرضی ہے کہ وہ اس میں کڑکتے نوٹ بھیجے یا چمکتی کلاشنکوف کی گولی، اس لیے لکھنے والے بات سے زیادہ احتیاط پر زور دیتے ہیں۔ جیسے یہ شاعر:
میں جو محسوس کرتا ہوں اگر تحریر ہو جائے 
تو یہ نظمِ مُرصّع زلف یا زنجیر ہو جائے
بہت سی نرم و نازک داستانیں صاف ہو جائیں
پیالہ زہر کا سقراط کی تقدیر ہو جائے
لیڈر ہر شعبے کا ہوتا ہے صرف سیاست کا نہیں۔ ہر شعبے میں تلاش کریں ، لیڈر ڈھونڈیں، دوربین کیا میری طرف سے خوردبین کی بھی اجازت ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں