حوالہ ایک نہیں ہے درجنوں ہیں‘ جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستانیوں کے لیے دو مُلک بن گئے ہیں۔دو قانون ہیں، انصاف کے دو عدد پیمانے، معاشی مواقع اور سماجی ترقی کی علیحدہ علیحدہ دُنیا۔ اس تقسیم در تقسیم کے عمل نے ہم سب کو ویسے ہی ریزہ ریزہ کر دیا ہے جیسے اٹھارہ ہزاری میں چند مربع زمین اور ایک چینی کی مِل کو بچانے کے لیے انسانی ہاتھوںسے آنے والے سیلاب نے بربادی کی نئی داستان لکھی ہے۔
میں آخری بار اٹھارہ ہزاری 2010ء کے سیلاب کے دوران گیا۔ جھنگ کی اس پوری تحصیل میں ڈیڑھ سے دو فٹ تک پانی تھا۔ ایک سیلابِ نوح والا منظر۔ مرے ہوئے پرندے، کانپتے ہوئے ڈھور ڈنگر، اجڑی ہوئی بستیاں، سہمے ہوئے انسان۔ تریموں ہیڈ کا پُل صحیح معنوں میں پُلِ صراط بنا ہوا تھا۔دو گھنٹوں کی جدو جہد کے بعد پُل کراس کیااور سامنے کے علاقوں کے لیے سرکاری امدادی قافلہ پہنچایا۔ ضلعی انتظامیہ کی خواہش تھی کہ میں فوراً علاقے سے نکل جائوں کیونکہ متاثرینِ سیلاب انہیں سیلاب کا اصل مجرم گردان رہے تھے۔ وہ بھی ایک وفاقی وزیر کی موجودگی میں میڈیا کے عین سامنے۔ میں نے پوچھا ، ہمارے قبیلے کے درویش شاعر حضرت سلطان باہوؒ کے مزار کا کیا حال ہے ؟ مجھے کہا گیا کہ پانی بہت تیزی سے چڑھ رہا ہے‘ آپ فوراً نکلیں۔ لیکن اصرار کر کے میں تریموں سے سلطان باہوؒ کے مزار کی طرف چل پڑا۔ برباد فصلوں، ٹوٹے ہوئے درختوں اور زیرِ آب سڑکوں اور مکانوں کے درمیان سے اللہ ہُو کو شاعری کا موضوع بنانے والے کی بستی میں پہنچا۔ تب بھی لوگ یہی کہہ رہے تھے کہ بڑے لوگوں کی زمینیں بچانے کے لیے ڈھیروں بارود لگا کر لاکھوں عوام پانی میں ڈبو دیئے گئے۔ میرا خیال تھا شاید سیلاب پر سیاست کرنے والے اگلے سیلاب میں ایسا نہیں کریں گے۔ شاید ہم اس تباہ کُن سیلاب سے سیکھ کر غریبوں کے گھر بچانے والے بند توڑنے کی بجائے سیلاب سے نبٹنے کا ویسا بندوبست کریں گے جیسا ساری دُنیا کے وہ ممالک جہاں سال کے نو، دس مہینے بارش ہوتی ہے‘ اپنے عوام کو بچانے کے لیے کرتے ہیں، لیکن ہم زبانی کلامی بیانوںاور فوٹو سیشن سے آگے نہ گذرنے کا عہد کر چکے ہیں۔
اگر آپ آرکائیو سے 1974ء کے سیلاب کی خبریں اور تصویریں نکالیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ کم مالی اور انتظامی وسائل کے باوجود بھی لیڈر اگر کچّے گھروندے والوں کے ساتھ کھڑا ہو جائے تو اُن کے درد اور الم کم ہو جاتے ہیں، لیکن اقتدار چِھن جانے کے خوف میں کوئی گروہ قوم کو اور تو کیا دے گا‘ یہ تو اُمید بھی نہیں دے سکتے۔ شامِ شہرِ یاراں میں فیض احمد فیض نے سچے رب کو مخاطب کر کے زمینی خدائوں کے خلاف یوں احتجاج رجسٹر کروایا تھا۔
ربّا سچّیا تُوں تے آکھیا سی
جا اوئے بندیا جگ دا شاہ ہیں تُوں
ساڈیاں نعمتاں تیریاں دولتاں نیں
ساڈا نَیب تے عالیجاہ ہیں تُوں
ایس لارے تے ٹور، کدی پُچھیا ای
کِیہ ایس نمانے تے بِیتیاں نیں
کدی سار وی لئی اُو رب سائیاں
تیرے شاہ نال جگ کِیہ کِیتیاں نیں
کِتے دھونس پولیس سرکار دی اے
کِتے دھاندلی مال پٹوار دی اے
اینویں ہڈّاں وچ کلپے جان میری
جیویں پھاہی چ کُونج کُرلاوندی اے
چنگا شاہ بنایا ای رب سائیاں
پولے کھاندیاں وار نہ آوندی اے
مَینوں شاہی نئیں چاہیدی رب میرے
میں تے عزت دا ٹُکّر مَنگناں ہاں
مینوں تاہنگ نئیں، محلاں ماہڑیاں دی
مَیں تے جِیویں دی نُکّر منگناں ہاں
میری مَنّیں تے تیریاں مَیں مَنّاں
تیری سَونہہ جے اک وی گل موڑاں
جے ایہ مانگ نئیں پُجدی تیں ربّا
فیر میں جاواں تے رب کوئی ہور لوڑاں
پنجاب کے غریب لوگوں، ورکنگ کلاس اور زرعی کارکنوں کے لیے اصل قیامت یہ ہے کہ لاکھوں ایکڑ پر ان کی کھڑی فصلیں جڑ سے اکھڑ گئیں۔ خادموں نے سیلاب کا علاج جنگل کے زمانے کے حکیم والا سوچا کہ جس انگلی میں درد کی ٹیس اُٹھے‘ اسے کاٹ دیا جائے۔ ایک انگریزی معاصر نے لکھا ہے کہ سیاست کا میدان پارلیمنٹ ہائوس کے فلور اور ڈی چوک میدان سے نکل کر سیلاب کے متاثرین میں چلا گیا ہے۔ عصرِ حاضر کے نام نہاد لیڈر اس سیلاب کو لوگوں کے درد کا باعث سمجھ کر اس کا مداوا نہیں کر رہے بلکہ اسے ''فوٹو اَپ‘‘ یعنی ایک اچھی تصویر بنانے کا موقع سمجھ رہے ہیں۔
سرائیکی علاقے کے بڑے ہسپتال وہاڑی میں قوم کے نو بچے بے دردی کی نذر ہو گئے۔ ان کے لیے اوکسیجن سے بھرے سلنڈر موجود نہیں تھے‘ لہٰذا یہ حسرت انگیز کلیاں کھلنے سے پہلے مُرجھا گئیں۔ یہ ہے وہ صحت کا خصوصی پیکج جس کی پبلسٹی پر ادھیڑ عمر لیڈروں کی جوانی والی فوٹو لگا کر ڈینگی، سیلاب، غربت اور آفت کے مارے ہوئے غریبوں کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ آج کل غربت کا مذاق اُڑانے کے لیے امیرانہ دورے کرنے والوں کے لشکر خدا کی کچی بستیوں میں گھوم رہے ہیں۔ تخت کے علاوہ لاہور نے جو ترقی کی‘ اس کا ثبوت موجودہ بارش کے بعد دو صورتوں میں نظر آیا۔ پہلا یہ کہ سیلاب نے پورے لاہور کو گندگی کا جوہڑ بنا دیا۔ یہ ٹائون پلاننگ اور ٹریفک انجینئرنگ کے ماہرین کے نام قدرت کا شوکاز نوٹس تھا۔ دوسرا بلڈنگ کنٹرول کی کارکردگی کو کون شاباش نہیں دے گا جن کی موجودگی میں ایک مسجد کی چھت تلے دب کر 26لوگ وادیِ خموشاں میں چلے گئے۔ پنجاب کے مظلوموں کے دلدّر دیکھ کر ایک نوحہ امرتا پریتم نے بھی لکھا تھا۔ امرتا پریتم کاحوالہ کوئی اور تھا لیکن اس کا نوحہ پانچ دریائوں کی دھرتی کے بے آسرا، بے خانماں اور بے یارومددگار غریبوں کے نام تھا۔ اس نے کہا:
اُٹھ دردمنداں دیا دردیا
کیتّوں قبراں وچوں بول
تے اَج کتابِ عشق دا
کوئی اگلا ورقہ پھول
جھنگ میں مائی ہیر کے مقبرے تک پانی پہنچا یا نہیں‘ وہ سانپ ضرور پہنچ گئے ہوں گے جو ہر سیلاب میں وارث شاہ کی دھرتی کو ڈسنے کے لیے میلے سے بھی نکلتے ہیں، بِلوں سے بھی اور محل نما بلڈنگوں سے بھی۔ ان سانپوں کو قابو کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے ۔ پنجاب کے بارہ کروڑ لوگ ان پر وہ منتر پڑھ دیں جو بلھے شاہ نے درباری مُلّا پر پڑھا تھا۔