گھوڑا ،تانگہ اور رکشہ ،سواریاں ہی نہیں سیاسی اصطلاح بھی ہیں۔تانگہ پارٹی کا مطلب تو ہم سب جانتے ہیں۔اور سیاست میں رکشہ کی سواریوں کے معنی بھی۔سیاسی تاریخ بتاتی ہے تانگہ پارٹیوں کے کچھ لیڈر تو بخت آور نہ تھے لیکن ان کی آئندہ نسلیں مقدر کی سکندر بن چکی ہیں ۔ان میں سے ایسے بھی ہیںجن پر ''ہذا من فضل ربی‘‘ کی انتہا ہو گئی ۔گھر کے بھیدی کہتے ہیں اب اگر وہ چاہیں تو چاندی کی پٹڑی بنا کر اس پر سونے کا انجن چلا دیں۔
پاکستان کی جدید تاریخ میں تانگے اور گھوڑے کے بعد رکشے کی خوب عزت افزائی ہوئی۔پچھلے ایک صدر کے دور میں ایک رکشے نے میٹرنٹی ہوم کی نئی تاریخ لکھ ڈالی۔صدر ایئرپورٹ سے ہیلی کاپٹر پر آئے لیکن سڑکیں پروٹوکول کے خوف میں بند تھیں۔زچگی کی حالت میں خاتون نے رکشے میں بچے کو جنم دیا۔خیر سے اب وہ بچہ جمہوریت کی طرح چھ سات سال کا ہو گا۔ جوں جوں اس کی عمر بڑھے گی ساتھ ساتھ اس کے دل میں ممتا اور رکشے کی عزت دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی جائے گی۔اگر وہ بچہ بڑا ہو کر ڈرائیور بن گیا تو اسے ماں کے قدموں کے ساتھ ساتھ رکشے کے ٹائروں کے نیچے بھی جنت نظر آئے گی ۔ایک مارشل لاء کے زمانے میں وزیر اعلیٰ صاحب تانگے میں بیٹھ کر بھاگے تھے لیکن ان کا گھوڑا بے وفا نکلا۔ انہیں تانگے پر تھانے چھوڑ کر خود نئی نویلی گھاس چرنے کے لیے حوالات سے باہرنکل گیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے مشرف ٹیم کے پارلیمنٹیرین ساڑھے نو سال طبلے سمیت مشرف کی (Image building)یعنی خوبیوں کی تشہیر کرتے رہے لیکن آج کل انہیں بالکل وہی خوبیاں نواز شریف میں نظر آ رہی ہیںبلکہ کچھ زیادہ اضافی خوبیاں بھی ۔اسی لیے تازہ دم جمہوریت نے اس پر نوازشات اور وزیراعظم ہاؤس کے مستقل دروازے کھول رکھے ہیں۔ جبکہ سرکار لیگ کے وہ کارکن جو برے وقت میں بادشاہ کے ساتھ تھے وہ اور سرکار کے پارلیمنٹیرین کے لیے ایوانِ وزیرِ اعظم میں داخلہ بند ہے۔
ملتان کے رکشے نے پچھلے سارے رکشے اور تانگے لمبے ڈال دیے۔قیدیوں کی لاری کے ذریعے دوسروں کو جیل پہنچانے والے پنجاب کے وزیر جیل خانہ جات کو سرائیکی کی بھری دنیا میں صرف ایک عدد رکشے نے پناہ دی ۔صرف پناہ نہیں دی بلکہ وزیر کو ویسے اٹھا کر اپنے پیٹ میں ڈال لیا جس طرح خطرے کی حالت میں مگر مچھ اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے جبڑے میں جکڑلیتا ہے۔ذرا سوچئے آپ کے پیچھے چھ سات لاشوں اور سو ،دو سو زخمیوں کے لواحقین گو،گو کے نعروں کی دھن پر ڈنڈوں سے مسلح ہو کر دوڑ پڑیں اور اس عوامی لہر کے قہر سے بچانے کے لیے جائے واردات پر کوئی محفوظ رکشہ بھی نہ ملے تو آپ کا کیا بنے گا۔اور اگر آپ نہیں سوچنا چاہتے تو وزیر جیل خانہ جات سے پوچھ لیں جنہیںاب وزیر رکشہ جات بھی کہا جا سکتا ہے۔مجھے امید ہے کہ اب تک وزیر صاحب وہ رکشہ خرید بھی چکے ہوں گئے اور پنجاب کے محکمہ جیل خانہ جات نے اسے شیخوکی انار کلی کی لاش کی طرح پنجاب سیکرٹریٹ میں قومی ورثہ سمجھ کر محفوظ کر لیا ہو گا۔ ایسا رکشہ روز روز نہیں بنتا۔ویسے سچی بات تو یہ ہے رکشہ جمہوریت کا اصلی محافظ ہے ۔آج کل ایسے ہی کئی اور سیاسی رکشے جمہوریت کی حفاظت کے لیے دن رات اپنے میٹر سے بھی تیز بھاگ رہے ہیں ۔ ان بیچاروں کو جمہوری کابینہ کے تخفظ کے لیے ہر جگہ عوامی غضب کی لہر والے ڈنڈے سوٹے کا سامنا ہے۔یہ سیاسی رکشے اپنے بیانات اس طرح بدلتے ہیںجس طرح سواری والا رکشہ ایک ٹائر پر موڑ کاٹتے ہوئے اپنا گیئر تبدیل کرتا ہے۔
آج کل جس طرح سڑکوں پر مسافر رکشے کی ریل پیل ہے ویسے ہی سیاسی رکشے آج کل زبردست سیزن لگا رہے ہیں۔ جن دنوں یا جس علاقے میں ٹریفک کم ہو جائے وہاں رکشہ چھا جاتا ہے کیونکہ رکشہ ہر گلی کی سواری ہے۔ اگر چہ شہرِ اقتدار میں رکشہ چلنے ہی نہیں دیا جاتا۔ اس کے باوجود رکشے کے لیے شاید ہی کوئی بند گلی ہو۔ ویسے بھی رکشہ آسانی سے کہیں پر یو ٹرن لے سکتا ہے۔رکشے کی دوسری خوبی یہ ہے کہ یہ ہر ریٹ پر کرایہ کے لیے دستیاب ہے۔ سائیکل رکشہ، چنگ چی رکشہ اور پرانا رکشہ۔ جب تک عوام کا غصہ نہیں اُترتا رکشے کی مانگ رہے گی۔ وی آئی پی کلچر کے پاسبانوں اور کوچہء اقتدار کے مکینوں کے لیے بہتر یہی ہوگا کہ چین ،جاپان اورکوریا سے ہوائی رکشے منگوا لے۔ اب تو ہوائی رکشے کا مستقبل روشن ہو گیا ہے۔ مستقبل روشن کرنے میں ہمارے ادارے لاجواب ہیں۔ سرکاری اداروں میںبے شمار لاڈلے لاکھوں روپے ماہوار تنخواہ اور کروڑوں روپے کی مراعات کے مزے لُوٹ رہے ہیں۔ تازہ دم جمہوریت نے ان اداروں کا قانونی قبلہ درست کرنے کے لیے زبردست بندوبست کیا ہے۔بعض مشیر بیس لاکھ روپے مہینہ تنخواہ پر ہیں۔ دنیا کی سیریں اس کے علاوہ ۔ ایک صاحب کے بارے میں خبر یہ ہے کہ وہ گزشتہ چھ ماہ سے اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل میں رہائش پذیر ہیں۔ جمہوریت کا پورا زور شاہراہِ دستور میں زمین کے اوپر لیٹے ہوئے دھرنے والوں کے خلاف لگا ہوا ہے اس لیے ایڈوائزر بیچارے کو فائیو سٹار ہوٹل کے علاوہ سرکاری خرچ پر کوئی مناسب رہائش نہ مل سکی۔
ذکر ہو رہا ہے محکمہ جیل پنجاب کا تو یہ خبر بھی سُن لیجیے کہ عوامی بیداری کی لہر وہاں بھی پہنچ گئی ہے۔ جس کا ثبوت ایک سنٹر ل جیل کے افسر مہتمم نے دیا۔ وہ ایسے کہ ایک ڈی سی اونے 200سے زائد سیاسی کارکنوں کو رسیوں سے باندھ کر جیل پہنچایا اور سپرنٹنڈنٹ کو کہا گیا کہ انہیں بند کر دو۔ جیل کے مہتمم نے پوچھا کس جرم میں بند کروں ؟ ایف آئی آر لائو عدالتی حکمنامہ دو یا نظر بندی کا آرڈر فراہم کرو۔ ڈی سی او نے جواب دیا کہ آرڈر بھیج دوں گا تم قیدی وصول کر لو۔ جیل مہتمم نے وہی کیا جو بانیء پاکستان نے سرکاری ملازمین سے کہا تھا اور وہ یہ کہ تم ریاست کے ملازم ہو کسی کے ذاتی نوکر نہیں۔ بالکل آفتاب چیمہ کی طرح۔ ایسے ڈی سی اوز کو چاہیے کہ وہ بھی رکشے خرید لیں جاگتے ہوئے غریب لوگوں کے سامنے بھاگتے ہوئے طاقتور رکشے والوں سے یاری رکھیں۔یہ بات نوکری چینل سے نکل کر خادمِ اعلیٰ تک گئی مگر ریاست کے سچے ملازم نے بے گناہ شہریوں کی بلاجواز قید کا شاہی فرمان ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ ڈی سی او لوگ کس طرح قانون شکنی کرکے بندگانِ شکم ہونے کا ثبوت دیتے ہیں اس کی ایک اور مثال سرگودھا سے سامنے آئی، جہاں ڈی سی او کے ذریعے یہ شاہی فرمان جاری کیا گیا کہ آئندہ کسی جلسے میں سرکار کے خلاف نعرے لگانے کی اجازت نہیں ہو گی۔
کچھ دنوں بعد زمانے کی ہوا بدلے گی
وقت کے ساتھ رہ و رسمِ وفا بدلے گی
شاخساروں سے نئے پھول نکل آئیں گے
لالہ زاروں میں شگوفوں کی ردا بدلے گی
آگ لہرائے گی بام و درِ سرمایہ پر
نوجوانوں کی جسارت سے فضا بدلے گی
ہاتھ لپکیں گے امیروں کے گریبانوں پر
خانقاہوں میں فقیروں کی صدا بدلے گی
بجلیاں سوئیں گی مٹی کے گھروں میں کب تک
ابر کڑکے گا، فضا رنگِ وفا بدلے گی
ٹوٹ جائے گا ہر ایک حلقہء زنجیرِ ستم
بے نوائوں کی زبانوں پہ دُعاء بدلے گی
تب مرے خامہء گل ریز کی، بے لوث اُڑان
اپنی رفتار بہ اندازِ صبا بدلے گی