عقل بڑی یا بھینس؟ پرانا محاورہ ہے۔ پاکستان کی پائندہ وتابندہ قوم کے لیے جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کاگھریلو لونڈی نما نظام ہر روز ثابت کرتا ہے کہ بھینس عظیم ہے، مہان۔۔۔۔ اور اسی اعتبار سے عقل پر حاوی بھی۔ پروفیسر اعتبار ساجد نے اردو زبان کو نہ صر ف ایک نیا محاورہ دیا بلکہ اسے اپنی کتاب کا ٹائٹل بھی بنا ڈالا ''جا بیل اُسے مار‘‘ ۔ ہمارے کچھ کالم نگار دوست نئے محاوروں سے اردوکا آنگن سجانے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ میری اردو پوٹھوہاری پنجابی ہے ، ماں بولی جو ٹھہری۔
تمہیدکہیںمفہوم کوکنفیوز نہ کر دے۔ میں آج بس، ٹرک اور ٹرالرکی برتری کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں جس کے مقابلے میں تعزیراتِ پاکستان، ضابطہ فوجداری اور پاکستان کا آئین آنکھ اٹھانے کی بھی جرأت نہیں کر سکتا۔ تفصیل میں جائے بغیر سیدھا کہہ دیتا ہوں پاکستان کے آئین کا آرٹیکل نمبر 4کئی عشروں سے چیخ رہا ہے کہ پاکستان کے شہری قانون کے تحفظ کا ناقابلِ تنسیخ حق رکھتے ہیں جبکہ اسی آئین کا آرٹیکل نمبر9 شہریوںکوگارنٹی دیتا ہے کہ انہیں غیر قانونی طریقے سے کوئی زندگی کے حق سے محروم نہیںکرسکتا۔
خیر پور سندھ میں ایک بڑے ٹرک کے نیچے کچلی ہوئی 58 لاشیں اور زخموں سے چور ٹوٹی ہوئی ہڈیوں والے20 نیم مردہ شہری ہمارے نظامِ انصاف اور پارلیمنٹ کے لیے عبرت کا نشان ہیں۔کیا آپ جانتے ہیںکہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 320کے مطابق شہریوں کے اتنے بڑے قتلِ عام کا جرم قابلِ ضمانت ہے ؟ جس کا مطلب یہ ہوا کہ جو نہی ڈرائیور یا کوئی دوسرا ذمہ دار پکڑا جائے گا، تھانیدارکو قانون اس بات کا پابندکرتا ہے کہ وہ اسے ضمانت پر رہا کر دے۔ اگر غلطی سے ایسے قتل ِعام کا ملزم رات تھانے میں گزار ے تو اگلے دن جس مجسٹریٹ کی عدالت میں اسے پیش کیا جائے گا‘ وہ عدالت اس کی ضمانت منظورکرنے کی پابند ہے۔ اب آپ خود بتائیے کہ ہمارا آئین بڑا اور برتر ہے یا ٹرک آئین سے بڑا ہے۔ آج کے پاکستان میں عام آدمی کے خلاف ایف آئی آر درج ہونے کے بعد اس کی گرفتاری روٹین اور قانونی تقاضا ہے ، لیکن خاص لوگوںکے خلاف بعد از خرابیٔ بسیار پرچہ کٹ بھی جائے تو اس کے ساتھ یہ حکم ضروری ہے کہ ملزم کوگرفتار نہیں کیا جا سکے گا ۔ ایسے ماحول میں لوگ برابری کے ساتھ عدالتوں کی طرف دیکھیں یا خود انصاف کرنے کا کوئی راستہ نکالیں۔۔۔۔۔ یہ چوائس کھلی ہے۔
ابھی پچھلے ہفتے پی ٹی وی پر حملے کے الزام میں دو سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے وارنٹ گرفتاری نکلے۔ اس کے فوراً بعد دونوںکو خطرناک ملزم سمجھ کر حکومت نے انہیں اشتہاری کروا دیا ، لیکن اسی کچہری پر مسلح حملے میں جج، وکیل، منشی، سائل، مسافر، خواتین اور راہگیر مارے گئے مگر سلام ہو ہمارے معذور قانون، اندھے انصاف اور کاروباری حکمرانوں پر جن کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگی۔ انصاف کے ہر مندر میں داخلے کے لیے خصوصی پاس جاری کیے جاتے ہیں مگرکچہریوں کے اندر واردات کرنے والوں کو جاری کیے گئے پاس کہاں سے آتے ہیں ؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔
جن لوگوں نے سپریم کورٹ کی عمارت اندر سے نہیں دیکھی، آئیے ان سب کو بغیرکسی انٹری پاس، جامہ تلاشی اور لمبی لائن میں لگے‘ اس بلڈنگ کی سیرکروا دیں۔ شاہراہِ دستور اور سپریم کورٹ کے سب سے پہلے عام انٹری گیٹ کے درمیان اونچائی کا فاصلہ سجدے جتنا ہے۔ اس کے بعد ایک عمودی چڑھائی اور پھر سپریم کورٹ کی عمارت میں پہلا قدم رکھنے کے لیے درجن بھر سیڑھیاں۔ میں نے ابھی تک سپریم کورٹ کا کوئی ایسا وکیل نہیں دیکھا جو چیف جسٹس کے بنچ نمبر ایک کے کمرے تک پہنچنے کے لیے سیڑھیوں کے تین مختلف زینے سانس پھُلائے بغیر چڑھ سکتا ہو۔
اس کے بعد یہ بلڈنگ بھارت کے پنجابی صوبے ہریانہ میں واقع شیخ چلّی کے قلعے جیسا ڈیزائن رکھتی ہے۔ شیخ چلّی تاریخ کے مطابق ایرانی نژاد ہندوستانی بادشاہ تھا جس نے رائیٹ برادران سے پہلے ، ہوائی جہاز ایجاد کرنے کے لیے پرلگاکر اُڑنے کی کوشش کی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ شیخ چلّی نے تقریباً ہر سائنسی تجربے کو مغرب سے صدیوں پہلے آزمایا۔ اُس کی ذہانت کا ایک نادر شاہکار شیخ چلّی کا قلعہ ہے جہاں 2012ء میں آل انڈیا بارکونسل کے چیئرمین ڈاکٹر ادیش اگروالہ، خورشیتر ڈسٹرکٹ بار کے ججز اور وکلاء کے ساتھ ساتھ ہریانہ صوبہ کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پرتاب سنگھ مجھے سیر کے لیے لے گئے۔ اس سے پہلے میں شیخ چلّی کو اتنا ہی جانتا تھا جتنا ہمارے پنجاب کے لوگ اپنے خادمِ اعلیٰ یا ہمارے دوست ڈالر مین اسحٰق ڈارکو جانتے ہیں۔ اس دورے میں پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین رمضان چودھری بھی میرے ساتھ تھے۔ شیخ چلّی کا مزار بھی اسی قلعے میں ہی واقع ہے جو2عدد بیسمنٹ جتنی گہرائی میں زمین کے اندر بنایا گیا ہے ، اس کی دیواریں پانچ فُٹ موٹی ہیں مگر بغیر بلب کے شیخ چلّی کے مزار میں روشنی اور ہوا کا ناقابلِ یقین انتظام ہے۔ میرے پاس موجود اس جگہ کی تصویری البم چشم کشا ہے۔ قلعہ شیخ چلّی جیسی دوسری عمارت ہماری پارلیمنٹ کی ہے۔ مجھے پارلیمنٹ کا ممبر بنے نو سال ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک اس بلڈنگ کا سر پیر سمجھنے سے قاصر ہوں۔ اس کے مقابلے میں بیوقوف انگریزوں نے انگلستان کی پارلیمنٹ ایسی بنائی جو شان و شوکت میں سندھ اسمبلی کے بادشاہی پارلیمان کی دُم کا مقابلہ بھی نہیںکر سکتی۔ انصاف کی حد تو یہ ہے کہ اسلامی''جمہوریہ‘‘ وفاق پاکستان میں ریٹائرڈ جج سرکاری خرچ پردو درجن نیم عسکری گارڈز اورکروڑوں روپے کی بلٹ پروف گاڑی میں گھومتا ہے۔ اس کے مقابلے میں یورپ اور امریکہ کے اکثر جج سائیکلوں پر بیٹھے نظر آتے ہیں اور ریٹائرڈ صدر اور وزیرِاعظم میٹرو ٹرین کے سستے ٹکٹ پرسفر کرتے ہیں۔
جن دنوں اٹک قلعے کے اندر میں آصف زرداری، اعظم ہوتی، احمد ریاض شیخ وغیرہ کے مقدمے میں بطور وکیلِ صفائی لڑ رہا تھا، ان دنوں موجودہ وزیراعظم نوازشریف اس قلعے کے شاہی حمام کے حوالاتی تھے۔ تب اٹک قلعے میں ان کی توے پر تلی ہوئی مچھلی کا ڈنکا بجتاتھا۔ نوازشریف کو سزا ہوئی اور پھر وہ ڈکٹیٹر کے قیدی بن گئے۔ ایک دن پاکستانی قوم نے ایک ایسی خبر سُنی جس نے شیخ چلّی کو بھی قبر میں تڑپا کر رکھ دیا۔ گرفتار، سزا یافتہ قیدی نوازشریف کی نہ کسی عدالت نے ضمانت منظورکی نہ ان کی سزا معطل ہوئی اور نہ اپیل سماعت کے لیے لگائی گئی ، عدالتوں کا طریقۂ کار تو چھوٹی بات ہے یہ قدرت کے انصاف سے بھی کوئی اگلی چیز تھی جس نے انہیں کیف و سُرور سے بھرپور بحیرۂ احمرکے کنارے''سرور پیلس‘‘ میں پہنچادیا۔ ہمارے جیسا نامراد ساحر لدھیانوی بادشاہوں کے ایسے ہی محلات اور مقبروں کے خلاف اپنا بغض نکالتا رہ گیا:
میری محبوب پسِ پردۂ تشہیرِ وفا
تو نے سَطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہو گا
مُردہ شاہوںکے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوںکو تو دیکھا ہو گا
آج دُنیا میں بغاوت کی ساری تحریکوں کی وجہ ایک ہی ہے۔۔۔۔۔ آئین چھوٹا ہے اور ٹرک بڑا۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹرک کہیں خیر پور کے ڈرائیورکا ہے، کہیں اقوامِ متحدہ کا، کہیں نیٹو فورسز کا اورکہیںکسی بادشاہ سلامت کا۔