میرے کان میں بھی ٹوٹی لگی ہوئی تھی‘ اس لیے اینکر کی آواز مجھ تک صاف پہنچ رہی تھی۔اس نے کہا ''یس سرَ! جی، سَر! آپ فکر ہی نہ کریں۔مجھ پر چھو ڑ دیں ۔ لمبا ڈال دوں گا سَر‘‘۔ میں سمجھ گیا کہ اس ٹاک شوکا میچ فِکس تھااور ایک بڑا بْکی دوسری طرف سے سوال کرنے والے کو ہدایات دے رہا تھا ۔اینکر نے اتنی اونچی اور پُرجوش آواز میں موبائل کال سنی کہ میرے سامنے کھڑا کیمرہ مین بھی ہنسنے پر مجبور ہو گیا۔مجھے تب یاد آیا کہ ''ماورائے بجٹ‘‘ پیسہ کیوں کر خرچ ہو رہا ہے۔
تھوڑی دیر بعد اینکر نے میرا پوچھا کہ وہ موجود ہے اور پھر مجھے کہا ''سَر جی جی جی! آج پروگرام کو چک کے رکھیں گے‘‘۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے کہا ''ہم چک کے رکھیں گے یا جس نے آپ کی موبائل کال چک کے رکھی تھی وہ...؟‘‘ اس طرح میں نے ایک اور سیاسی اداکار کو ناراض کر دیا۔ میں پینل سے اُٹھ کر باہر آگیا۔چیمبر میں لوگ میرے انتظار میں تھے۔
وہ میرا تو نہیں لیکن میرے بہت سے دوستوں کا ہیرو تھا۔ لالہ سدھیر کی طرح پرانا ہیرو۔اس نے ریڈی میڈ خضا ب لگایا۔ اپنے مہربان کے مرشد کے سٹائل والی جیکٹ پہنی اور ''جمہوریت‘‘ کے تحفظ کے مشن پر روانہ ہوتے وقت اس کی چال فاتحانہ تھی‘ ایسے جس طرح سکندرِ اعظم دارا کے قتل کے بعد ایران کے غدار سرداروں سے ملنے جا رہا ہو۔ اُس کی آواز سے یوں لگتا ہے‘ وہ بول نہیں رہا بلکہ غرارے کر رہا ہے۔اس کے باوجود وہ خودپسندی کا شہنشاہ سمجھتا ہے کہ اس کی آواز برٹ لنکاسٹر، انتھونی کوئین یا محمد علی اور مصطفی قریشی سے بھی اعلیٰ ہے۔ اُسے یہ غلط فہمی نہ ہوتی اگر پاکستان میں آوازوں کو مانیٹراور پھر اس کے بعد کنٹرول کرنے کا سرکاری لنڈا بازار نہ لگا ہوتا ۔ اس لنڈا بازار کے ماہر تاجروں کا اصولی موقف یہ ہے کہ خوشامد اور چمچہ گیری کے لیے نہ شخصیت چاہیے‘ نہ قوتِ اظہار‘ صرف تھوڑی سی ڈھٹائی سے ہی کام چل جاتا ہے۔ یہ کام کس طرح چلتا ہے‘ مجھے تب پتا چلا جب ایک دفعہ ایوانِ صدر سے کال آئی ۔اْس روز میں اپنے سسرالی گائوں چونترہ میں تھا۔ چونترہ سے نکل کر چکری انٹر چینج کراس کر رہا تھاکہ صدرنے اصرارکیا‘ کھانا اکٹھے کھائیں گے‘ کچھ دانشور دوست بھی موجود ہیں فوراً پہنچو۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد میں کھانے میں شریک ہو گیا۔ یہی موصوف اپنے پرموٹرز کے ساتھ موجود تھے۔
وہ70سالہ انتہائی تجربہ کار سنیاسی باوا کی طرح صدر میں مہاتما گاندھی تلاش کر رہے تھے۔مجھ سے نہ رہا گیا۔میں نے کہا آپ کو موہن د اس کر م چند گاندھی پر ترس نہیں آتا تو نہ آئے‘ اپنے صدر پر تو رحم کریں ۔آج کل ان موصوف کی ڈیوٹی سیاسی لیڈروں اور دہشتگردوں کے مابین ''رابطے‘‘ تلاش کرنا ہے۔ظاہر ہے‘ جاسوسی کے لیے روپ بدلنا پڑتا ہے۔نئے روپ کے لیے نئی جیکٹ ایسے چرخے پر بنی ہے جسے نصرت فتح علی خان نے ''نولکھا‘‘ قرار د ے رکھاہے ۔نولکھے سے یاد آیا کہ ایک وفاقی وزیر‘ جس کا پورٹ فولیو ریا ست کا ماؤتھ پیس ہوتا ہے‘ نے سرکاری دفتر میں حکومتی کرسی پر بیٹھ کر قوم پر واضح کر دیا ہے کہ اسے معلوم ہے‘ دہشت گرد کہاں کہاں ہیں۔ موصوف یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ کون کون رابطے میں ہیں ۔اورتو اور‘ انہیں غیب کا یہ علم بھی حاصل ہو گیا ہے کہ کس تاریخ کو وفاقی دارلحکومت میں کون دہشت گردوں کو ساتھ لے کے آئے گا ۔کاش نیٹو اور امریکہ والوں کو اس وفاقی وزیر کی اردو سمجھ آ جائے۔ جس دن ایسا ہو گیا وہ دہشت گردی کے اس پنجابی انسائیکلو پیڈیا کو تحفہ سمجھ کر ساتھ لے جائیں گے۔قوم کو پورا یقین ہے کہ جس طرح گلو بٹ کو پہلے استعمال کر کے پھر بحفاظت کوٹ لکھ پت جیل میںجمع کرادیا گیا ہے اور جس طرح ندیم خادم کے خلاف پرچہ درج کیا گیا ہے عین ممکن ہے کہ حکومت خود ہی اس تحفے کو جلد ''پیک‘‘ کرنے کا بندوبست کر دے۔مجھے کراچی سے کال آئی‘ کال کیا زلزلہ انگیز یکطرفہ خْطبہ تھا ۔کالر کہنے لگے‘ آخر آپ لوگ کر کیا رہے ہیں ۔میں نے خلاف معمول انہیں کچھ دیر سنا پھر سوال داغ دیا‘ فرمائیں میرے لائق کیا خدمت ہے؟ کہنے لگے‘ یہی تو المیہ ہے ہر کوئی خدمت کرنے کو تیار ہے لیکن صرف زبانی کلامی‘ تھر میں 512بچے بلک بلک کر مر چکے ہیں ۔وہ جو اپنی تقریروں میں فرات کے کنارے بھوک سے مرنے والے کتے کے حوالے سے قیامت کے دن حکمران سے بازپرس کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں‘ انہیں غریب کے بچوں پر اتنا ترس بھی نہیں آیا کہ وہ ان تک خشک دودھ، پینے کا پانی‘ چپاتی یا ڈسپرین ہی پہنچا دیں ۔خادموں کے اپنے بچے لندن ،امریکہ ،دبئی اور سعودی عرب کے ہسپتا لوں میں علاج کراتے ہیں ۔ان میں سے کسی کو نزلہ بھی ہو جائے تو سرکار دربار اس قدر ہل جاتا ہے جتنا یہ نظام، 2010ء کے قدرتی سیلاب یا 2014ء کے مصنوعی سیلاب میں بھی نہیں لرزا تھا۔
پچھلے دنوں، میں نے ایک ٹی وی شو میں تجویز پیش کی تھی جس کو وفاقی حکومت نے فراخدلی کے ساتھ فوری طور پر منظور کر لیا ۔ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ایسا عظیم فیصلہ کرنے والی حکومت کی تعریف نہ کرنا کنجوسی ہے‘ اس لیے کہ ایسی جمہوری حکومت امریکہ سے افریقہ تک اور افغانستان سے ہندوستان تک اور کہیں بھی نہیں جس کو قوم کی سڑکوں‘ سرکاری گملوں اور سی ڈی اے کے محکمہ صفائی کا اس قدر دکھ درد ہو۔ میں نے کہا تھا کہ حکومت جس تعداد میں سیاسی کار کنوں پر پرچے درج کر رہی ہے اور انہیں جیل بھجوا رہی ہے‘ اس کے لیے ہماری جیلوں کی گنجائش بہت کم پڑگئی ہے۔ لہٰذا اٹک جیسی ہوادار برسرِ دریا جیل کے مدّ اح نواز شریف صاحب کی حکومت نے میرے مطالبے پر پورے پاکستان کو جیل ڈکلیئر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ریڈ زون میں پانچ یا اس سے زیادہ داخل ہونے والے افراد یا جمع ہونے والے لوگوں کو دس سال تک قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کرنے کی تجویز زیرِ غور آئی۔اس کے نتیجے میں میرا سپریم کورٹ کا وکا لتی سٹاف ''تہلکہ ڈاٹ کام‘‘ بن گیا ہے۔ تین چار منشی اور پانچ چھ جونیئر وکیلوںکے ہمراہ مجھے ہر روز ریڈ زون میں اِنٹر ہونا ہوتا ہے‘ جہاں پارلیمینٹری سر گرمیوں کے علاوہ سپریم کورٹ آف پاکستان اور وفاقی شرعی عدالت میں پیش ہوتا ہوں۔ ہو سکتا ہے‘ یہ قانون بننے کے فوراً بعد ریڈ زون میں پولیس مقابلے کے لیے اسلام آباد میں ظلِ الٰہی کی حکومت ایسے ہی مجمعِ خلافِ قانون سے بسم ِاللہ کرے۔ لیکن آپ فِکر مت کریں اس حکومت نے پہلے دور میں مِلٹری ٹرائل کورٹس بنائی تھیں‘ پھر انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997ء اور آخر میں احتساب ایکٹ ایجاد کیا تھا ۔اس کے بعد کی کہانی کوئی جدہ والا ہی سنا سکتا ہے۔یوں لگتا ہے میرا خواب ٹوٹ رہا ہے‘ اس لیے عالمِ خواب سے کالمِ خواب کے ساتھ اجاز ت ۔
'دیارِ آئینہ‘ میں علی اکبر عباس نے کیا خوب کہا ؎
میں حیرت میں ہوں اور یہ لوگ سارے!
سمجھتے ہیں، بڑا پہنچا ہوا ہے