نان سٹیٹ ایکٹر

ورلڈ ٹریڈ سینٹرکی تباہی کے بعد دنیا میںبہت ساری چیزیں متعارف ہوئیں۔ ان میں سے ایک غیر ریاستی اداکار کا تصور ہے۔ اس کا سادہ مطلب ایسامسلح گروہ ہے جس کے پاس نہ کوئی ریاست ہو،نہ ہی غیر ریاستی عہدہ۔ تاہم‘ دو تازہ وجوہ نے نان سٹیٹ ایکٹر کی یہ تعریف گَڈ مَڈ کر کے رکھ دی۔
اسرائیلی ریاست کو مستحکم کرنے کے لئے کئی ریاستی ایکٹر متحرک ہیں۔ ان میں سے مغربی ریاستوں کا کردار سب کے سامنے ہے‘ لیکن بعض دوسری قوتوں کے فیصلوں کے نتیجے میں بھی اسرائیل ہی مزید طاقت پکڑتا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ اسرائیل گورے مہاجروں کا وطن ہے۔ فلسطینی ہو یا عرب، مسلمان ہو یا عیسائی، اسرائیلی ریاست دونوں کو اجنبی سمجھتی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بعض ملکوں میں موجود مغربی فوجیں اسرائیلی ریاست کا اہم ترین چوکیدار بھی ہیں۔ 
اب ان ریاستوں کے لئے تاریخ کا پہیہ اُلٹا چل پڑا ہے ۔ ان کے عین درمیان دنیا بھر کے نان سٹیٹ ایکٹرز نے اپنی پہلی ریاست کی بنیاد رکھ لی ہے۔
دوسرے یہ کہ، پاکستان میں ان لشکروں اور گروہوں کو نان سٹیٹ ایکٹر کہا گیا جو اپنی طاقت کا اظہار قوت اور تشدد کی زبان سے کرتے آئے ہیں۔ مگر ''ن لیگ‘‘ کی تیسری حکومت کے پہلے دو برسوں میں نان سٹیٹ ایکٹرز کی نئی کھیپ سامنے آئی ۔ماڈل ٹائون میں سرکاری قتل عام کی پہلی ٹی وی فوٹیج نے ہی ثابت کر دیا کہ غیر ریاستی تشدد میں ریاستی پولیس مسلح نان سٹیٹ ایکٹر کی قیادت میں حملہ آور ہوئی۔
ظلم کی دوسری داستان دوسری بار بھی ماڈل ٹائون میں ہی دہرائی گئی۔ دونوں واقعات کی جوڈیشل انکوائری کے لئے سٹیٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے با وقار جج جسٹس علی باقر نجفی کی سر براہی میں کمیشن بنایا۔ ڈیڑھ درجن شہر یوں کے قاتلوں کی نشان دہی ہوئی‘ مگر آج تک قتل کی ایف آئی آر میں نا مزد ملزموں میں سے کوئی ایک بھی گرفتار نہیں ہوا۔ ظاہر ہے جب ریاست کی مشینری پالتو غنڈوں کے پیچھے چھپ کر شہریوں کا قتلِ عام کرے‘ ملک کا دستور بے وقعت اور بے توقیر ہو جائے اور قانون نافذ کرنے والے اہل کارٹارگٹ کلرز اور سیریل کلرز کی قیادت اور کمانڈ قبول کر لیں تو پھر منظر نامہ کچھ یوں بنتا ہے ؎ 
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی گُلّو کافی تھا 
ہر شاخ پہ گُلّو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا
تیسرے واقعے نے قومی پارلیمان کے ساتھ جو کچھ کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ نہ ایشیا کی اور نہ دنیا کی تاریخ میں۔ ایک طرف مفادات کی ماری ہوئی قیادت منافقت کے سودے کر رہی تھی‘ دوسری جانب اسی پارلیمنٹ کے دالان اور دروازے پر ریاستی انتہا پسندی کا ہفتہ منایا گیا۔ہزاروں گولیاں اور گولے عوام پر برستے رہے، پارلیمنٹ خاموش رہی۔ شہری شاہراہِ دستور پر مارے گئے لیکن دستور کے محافظ گندے کپڑوں کی صفائی میں لگے رہے۔ قانون نے ثابت کیا کہ وہ اقتدار اور طاقت کے ایوانوں کی باندی ہے یا ایک بے بس بیوہ۔ یہاں تیسری مرتبہ قتل کے پرچے ہوئے‘ مگر ایک بھی ملزم ابھی تک نہ شامل تفتیش ہوا نہ گرفتار۔
فیصل آباد میں تو حد ہو گئی۔ مصدقہ راوی کے مطابق سرکار نے ڈی سی او، ڈی پی اوکو چُھپ جانے کا حکم دیا۔ پولیس کو آرڈر ملا کہ غنڈوں کو غارت گری کا فِری ہینڈ دیا جائے۔ ایک دن پہلے آدھی رات تک میڈیا پر چہکنے والے ڈی سی او، ڈی پی او اپنی زبانیں چونچ میں دبا کر چارپائی کے نیچے گھس گئے۔ ضلعی انتظامیہ، شہری نظم، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بجائے بلوائیوںکے حوالے ہو گئے۔ لٹھ بردار اور آتشیں اسلحہ والے ساری ٹی وی سکرینوں پر چھا گئے۔ ریاست آگ اور خون کی ہولی دیکھ کر چُھپ گئی۔ غنڈہ راج غدر کے بعد ایک دفعہ پھر لائل پور والوں کا مقدر بن گیا۔ جہاں حق نواز شہید اور دوسرا سیاسی کارکن بے نام مارا گیا‘ وہاں دس بیس نہیںبلکہ چار ہزار پولیس والوںکی ڈیوٹی تھی۔ پھر ایک اور پرچہ کٹ گیا۔ نامزد قاتل فاتحانہ تَکبُّر کے ساتھ میڈیا ٹاک فرماتے ہیں۔ قانون کے رکھوالے اور دستور کے کسٹوڈین لمبی تان کر سو رہے ہیں۔ جو پاکستانی انصاف پر عوامی تبصرہ پڑھنا چاہے‘ وہ غیر سنسر شدہ سوشل میڈیا دیکھے۔ سوئم کے بعد بھی نہ کوئی گرفتاری ہوئی، نہ کوئی تفتیش۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ وہ سرکار جو ایف آئی آر میں نامزد ہے‘ اسی سرکار نے ''ملزم‘‘کی گرفتاری کے لئے50لاکھ روپے کا انعام رکھا۔ یوں لگتا ہے ماڈل ٹائون کے بعد حق نواز شہید چوک میں گُلّو کی داستان دہرائی جائے گی۔ ایک اور چھوٹے درجے کا قربانی کا بکرا بلی چڑھے گا۔ ایف آئی آر پچھلی ایف آئی آر کی طرح مزید کالک مل دے گی۔ 
سچ تو یہ ہے کہ ہر طرف غیر ریاستی اداکاروں کا راج ہے۔ ابھی اگلے روز ایک ایسا نان سٹیٹ ایکٹر پکڑا گیا، جو نہ وزیر ہے نہ پارلیمنٹیرین، نہ سرکاری ملازم اور نہ حکومتی عہدہ دار !! لیکن چین کے ساتھ ایک کاروباری معاہدے پر اس نے ریاست پاکستان کے ضامن کی حیثیت سے دستخط کیے۔ سمجھ لیجئے، اب داخلی امن و امان کے بعد ملک کے خارجی امور اور تجارتی فیصلے بھی نان سٹیٹ ایکٹرز کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں۔ 
ایسے میں کس کے پاس اخلاقی جرأت ہے کہ وہ پہاڑ پہ بیٹھے ہوئے نان سٹیٹ ایکٹر کو غلط کہہ سکے؟اُن پر بھی قوت کے اظہار اور اپنی مرضی مسلط کرنے کے لئے تشدد کرنے کا الزام ہے۔ یہی الزام وزیراعظم، وزیراعلیٰ، وزیروں، مشیروں اور ان کے کفگیروں پر ہے۔ فاٹا والے درست کہتے ہیں اور اعداد و شمار فاٹاوالوں کے موقف کی تائید کرتے ہیں کہ کراچی قتل عام میں فاٹاکے مقابلے میں کہیں زیادہ شہری مارے گئے۔ میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ظلم وردی والا کرے، شلوار قمیض والا یا پینٹ شرٹ والا، قانون اسے مجرم کہتا ہے‘ لیکن اس بد بخت نظام میں قانون بڑے مجرموں کو پالتا ہے اور چھوٹے شہریوں کو کچل ڈالتا ہے۔
فیصل آباد کا لہو اور آنسو قوم کو پکار کر کہہ رہے ہیں کہ جاگ جائو۔ جس ملک میں پولیس سیاسی ہو جائے، قانون مغرور بن بیٹھے اور انصاف نا بینا ہو، وہاں عوام سٹریٹ جسٹس کا دروازہ کھول لیتے ہیں۔ جس طاقت کے اندھے کو نوشتۂ دیوار نظر نہیں آتا‘ وہ ملتان اور کراچی کی مثال دیکھے۔ دونوں شہروں میں پولیس والے ڈاکوئوں کے سر پرست سمجھے جاتے ہیں۔ ہر ڈکیتی کے بعد مظلوم کا قتل تو ہوا‘ لیکن ڈکیتی کے مال کی بر آمدگی نہ ہو سکی۔ آج ان دونوں شہروں میں سٹریٹ جسٹس کی عدالت لگی ہے۔
لوگ ڈاکوئوں کو رنگے ہاتھوں پکڑتے‘ عوام ان کا جسمانی ریمانڈ لیتے ہیں‘ جائے واردات پر سمری تفتیش ہوتی ہے مگر بر آمدگی بھی ۔ ڈاکوئوں کی لترول کے علاوہ۔ اگر اب بھی جمہوریت وڈیرے، سرمایہ دار، جاگیر دار اور طاقت کے مراکز کی داشتہ کا کردار ادا کرتی رہی تو پھر غیر ریاستی اداکار ظلم کے ا س نظام کو روند ڈالیں گے۔ ایسا نظام جو شہریوں کو تحفظ کا احساس دلائے اور نہ ہی مقتولوں کو انصاف دے سکے‘ جو نظام مظلوموں کو ظلم سے نہیں بچا سکتا اُس نظام کو بچانے میں مظلوم عوام کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟
آج سپریم کورٹ میں ایک سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل نے مجھ سے التجا کی کہ ایک اور ڈپٹی اٹارنی جنرل خلیفہ بغدادی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے پریس کانفرنس کرنا چاہتا ہے۔ آپ کا کیا تبصرہ ہے۔ میں نے شاہراہِ دستورپر غرور کے سریے اور جنگلے سے بھر پور اونچی عمارتوں کی طرف بے اعتنائی سے دیکھا۔ میرے کانوں میں غریبوں ، مظلوموں اور شہریوں کی یہ آواز گونجی ؎
کِس کِس کی زباں روکنے جائوں تیری خاطر؟ 
کِس کِس کی تباہی میں تیرا ہاتھ نہیں ہے؟ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں