جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے

وہ مزار کے اندر جانے لگا تو اسے پولیس والے نے روکا اور کہا کہ اندر وی آئی پی آ رہے ہیں‘ آپ نہیں جا سکتے۔ اْس نے جواب دیا‘ میں کے پی کے کا گورنر ہوں ۔لاڑکانہ کے رپورٹر زقہقہے لگا کر ہنسنے لگے‘ لیکن احمد فراز کو تعارف کروانے کے لیے کبھی احمد فراز کہنے سے زیادہ کی ضرورت پیش نہیں آئی۔اگر یہ عوام دوست اور وطن پرست شاعر آج ہمارے درمیان ہوتا تو آنے والی بہار اس کے لیے چوراسویں ہوتی۔
پہلے اس عظیم شاعر پر یہ شعر سُنیں ؎ 
مرنے والا عظیم شاعر تھا، قوم اب شعر پڑھ کے روتی ہے 
مسخرہ پن ہے ان عظیموں کی قدر مرنے کے بعد ہوتی ہے
جس طرح آج کل شاعروں، ادیبوں، خطیبوں، محررّوں اور مقررّوں کو عہدوں‘ مراعات اور لفافوں کی مار پڑ رہی ہے‘ اسی طرح کے ایک پچھلے دور میں ضیاء الحق نے دانش کو ''نیشنلائز‘‘ کرنے کی پالیسی بنائی۔ تب اس کے خلاف فیض احمد فیض ،حبیب جالب کے ساتھ ساتھ پشاورکا نوجوان پشتون شاعر، مزاحمتی شاعری کی آبرو بن کر سر اٹھا کے کھڑا ہو گیا ۔یہ تھا احمد فراز ۔اس نے بول کہ لب آزادہیں تیرے‘ اور‘ ظلمت کو ضیا‘ صر صر کو صبا‘ بندے کو خدا کیا لکھنا‘ والی صف میں چھلانگ لگائی ۔احمد فراز نے ضیاء کی بدترین آمریت کو محاصرہ یعنی گھیراؤکا نام دیا اور ایک سدا بہار معرکتہ الآراء نظم تخلیق کر دی۔ احمد فراز نے پہلی بار یہ نظم لندن میں سنائی جس میں جگ بیتی کے ساتھ ساتھ اس نے اُن ''آپ بیتی دھمکیوں‘‘ کا بھی ذکر کر دیا جو اسے آمرِ مطلق سے ملیں ۔فراز نے کہا: 
مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اُس کے 
فصیلِ شہر کے ہر بُرج، ہر منارے پر
کماں بدست ستادہ ہیں عسکری اُس کے
فراز نے اُس دُکھ کا بھی کُھل کر اظہار کیا جو آج کل میرے جیسے لوگوں کی سب سے بڑی حسرت بن گیا ہے ۔ وہ یہ کہ کاش مزاحمتی ادب اور عوامی مزاحمت پر مبنی سیاست پر پھر خلقِ خدا راج کرے۔فراز نے اس درد کی ٹیس یوں بیان کی: 
وُہ برق لہر بُجھا دی گئی کہ جِس کی تپش 
وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی
بِچھا دیا گیا بارود اُس کے پانی میں 
وہ جوئے آب، جو میری گلی کو آتی تھی
آج عام آدمی کا چولہا بند ہے۔ مزدور کے بچوں پر ملازمت کے دروازے بند ہیں۔چھوٹی بستیوں کی گیس بند ہے اور اب لوٹ مار کے راج میں 61سال بعد عالمی منڈی میں سستا ترین بکنے والا پٹرول بھی بند ہو گیا۔دوسری جانب عوام کے لیے لکھی جانے والی شاعری بند۔طبقاتی کشمکش پر مبنی ادب بند ۔اور مفاہمتی سودے بازی کے امکانات کے دروازے پر ظلِ الٰہی سے فیض پانے والوں کی قطاریں پٹرول اور گیس ڈھونڈنے والوں کی قطاروں سے بھی لمبی ہو گئی ہیں ۔ گدا گر سُخن وروں کے ان گروہوں پراحمد فراز نے یہ کہا: 
تُم اہلِ حرف کے پندار کے ثناگر تھے
وہ آسمانِ ہُنر کے نجوم سامنے ہیں
بس اِک مصاحبِ دربار کے اشارے پر
گدا گرانِ سخن کے ہُجوم سامنے ہیں 
پچھلے دنوں نواز شریف ،کرسی کے تخفظ کے لیے ہونے والی قانون سازی دیکھنے سینیٹ آئے۔ میں نے موقع غنیمت سمجھا۔ چنانچہ جی ایس ٹی میں اضافے کے خلاف آواز اُٹھا دی۔ مجھے چُپ کروانے والا کوئی اور نہیں ،میرے اپنے سینیٹ کا چیئرمین تھا۔ نہ مجھے فلور دیا گیانہ ہی 103دلاوروں میں سے کسی نے عوام کے لیے آواز بلند کی۔احمد فراز کے ساتھ بھی کبھی ایسا ہی ہوا تھا: 
قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو
تُمہارے پاس ہے کون؟ آس پاس تو دیکھو 
آج کل ضیاء آمریت کے دور کی طرح پھر کانفرنسوں کا دور دورہ ہے۔ جس میں جُبّہ و دستار سمیت معززین اپنی باری کی جدوجہد میں نظر آتے ہیں۔ آج سے چالیس سال پہلے کا پاکستان بھی ایسا ہی تھا۔اس کا ثبوت احمد فراز کے لفظوں میں دیکھیے: 
تمام صوفی و سالک‘ سبھی شیوخ و امام
امیدِ لطف پہ ایوانِ کجکلاہ میں ہیں
معززینِ عدالت حلف اُٹھانے کو
مثالِ سائلِ مبرم نِشستہ راہ میں ہیں
احمدفراز دھمکیوں کی زد پر بھی رہے‘ جس کاا ْنہوں نے اظہار ایسے کیا: 
سو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم، قتل گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کے نشانہ کمانداروں کا 
بس ایک تُم ہو، سو غیرت کو راہ میں رکھ دو 
محاصرہ میں احمد فرازرجائیت کے عروج پر چلے گئے۔مفاہمت کو مسترد کیا۔میں نے تو مفاہمت کا نام ہی منافقت رکھ چھوڑا ہے۔کیونکہ مفاہمت کا شرائط نامہ، نرخ نامے پر ذاتی مفاد کے لیے سودے بازی کا دوسرا نام ہے۔فراز نے شرط نامہ مسترد کیا: 
سو یہ جواب ہے میرا مرے عدو کے لیے
کہ مجھ کو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ
اُسے ہے سطوتِ شمشیر پر گھمنڈ بہت
اُسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ
قلم زندہ معاشروں کی آبرو کی علامت ہے۔قلم کا تذکرہ آسمانی صحیفے بھی کرتے ہیں۔قلم کو احمد فراز نے تلوار بنا دیا ۔کہتا ہے: 
مرا قلم نہیں تسبیح، اْس مبلّغ کی 
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
مرا قلم نہیں، میزان ایسے عادل کا 
جو اپنے چہرے پہ دُہرا نقاب رکھتا ہے
احمد فراز نے قلم کی کاٹ سے اس کی دھاک بٹھائی۔اپنے قلم کو اپنے ضمیر کی عدالت بنایا اور خود کٹہرے میں کھڑا ہو گیا۔آج کل سرکاری دانشور قلم کو تلوار بنانے کی بجائے ،اُسے شلوار میں ناڑا ڈالنے کے لیے استعمال کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔فراز نے قلم کا تیر، یوںنشانے پر پھینکا: 
مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لِکھا، تپاکِ جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تیِر کی ہے
جو لوگ جدو جہد کا راستہ چھوڑ دیتے ہیں‘ مرتے وہ بھی ضرور ہیں‘ سرِ دار نہ سہی ‘ بیچ بازار کبھی ٹریفک حادثے میں ،کبھی بد ہضمی اور فوڈ پوائزننگ کی وجہ سے۔احمد فراز نے زندگی کی بے ثباتی کے مقابلے میں قلم کے سفر کو معاشروں کے لیے رول ماڈل بنا کر پیش کیا۔آج کل کی قلم کاری، مطلب برآری اور سرمایہ داری، مل جُل سے گئے ہیں ۔بالکل اجتماعی شادیوں کی طرح ۔یا پھرلیفٹ رائٹ کے نعرے مارنے والی ان سیاسی پارٹیوں کی طرح جو آج کل "Best for the business"کو کامیابی کی سیڑھی سمجھتے ہیں۔جہاں لوگ بولنا چھوڑ دیں‘ قلم کے ذریعے یا زبان کے ذریعے‘ یا پھر احتجاج کے ذریعے، ایسے معاشروں کا سفر رائیگاں جاتا ہے۔احمد فراز نے گھیرے کے اندر آئے ہوئے غریب لوگوں کو ''حِصارِ ستم‘‘ ٹوٹنے کی روح پرور نوید سنائی: 
میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں، یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا 
تمام عُمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم 
مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں