سینیٹ الیکشن کا لنڈا بازار…

چیف الیکشن کمیشن سردار رضا خان نے مجھ سے سوال کیا‘ جب پی ٹی آئی کے وکیل کی حیثیت سے عمران خان کے ہمراہ میں چیف کمشنر کے کمرے میں پہنچا۔
سوال جتنا دلچسپ تھا اتنا ہی بنیادی نوعیت کا ۔چیف الیکشن کمشنر کہنے لگے پاکستان کے سارے الیکشن متنازعہ کہلائے۔ 1970ء والے انتخابات کو سب فریق منصفانہ کیوں مانتے ہیں؟ اس سوال کا جواب میں نے بھی دیا اور میرے مؤکل عمران خان نے بھی۔ادھر بعد میں آئیں گے۔پہلے اس سوال کا تازہ تناظر دیکھ لیں...! یہ تناظر پیدا ہوا ہے سینیٹ آف پاکستان کے جاری الیکشن پراسیس اور لوکل باڈیز کے اس الیکشن سے جس کے بارے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دونوں ہاتھ پہلے کندھوں تک لے جا کر اب سر کے اوپر کھڑے کر دیے ہیں۔ وہ بھی عدالت عظمیٰ کے فاضل بنچ کے عین سامنے۔
آئین کے آرٹیکل218میں کھلی ہدایت موجود ہے کہ الیکشن کمیشن شفاف ،منصفانہ اور قانون کے عین مطابق الیکشن منعقد کروائے۔اس وقت سینیٹ الیکشن اپنے آپ کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا مشتبہ سمجھے‘ کیونکہ سینیٹ الیکشن اور بلدیاتی انتخابات کے تمام فریقوں کی ساری کی ساری انگلیاں کٹہرے میں کھڑے اسی مشتبہ کی جانب اُٹھ رہی ہیں اور ان انگلیوں کا اُٹھنا ضروری ہی نہیں ہے بلکہ بالکل جائز بات بھی۔ سینیٹ الیکشن کے حوالے سے سینیٹ الیکشن ایکٹ 1975ء رہنما اصول اور امیدواروں کی اہلیت کی تفصیلات دیتا ہے۔اس سے بھی بڑا قانون پاکستان کا دستور مجریہ 1973ء ہے‘ جس کے دو آرٹیکل پاکستان کے شہریوں کو زبانی یاد ہو چکے ہیں۔وہ ہیں آرٹیکل باسٹھ اور آرٹیکل تریسٹھ۔اس کے ساتھ ساتھ سینیٹ الیکشن کے لیے پارلیمنٹ نے 1975ء میں جو ایکٹ آف پارلیمنٹ بنایا اس کے سیکشن 58اور59میں علیحدہ سے سینیٹ انتخابات کے دوران بلیک منی یعنی کالے دَھن کی کالک روکنے کا بندوبست بھی کر ڈالا۔
ایوانِ بالا کے انتخابات میں کرپٹ پریکٹس ،رشوت ستانی، مُک مُکا،سودے بازی اور ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لیے ایک پورا باب نمبر چھ شامل کیا گیا ہے‘ لیکن آج تک کسی نے اس باب اور اس قانون کو بنیاد بنا کر نہ کسی عدالت کادروازہ کھٹکھٹایا اور نہ ہی کبھی کسی نے الیکشن کمیشن کو ایک سادہ سا ''توجہ دلاؤ نوٹس‘‘ بھجوانے کی زحمت کی۔دو روز پہلے جب عمران خان کے پی کے سے واپس اسلام آباد آئے تو اس موضوع پر ان کے ساتھ تقریباً دو گھنٹے کی ون آن ون نشست ہوئی۔میرا خیال ہے پاکستان میں فیڈریشن کی نمائندگی کرنے والے ایوانِ بالا کے الیکشن اور اَپر ہاؤس کو گندی مچھلیوں سے پاک کرنے کے لیے یہی قانون موثر اور دستیاب ذریعہ ہے۔کئی لوگوں کے لیے یہ خبر ہو گی کہ سینیٹ الیکشن ایکٹ میں ایوانِ بالا کے الیکشن کے حوالے سے چار جرائم کی سزا پانچ سال قیدِ بامشقت رکھی گئی ۔جن کا خلاصہ یوں ہے۔
نمبر 1: کرپٹ پریکٹس کے ذریعے سینیٹ الیکشن پر اثر انداز ہونا قابلِ گرفت جُرم ہے۔
نمبر2:سینیٹ الیکشن میں اثرو رسوخ استعمال کر کے نتائج یا کامیابی حاصل کرنا بھی قابلِ دست اندازی پولیس واردات ٹھہری ۔
نمبر3: سینیٹ الیکشن کے لیے رشوت کا لین دین قابلِ تعزیرو سزا اور اینٹی سوشل کرائم بنایا گیا۔
نمبر 4: کسی کو سینیٹ الیکشن میں ووٹ کے بدلے رشوت کا وعدہ ،رشوت دینے کی کوشش یا رشوت لینے کے لیے مائل کرنا بھی فوجداری زمرے میں شامل ہے۔
پاکستان میں نظامِ انصاف کو جو بڑے چیلنجز درپیش ہیں ان کا بنیادی ڈھانچہ امتیازی سلوک پر کھڑا ہے۔جب کوئی بڑا آدمی کٹہرے یا ہتھ کڑی کی زد میں آتا ہے تو اسے بچانے کے لیے بڑے گروہ متحرک ہو جاتے ہیں‘ لیکن جب کوئی چھوٹاقانون کے دانت کے نیچے آ جائے تو اس کا حشر اس ''بٹیر‘‘ جیساہو جاتا ہے جو گاما پہلوان کے پاؤں کے نیچے آیا تھا۔
ہمارے سماج اور ملکی نظام‘ دونوں کے لیے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ سرکاری ترجمان ،درباری اپوزیشن اور غیر سرکاری اپوزیشن سے لے کر سینیٹ الیکشن کے سارے فریقوں تک‘ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کو بلا تبصرہ قومی ادارے کے الیکشن کے بجائے ''قمار خانہ‘‘ کہا جا سکتا ہے‘ جس میں شامل جواری جو کھیل کھیلتے نظر آ رہے ہیں اس کی تصویر یہ بنتی ہے۔
بِکھرے بِکھرے تاش کے پتّے چند جواری کھیل رہے ہیں
فکر میں ہر اک ڈوب رہا ہے، باری باری کھیل رہے ہیں
حکم کی دُکَّی، اینٹ کا دہلا، چشمِ زدن میں جیت گئی ہے
سکّوں کی جھنکار کے بَل پر رات اندھیری بیت گئی ہے
خواجہ کی دستار کا سلمہ اَیرے غَیرے لُوٹ رہے ہیں
کلیوں کے منہ زرد پڑے ہیں ،سَرو کے پرچم ٹُوٹ رہے ہیں
دائو پہ ہر ایک کھلاڑی، ترساں ترساں، لرزاں لرزاں
جیتنے والے خنداں خنداں، ہارنے والے حیراں حیراں
یہ مارا وہ پانسہ پلٹا، یہ جیتے وہ ہار ر ہے ہیں
حکم اور اینٹ کی تُرپ نہیں ہے پھول کے پتّے مار رہے ہیں
جیتو ہارو، ہارو جیتو، اس ڈیرے کی رِیت یہی ہے
اس سے چھینو اس پر جھپٹو، مِیت کے بُھوکوپیت یہی ہے
دُھوپ چڑھی آتی ہے سروں پر کھیلنے والے ٹُوٹ چکے ہیں
سرخ ہیں اب سونے کی چٹانیںخون کے چشمے پھوٹ چکے ہیں
ہمارے چیف الیکشن کمشنر صاحب نے انتخابی تنازعات پر جو اہم سوال اٹھایا‘ یہ وقت عین اس کا جواب دینے کا ہے۔پڑوسی ملک بھارت میں الیکشن کمیشن اس سوال کا جواب دے کر تاریخ بنا چکا ہے۔یہ جواب بہت سادہ ہے اور وہ یہ کہ سینیٹ کے انتخابات کے لیے اس قانون پر عملدرآمد کروایا جائے جس کے تحت یہ انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔قانون پر عملدرآمد کرواتے وقت یہ مت دیکھیں اُسے توڑنے والا کون ہے؟ ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ کِس صوبے میں سینیٹ کے ووٹوںکا بڑا خریدار کون ہے؟ کس کو نہیں پتہ کہ وہ پارٹیاں جن کے پاس صوبائی اسمبلی کے ممبر پورے نہیں، انہوں نے کس امید پر اس الیکشن میں کئی کئی امیدوار اتارے ہیں؟ کیا یہ بھی کوئی راز کی بات ہے کہ جو لیڈر کل ایک دوسرے کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے تھے وہ آج سینیٹ الیکشن کے دوران ایک دوسرے کو کیوں گلے لگا رہے ہیں؟ یہ الیکشن ہی نہیں‘ اس الیکشن کے لنڈا بازار کے تاجر اور ہم سارے تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔کیا ہم ایک دفعہ پھر سیاسی مفاہمت کے نام پر ضمیر اور قوم کی تجارت کریں گے؟ اگر ایسا ہی ہو گا جس کے واضح امکانات موجود ہیں، تو پھر تیسرا دَر ضرور کھلے گا۔اس تیسرے دروازے کو قدرت کا انصاف (Natural justice) کہا جاتا ہے۔اس میں نہ رشوت چلتی ہے نہ سفارش لیکن یہ انصاف جہاں بھی ہوا ،وہاں گندم کے ساتھ گُھن بھی پِس کر ملیا میٹ ہو گیا۔قدرتی انصاف کی تاریخ کے کھنڈر اور قبرستان اس کی گواہی دیتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں