پاکستان کو بہت سے داخلی چیلنجز کا سامنا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیچیدہ شکل اختیار کر گئے ہیں۔اس کی بڑی وجہ حکمران اشرافیہ کی طرف سے ان چیلنجز کے دیرپا حل کی تلاش میں نااہلی یا نارضامندی کا مظاہرہ ہے۔وہ ان کے حل کے ضمن میں جو بھی کوشش کرتے ہیں اس کا مقصد صرف داخلی یا خارجی چیلنجز کے فوری مضمرات سے نمٹنا ہوتا ہے۔
داخلی چیلنجز ایسے ہوتے ہیں جنہیں فوری اور دیرپا نوعیت کی توجہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے ‘تاکہ مسائل زیادہ سنگین صورت میں دوبارہ منظر عام پر نہ آجائیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے معاشی مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہماری اقتصادی پالیسیوں میں پایا جانے والا عدم تسلسل ہے۔بے یقینی کی فضا کسی بھی معیشت کے لئے زہر قاتل ہوتی ہے۔ معاشی استحکام کے لئے مطلوبہ پالیسیاں اس وقت تک وضع نہیں کی جا سکتیں جب تک بڑے سیاسی گروہ اپنی ترجیحات اور حکمت عملی کے حوالے سے وسیع تر باہمی اتفاق رائے پیدا نہیں کر تے ‘تاکہ حکومت جس کسی کی بھی ہو پالیسیوں کا تسلسل بلار وک ٹوک جاری رہے۔
اگر سابقہ تجربات کی روشنی میں تشکیل کردہ مسلسل اپروچ اپنائی جائے تو مسائل کے بہتر حل کی امید کی جا سکتی ہے کیونکہ اس میں پالیسیوں میں وسط مدتی تصحیح اور تجدید کی ضرورت کا ادراک بھی موجود ہوتا ہے۔
اگرچہ پاکستان کو خارجی تناظر میں بھی کئی ایک مسائل درپیش ہیں مگر ہماری توجہ صرف داخلی امور پر ہی مرتکز ہے۔داخلی چیلنجز کو ترجیح اس لئے دی گئی ہے کیونکہ عہد حاضر کے بین الاقوامی سسٹم میں کسی بھی ریاست کے لئے داخلی اور خارجی تناظر میں اپنے مفادات کے تحفظ کا انحصاراس امر پر ہوتا ہے کہ اس میں داخلی معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ کس حد تک سیاسی اور سماجی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔سرد جنگ کے زمانے میں تو کسی ملک کے داخلی معاشی حالات یا سیاسی و سماجی پالیسیاں کتنی بھی زبوں حالی کی شکار ہوتیں‘امریکہ یا روس سرد جنگ کے تناظر میں اس کی مدد کے لئے تیار ہو جاتے تھے۔دنیا دوقطبی تقسیم کی شکار تھی اور خصوصاً جیو پولیٹیکل اہمیت کے حامل ممالک کے پاس ان دونوں میں سے کسی ایک دھڑے میں شمولیت کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوتا تھا۔
مگر اب صورت حال پہلے جیسی نہیں رہی کیونکہ سرد جنگ کے خاتمے اور 1991ء میںسوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بڑی طاقتوں خصوصاً امریکہ کے پاس کسی ملک کی حمایت کرنے یا چھوڑنے کے حوالے سے کئی آپشنز آگئے ہیں۔یہ بڑی طاقتیں اب اسی ریاست کی طرف جھکائو رکھتی ہیں جہاں انہیں تجارت ‘سرمایہ کاری اوراپنی مصنوعات کے لئے منڈیوں اور علم و ٹیکنالوجی کے تبادلے کے حوالے سے زیادہ امکانات نظر آتے ہیں۔
پاکستان کا اولین داخلی چیلنج اس کی معیشت ہے اور باقی کے تمام چیلنج کسی نہ کسی طرح معیشت کے ساتھ منسلک نظر آتے ہیں۔پاکستان کے داخلی معاشی مسائل کو تین بڑے درجات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ اول : غیر ملکی قرضے اور واجبات۔دوم: معیشت کے داخلی وسائل کااستحکام سوم معیشت اور عوام کاباہمی تعامل۔پاکستان کے غیر ملکی قرضوں اور واجبات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔جون2017ء میں ان قرضوں کا حجم 83.431ارب ڈالر تھا جو دسمبر2017ء میں 89بلین ارب ڈالرز‘مارچ 2018ء میں 91.8ارب ڈالر اور جون 2018ء میں 95.097ارب ڈالر اور ستمبر2018ء میں 96.7ارب ڈالر ہو گیا۔توقع کی جا رہی ہے کہ جون 2019ء تک ان قرضوں اور واجبات میں مزید اضافہ ہو جائے گا جس کے نتیجے میں پاکستان کو مزید معاشی دبائو کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستان قرضوں کی ادائیگی کے لئے اپنے دائمی دوست ممالک سعودی عرب ‘متحدہ عرب امارات اور چین کی مالی اعانت سے دیوالیہ ہونے سے تو فی الحال بچ گیا ہے ۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ‘دونوں نے مختلف صنعتی اور زرعی شعبوں میں اربوں ڈالرز کی خطیر سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ تین سال کے لئے ادھار تیل کی فراہمی کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بھی مذاکرات جاری ہیں اور وہاں سے بھی پہلے کے مقابلے میں نسبتاً آسان شرائط پر قرضہ ملنے کی امید ہے۔ان تمام اقدامات سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو کسی حد تک مہلت مل گئی ہے۔تاہم اس حکومت کے لئے سب سے سنگین چیلنج یہ ہے کہ پاکستان کے داخلی مالی ذرائع میں استحکام پید کرنے کے لئے کچھ وقت مل جائے تاکہ دوسرے ممالک پر انحصار کو کم کیا جا سکے۔جنوری 2019ء کے منی بجٹ میں وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کاروباری اور صنعتی حلقوں کو بعض پرکشش ترغیبات Incentivesدینے کا اعلان کیا تھا۔تاہم یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ کیا پاکستان کے زرعی شعبے اور ٹیکس کی رقوم میں اتنی بڑھوتری ہوتی ہے کہ غیر ملکی قرضوں اور امداد پر انحصار کو کم کرنے کا عمل شروع کیا جا سکے۔ جب تک پاکستان اپنی معاشی خامیوں پر دھیان نہیں دیتا اس کے پاس داخلی اور خارجی پالیسی سازی کے بہت محدود آپشن ہوں گے۔
معیشت کے داخلی ذرائع اور سرمایے کی پیدا وار کو مستحکم کرنے پر توجہ دیتے وقت حکومت دولت کاچند ہاتھوں میں جمع ہونا بھی برداشت نہیں کر سکتی۔اگر معاشی نمو کے ساتھ ساتھ معاشرے میں سماجی انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے اور عام شہری کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا جاتا تو حکومت کو سماجی سطح پر داخلی انتشار ‘کشیدگی اور پرتشدد کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ معاشی ترقی کا فائدہ براہ راست عام شہری کو پہنچنا چاہئے اور اسے ان معاشی اجارہ داریوں سے بھی تحفظ ملنا چاہئے جو مارکیٹ میں دستیاب اشیائے صرف اور خدمات کی قیمتوں اور سپلائی پر اثر انداز ہو سکتی ہوں۔حکومت کو چاہئے کہ روزمرہ اشیائے صرف جن میںسبزیاں ‘دالیں‘گندم‘چاول ‘ چینی اور خوردنی تیل شامل ہیں‘ ان کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرے تاکہ معاشرے میں امن و امان کے استحکام کو یقینی بنا یا جا سکے اور عوام کا اپنے جمہوری اور سیاسی نظام پر اعتماد بحال رہے۔
پاکستان میں انسانی ترقی کے شعبے کو عمومی طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔دفاع ‘امن وامان اور انتظا میہ کے اخراجات کے مقابلے میں تعلیم‘ صحت ‘صاف پانی اور دیگر شہری سہولیات پر حکومت کم خرچ کرتی ہے۔اگر پاکستان کی آبادی کے بڑے حصے کو کسی اثاثے میں تبدیل کرنا مقصود ہے تواسی شعبے کو سب سے زیادہ ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ تاہم اگر موجودہ معاشی ‘داخلی اور خارجی سکیورٹی کے دبائو کو پیش نظر رکھا جائے تو مستقبل قریب میں پاکستان کی پالیسیوں میں کسی قسم کی تبدیلی کا امکان نظر نہیں آتا۔ ایک اور مسئلہ جس پر سیاسی اور سماجی رہنمائوں کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ پاکستانی معاشرے میں جمہوری اور سیاسی کلچر کا فروغ ہے۔نسلی اور علاقائی کثیر جہتی‘معاشرے میں تحمل اور اعتدال کو فروغ دینے پر بھرپور توجہ دی جانی چاہئے۔سیاسی اور ثقافتی تعامل کے ذریعے احترام ‘ صبر اور اختلاف رائے کے کلچر کو پروان چڑھایا جانا چاہئے۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے اگر ہم اپنے تعلیمی اداروں میں پاکستانی ریاست کی برتری‘حقوق و فرائض سے جڑی شہریت اور نوع انسانی کی مساوات کی تعلیم دینے پر آمادہ ہوں۔