عالمی برادری ایک بہترین سیاسی نظام کے ناتے جمہوریت پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کرتی ہے۔ اس کی جزئیات ہر ملک کے لئے مختلف ہو سکتی ہیں‘ مگر جن ممالک میں بہت زیادہ داخلی تنوع پایا جاتا ہو‘ مختلف علاقائی افکار اور مسابقت پر مبنی شناختیں موجود ہوں‘ وہاں ایک نمائندہ حکومت کو اس ریاست کے لئے ایک پریکٹیکل سٹریٹیجی کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ یہ جمہوری اتفاق رائے پورے پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ جدید ریاستی نظام‘ الیکشن اور آئین پسندی کو برطانوی عہد کے متحدہ ہندوستان میں متعارف کرایا گیا تھا‘ پاکستان میں صرف جمہوریت ہی نہیں‘ بلکہ پارلیمانی نظام پر بھی مکمل اتفاق رائے موجود ہے۔
1962ء کے آئین کے تحت پاکستان میں صدارتی نظام کا ایک تجربہ کیا گیا تھا۔ اختیارات کی مرکزیت کے ساتھ صدارتی نظام پاکستان جیسے کثیر نسلی ملک کیلئے زیادہ موزوں ثابت نہ ہو سکا۔ آج کل بھی پاکستان میں اسی صدارتی نظام کی طرف مراجعت کے بارے میں باتیں سننے میں آرہی ہیں‘ تاکہ سربراہ حکومت کو سیاسی دبائو اور کمپرومائزز سے نجات دلائی جا سکے‘ جو اسے ایک پارلیمانی نظامِ حکومت میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کیلئے کرنا پڑتے ہیں۔ کئی مرتبہ خزانہ‘ قانون‘ تجارت‘ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ‘ داخلہ اور خارجہ امور کے وزرا کی طرف سے غیر پیشہ ورانہ طرز عمل دیکھنے میں آیا‘ تو بہت سے افراد یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوئے کہ صدارتی نظام حکومت میں ایسے اہم عہدوں پر پیشہ ور اور تجربہ کار افراد کو متعین کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔
الیکشن میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کوئی جماعت بھی پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام کی حمایت نہیں کرتی۔یہ نتیجہ اخذ کرنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کے متحرک سیاسی حلقے پارلیمانی نظامِ حکومت کو ہی اپنی سوچ کے ساتھ لازم و ملزوم سمجھتے ہیں۔ اسے‘ پاکستان جیسے کثیر قومیتی ملک کے حالات اور عوامی فکر‘ وسیع و عریض رقبے‘ کثیر آبادی اور مقامی و علاقائی شناخت کی آگاہی رکھنے والی ریاست کے لئے زیادہ موزوں سمجھا جاتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کے پارلیمانی نظام نے حکومتی اور سیاسی بساط پر انتہائی بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جب ملک میں ایک ایسی مخلوط حکومت قائم ہو جو اپنی بقا کے لئے متعدد گروپوں اور جماعتوں کی حمایت کی محتاج ہو تو ان مسائل میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں حکومت کو حزب اختلاف کی طرف سے پیدا کردہ مشکلات سے قطع نظر اپنے اتحادیوں کی جانب سے بھی غیر ضروری دبائو کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ صدارتی نظام اپنانے سے ایک موثر سیاسی اور حکومتی عملداری کا قیام یقینی ہو جائے گا؟ ممکن ہے کہ سربراہ حکومت اپنی سیاسی بقا کے لئے پارلیمنٹ کا محتاج نہ رہے‘ مگر اس سے ایک بہتر ریاستی نظام کی ضمانت تو نہیں مل سکتی۔ اس بات کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ جب صرف پیشہ ور ماہر اور ٹیکنوکریٹس ہی امور مملکت چلائیں گے تو اس سے عوام کے لئے یقینا بہتر نتائج سامنے آئیں گے؟ گو کہ کئی ممالک میں صدارتی نظام کی عمدہ کارکردگی کی مثالیں موجود ہیں‘ مگر ساتھ ہی کئی ممالک میں اسی نظام کی انتہائی بری کارکردگی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ کچھ اسی طرح کی بات پارلیمانی نظام کے بارے میں بھی کی جا سکتی ہے کہ کچھ ممالک میں اس نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور کئی جگہ مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔
حکومتی عملداری کی کامیابی کا پیمانہ کوئی خاص جمہوری نظام نہیں ہوتا۔ دونوں نظام ہی کامیاب بھی ہو سکتے ہیں اور ناکام بھی۔ اس کا بنیادی پیمانہ انسانی فیکٹر ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو کوئی سیاسی نظام چلانے کی ذمہ داری ودیعت کی جاتی ہے ان کی اپنی سوچ اور طرز عمل کیسا ہے؟ اس سماج کا مجموعی مزاج کیسا ہے؟ یہ عوام ہیں جو کوئی بھی سیاسی نظام وضع کرتے ہیں یا اسے تباہ و برباد کرتے ہیں‘ لہٰذا پارلیمانی نظام ہو یا صدارتی نظام‘ ہمیں سیاسی رہنمائوں اور ان کے قریبی رفقاء کے رویے اور مائنڈسیٹ کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک موثر جمہوری عملداری میں درج ذیل امور اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
عوام کے سیاست سے منسلک طبقے خصوصاً سیاسی رہنما اپنی سیاسی اور غیر سیاسی زندگی میں جمہوری اقدار کے نفاذ اور ان کے احترام کے لئے کئے گئے اپنے زبانی وعدے کہاں تک پورے کرتے ہیں؟ جمہوری عمل اور اداروں کا کس حد تک احترام کیا جاتا ہے؟ اور تنازعات کے حل کے لئے جمہوری عمل اور اداروں کا کس حد تک محتاط استعمال کیا جاتا ہے؟ سیاسی رہنمائوں کا باہمی تعامل کیسا ہے اور جمہوریت میں ان کی سیاست کا طرز بیاں کیسا ہے؟سیاسی رہنمائوں میں جمہوری سیاسی کلچر کی جڑیں کتنی گہری ہیں؟ ان کے انفرادی اور اجتماعی رویے سے اس امر کی عکاسی ہوتی ہے کہ ان کے اندر باہمی تحمل و برداشت‘ انسانی مساوات‘ گفت وشنید‘ لچک اور متنازعہ امور پر باہمی مشاورت سے اتفاق رائے پیدا کرنے جیسی جمہوری اقدار کس حد تک راسخ ہیں؟ اپنی روزمرہ زندگی میں وہ کس حد تک قانون کی حکمرانی اور ریاستی اداروں کا احترام کرتے ہیں؟ پارلیمانی یا صدارتی نظام کے مقصد کے ساتھ کچھ اور معاملات بھی جڑے ہوتے ہیں۔ کیا یہ نظام صرف اشرافیہ اور معاشرے کے بالائی طبقات کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے یا عوام الناس کی فلاح و بہبود اور خدمت کو اپنی ترجیح سمجھتا ہے؟ صدارتی نظام کی مدد سے شور شرابہ کرنے والے جارح مزاج سیاست دانوں کو میدانِ سیاست سے بے دخل کرنے سے ایک پائیدار سیاسی نظام تشکیل دینا ممکن نہیں۔ ان آشوب گروں کو میدان سیاست میں برداشت کرنا ہی ہوگا۔
نظام حکومت پارلیمانی ہو‘ خواہ صدارتی‘ اگر متذکرہ بالا معاملات کی طرف حقیقی انداز میں دھیان نہ دیا گیا تو اسے مسائل کا یقینی سامنا کرنا پڑے گا یا پھر وہ سرے سے غیر متعلق ہو جائے گا۔ موجودہ جمہوری نظام پر عوام کے عدم اطمینان کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم یہ سب کچھ کرنے میں ناکام رہے۔ فکروعمل میں ایک بڑی خلیج حائل ہے اور سیاسی بزرجمہر جمہوریت اور اس کے اصولوںکے بارے میں صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں؛ تاہم جب عمل کی بات ہوتی ہے تو اپنے جماعتی مفادات کے تحفظ کے لئے وہ جمہوری اصولوں کی بے دریغ خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اپنے ذاتی یا جماعتی مفادات کے حصول کے لئے وہ جمہوری اداروں اور جمہوری عمل کا غلط استعمال کرتے ہوئے ذرہ برابر تامل محسوس نہیں کرتے۔ بہت سے منتخب رہنما منصبِ اقتدار پر فائز ہونے کے بعد آمرانہ طرز عمل اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ پارلیمانی حمایت کو تمام اختیارات اپنے ہاتھوں میں جمع کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں‘ جو حقیقی جمہوری روح اور رویے کے خلاف ہے۔جمہوریت کی کامیابی کا دارومدار ریاستی اداروں میں پائے جانیوالے چیکس اینڈ بیلنس نظام پر ہوتا ہے۔ ریاست کے مختلف اداروں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنے اور دوسرے اداروں کی اتھارٹی کے دائرہ کار کا احترام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی ایک ادارے کو دوسرے ریاستی اداروں اور نظام پر بالادستی قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
جمہوریت کی کارکردگی کو سیاسی رہنمائوں کے زبان و بیان سے بھی جانچا جا سکتا ہے۔ وہ سیاسی امور پر کس پیرائے میں اظہار کرتے ہیں اور اپنے سیاسی مخالفین کو کس طرح مخاطب کرتے ہیں؟ پاکستان کے سیاسی رہنمائوں کی ایک بڑی تعداد اپنے سیاسی مخالفین پر کوئی کمنٹس دیتے ہوئے غیر شائستہ ہو جاتی ہے۔ وہ انتہائی تلخ اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کرتے ہیں‘ جس سے معاشرے میں بے لچک اور عدم برداشت کے رویے فروغ پاتے ہیں۔ پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام کی طرف شفٹ ہونے سے ہم نہ تو ان رہنمائوں کی سیاسی سوچ کو تبدیل کر سکتے ہیں‘ (باقی صفحہ 11 پر)
اور نہ اس امر کی ضمانت دے سکتے ہیں کہ وہ جمہوری اقدار‘ پروسیس اور اداروں کا احترام کرنا شروع کر دیں گے۔ ہم اس نئے نظام سے اتفاق نہ کرنے والوں کو سیاسی عمل سے باہر نہیں نکال سکتے؛ چنانچہ محض دستوری سیاسی ڈھانچے کو تبدیل کرکے جمہوریت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور نہیں کی جا سکتیں۔
1973ء کے آئین پر تمام سیاسی جماعتوں اور صوبوں کو اعتماد ہے۔ تین مرتبہ اس آئین سے انحراف کے باوجود یہ آج بھی موجود ہے۔ اس کے مرکزی خدوخال یعنی پارلیمانی نظام کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرنے کے بجائے اسے مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہئے کہ موجودہ سیاسی نظام میں پائی جانے والی خامیوں پر قابو پانے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کریں۔
پاکستانی جمہوریت میں پائی جانیوالی موجودہ خامیوں کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے ہاں سرے سے جمہوریت موجود ہی نہیں ہے۔ جمہوریت ایسا طرز عمل ہے جو اپنے اندر بتدریج درستی اور بہتری لانے کا تقاضا کرتا ہے۔ ہمیں اپنی سوسائٹی میں جمہوری سیاسی کلچر‘ تحمل و برداشت اور سیاسی رواداری کو پروان چڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ جمہوریت کی کامیابی کے تین اہم ہتھیار ہیں اول: میرٹ کا قیام‘ دوم: عوامی فلاح و بہبود سے متعلق سیاسی اور سماجی مسائل سے نمٹتے وقت حقیقت پسندی کا مظاہرہ‘ سوم: حکومتی اداروں میں پائی جانے والی کرپشن کا قلع قمع۔
جمہوریت ہمیشہ ''کم جمہوریت‘‘ سے ''زیادہ جمہوریت‘‘ کی طرف سفر کا نام ہے۔ یہ ایک ایسا مسلسل عمل ہے جو ناصرف جمہوری اصولوں کی روشنی میں اپنی کارکردگی کا باقاعدگی سے جائزہ لینے کا متقاضی ہے بلکہ ان اصولوں کا ریاستی اداروں‘ پروسیس اور معاشرے میں عملی مظاہرہ بھی دیکھنا چاہتا ہے۔