ستمبر کا مہینہ عالمی سفارت کاری میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس ماہ کے تیسرے یا چوتھے ہفتے میں نیو یارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کا آغاز ہوتا ہے۔ عموماً یہ اجلاس دسمبر کے پہلے یا دوسرے ہفتے تک جاری رہتا ہے؛ تاہم دنیا کی توجہ زیادہ تر اس اجلاس کے پہلے اور دوسرے ہفتے پر ہی مرکوز رہتی ہے‘ جب ممبر ممالک کے سربراہان ریاست و حکومت، وزرائے خارجہ اور اعلیٰ سفارت کار اجلاس سے خطاب کرنے کی غرض سے نیویارک میں موجود ہوتے ہیں‘ جہاں وہ عالمی امور پر اپنے خیالات کے ذریعے اپنی انفرادی تشویش کا اظہار کرتے ہیں ۔
عالمی رہنما جنرل اسمبلی کے اجلاس کی سائڈ لائن پر ایک دوسرے کے ساتھ ملاقاتیں بھی کرتے ہیں‘ جن میں وہ عالمی، علاقائی اور دو طرفہ اہمیت کے حامل امور پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اور اپنی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے پر Lobbying بھی کرتے ہیں۔ ان دو ہفتوں کے دوران بہت سی دیگر عالمی تنظیمیں بھی نیویارک میں اپنے اجلاس کرتی ہیں۔ یو این بلڈنگ کے باہر کئی غیر سرکاری گروپس عالمی یا علاقائی اہمیت کے مسائل کے حق میں یا خلاف ریلیاں نکالتے ہیں۔ یو این ہیڈ کوارٹرز یا اس کی سائڈ لائن پر ہونے والی متحرک سفارتی سرگرمیوں کو ''عالمی سفارت کاری کا سالانہ میلہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 74واں سالانہ اجلاس ضابطے کی کارروائی شروع کرنے کے لئے 17 ستمبر کو منعقد ہوا تھا۔ اصل سفارتی کام کا آغاز 21 ستمبر کو شروع ہونے والے ہفتے میں ہوا۔ عالمی مسائل کی صورت حال کے بارے میں سیکرٹری جنرل کی سالانہ رپورٹ کے بعد 24 ستمبر کو یعنی کل عالمی امور پر عمومی بحث کا آغاز ہو گا۔ اقوام متحدہ کا میزبان ہونے کی بنا پر امریکی صدر سب سے پہلے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتا ہے۔
پہلے دو ہفتوں کے دوران ہی زیادہ تر نمائندے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہیں مگر ان میں سے زیادہ تر تقاریر کو زیادہ اہمیت نہیں ملتی‘ اور سامعین کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ مگر عالمی امور میں سفارتی اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک کے رہنمائوں کی تقاریر اور بیانات پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے۔ ان ممالک میں امریکہ روس، چین‘ فرانس، جاپان، جرمنی اور برطانیہ شامل ہیں۔ علاقائی امور کی وجہ سے بعض ممالک کے بیانات کو بھی خاصی اہمیت ملتی ہے۔ ان ممالک میں پی ایل او، اسرائیل، مصر، سعودی عرب، بھارت، پاکستان، جنوبی کوریا، جنوبی افریقہ اور نائیجیریا شامل ہیں۔ تعلقات میں دو طرفہ کشیدگی رکھنے والے ممالک اپنے دشمن ملک کی تقاریر میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ کوئی بھی رکن ملک اپنے حریف ملک کی تقاریر پر اپنی وضاحت یا رد عمل دینے کے لئے وقت مانگ سکتا ہے۔ بھارت اور پاکستان اس کی ایک مثال ہیں جو ایک دوسرے کے حریف سمجھے جاتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کی تقاریر کو بہت غور اور احتیاط سے سنتے ہیں اور ایک دوسرے کی تنقید اور نکتہ چینی کا جواب بھی دیتے ہیں۔
ہر رکن ملک کا جنرل اسمبلی میں ایک ووٹ ہوتا ہے اور کسی رکن ملک کو یہاں ویٹو پاور حاصل نہیں ہے۔ جنرل اسمبلی عالمی اہمیت کے کسی بھی مسئلے پر بحث کے بعد سادہ اکثریت سے کوئی قرارداد پاس کر سکتی ہے؛ تاہم جنرل اسمبلی کے پاس کوئی اپنا ایسا میکنزم موجود نہیں ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرا سکے۔ اگر کسی قرارداد پر جلد عمل کرانا مقصود ہو تو اسے سلامتی کونسل کے پاس بھیجا جاتا ہے جہاں پانچ مستقل ارکان کو اس قرارداد کو مسترد کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے یعنی اگر پانچ مستقل ارکان میں سے کوئی ایک یا سارے کسی قرارداد کو مسترد کر دیں تو اقوام متحدہ اس قرارداد پر عمل نہیں کرا سکتی۔ بالفاظ دیگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جنرل اسمبلی کی پاس کردہ کسی بھی قرارداد کو مسترد کر سکتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان جنرل اسمبلی میں پاکستان کا پالیسی بیان جاری کریں گے جس میں توقع ہے کہ ان کا فوکس کشمیر، پاک بھارت تعلقات، افغانستان میں امن اور سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حالیہ ڈرون حملوں پر ہو گا۔ جناب وزیر اعظم جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیو یارک پہنچ چکے ہیں۔
روایتی طور پر پاکستان ہر سال جنرل اسمبلی میں کشمیر کا مسئلہ اٹھاتا ہے لیکن 5 اگست 2019ء کو جب سے بھارت نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کی خود مختاری ختم کر کے اسے یونین علاقوں میں شامل کیا ہے‘ اور وہ براہ راست نئی دہلی کے کنٹرول میں آ گیا ہے‘ اس کے بعد یہ مسئلہ وزیر اعظم عمران خان کے خطاب میں مرکزی فوکس حاصل کرنے جا رہا ہے۔
وزیر اعظم اپنے خطاب میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انڈین سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی پر روشنی ڈالیں گے‘ جنہوں نے وہاں پانچ اگست سے کرفیو نافذ کر رکھا ہے، وہاں ہر طرح کے رابطے معطل ہیں، بھارتی اور عالمی میڈیا کو وہاں تک کوئی رسائی حاصل نہیں ہے، حریت قیادت گرفتار ہے اور اسے کسی قسم کی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے۔ عوام کو شاید ہی ہسپتالوں، مارکیٹوں تک رسائی حاصل ہو، سکول بند ہیں اور ہر طرح کی سماجی، مذہبی یا سیاسی سرگرمی پر مکمل طور پر پابندی عائد ہے۔ ان پابندیوں کو چیلنج کرنے والی ہر کوشش پر ریاستی مشینری کی طرف سے مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے۔ لوگوںکو گرفتار کیا جا رہا ہے اور انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
پاکستان مطالبہ کرے گا کہ عالمی برادری مداخلت کر کے کشمیر میں انسانی حقوق کو بحال کرائے‘ وہاں پانچ اگست سے پہلے والے حالات بحال کئے جائیں اور کشمیر کا مسئلہ پُر امن طریقے سے اور سیاسی طور پر حل کرنے کے لئے پاک بھارت مذاکرات کا آغاز ہو۔ وزیر اعظم عمران خان وہاں یہ موقف اپنائیں گے کہ اگر مسئلہ کشمیر لا متناہی طوالت پکڑتا ہے تو یہ دو ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔
کشمیر کے حالات کی سنگینی کے پیش نظر سلامتی کونسل سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس مسئلے کو اپنی رپورٹ میں شامل کرے گی اور بعض دیگر ممالک اس امر پر زور دیں گے کہ دونوں ممالک اس مسئلے کو پُر امن مذاکرات سے حل کریں۔ وزیر اعظم عمران خان بھی امریکی صدر ٹرمپ سمیت کئی سربراہان حکومت و مملکت کے ساتھ بات چیت کر کے کشمیر میں جاری صورت حال میں بہتری کے لئے اقدامات اور اس مسئلے کے مذاکرات کے ذریعے حل میں ان سے تعاون کی درخواست کریں گے۔
کسی کو یہ امید نہیں ہے کہ جنرل اسمبلی کشمیر ایشو کے حل کے لئے کوئی ٹھوس میکنزم تجویز کرے گی۔ اگر پاکستان اور بھارت کے علاوہ کوئی ملک کشمیر پر بات کرتا ہے تو وہ یہی کہے گا کہ دونوں ممالک تحمل کا مظاہرہ کریں اور اس ایشو سمیت تمام مسائل کو بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کریں؛ تاہم بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بحالی کے مطالبے کو بھرپور حمایت ملنے کی امید ہے۔ جنرل اسمبلی کا اجلاس بھارت پر زبردست سفارتی دبائو ڈالے گا اور عالمی سطح پر اس کی شہرت پر برا اثر پڑے گا‘ جو بھارت کو کشمیر کے بارے میں اپنا 5 اگست والا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے؛ البتہ اس امر کی کوئی توقع نہیں کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں کوئی مدد ملے گی؛ تاہم اس مقصد کے لئے سفارتی تگ و دو جاری رہے گی اور اس مسئلے پر پاکستان کو سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر طویل مدتی کوششیں جاری رکھنا ہوں گی۔ رفتہ رفتہ کامیابی ملے گی اور اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ پاکستان عالمی سیاست میں وزن رکھنے والے ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتا ہے۔
مسئلہ کشمیر کی نزاکت اور پیچیدگی اس کے حل کے لئے کثیر جہتی اپروچز کی متقاضی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک متحرک اور سر گرم سفارت کاری کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کا ایسا حل نکالنے کی کوشش کی جائے جو دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کے لئے بھی قابل قبول ہو۔ اس سمت میںکچھ کام 2004-07 ء کے عرصے میں ہو بھی چکا ہے۔ اس سلسلے میں بعض تجاویز بھی پیش کی گئی تھیں جن پر از سر نو غور کیا جا سکتا ہے۔