گیارہ جماعتی اپوزیشن اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں اپنی پہلی عوامی ریلی سے مطمئن ہے۔ عمران خان کی قیادت میں قائم پی ٹی آئی کی حکومت کو اقتدار سے محروم کرنے کے سلسلے میں وہ اسے ایک اچھا آغاز قرار دیتا ہے۔ اپوزیشن ماہِ رواں اور نومبر میں مختلف شہروں میں یکے بعد دیگرے ریلیوں کو عوامی مومنٹم بڑھانے کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے تاکہ پی ٹی آئی کی حکومت کو گرایا جا سکے۔
اس اتحاد میں مرکزی کردار مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) ادا کر رہی ہیں۔ گوجرانوالہ کا جلسہ عام بلاول بھٹو کی معیت میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی سرگرمی کا مظاہرہ تھا۔ پیپلز پارٹی کے کارکن طویل عرصے کے بعد پنجاب میں کسی قابل ذکر سیاسی سرگرمی میں مصروف نظر آئے۔
ہم پاکستان میں اسی پرانی سٹریٹیجی کو دہرائے جانے کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کو اس مقصد کے لئے استعمال کرنے کے بجائے حکومت کو سڑکوں پر چیلنج کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے پارلیمنٹ کو غیر متعلق قرار دیا جا رہا ہے۔ 2014 میں، عمران خان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو سڑکوں پر چیلنج کر رہے تھے جبکہ اس وقت مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف) اور محمود خان اچکزئی پارلیمنٹ کی اہمیت اجاگر کرکے حکومت کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اب، کردار اس کے بالکل برعکس ہو چکے ہیں۔ ماضی میں پارلیمنٹ کی مرکزیت پر زور دے کر حکومت بچانے والے اب پارلیمنٹ کو مسترد کر رہے ہیں اور سٹریٹ پاور کے ذریعے حکومت تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں۔ وہ پارٹی جو 2014 میں سٹریٹ پاور کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنا چاہتی تھی اب خود کو بچانے کے لئے پارلیمنٹ پر انحصار کر رہی ہے۔ چونکہ اقتدار کے لئے یہ جدوجہد پارلیمنٹ کو نظر انداز کر رہی ہے‘ اس لئے غیر منتخب ریاستی اداروں اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کا کردار اہمیت اختیار کر جائے گا۔
سیاسی عمل میں پارلیمنٹ کے اپنی مرکزیت برقرار نہ رکھ سکنے اور تنازعات کے حل میں موثر کردار ادا نہ کر سکنے کی سب سے بڑی وجہ پاکستانی سیاست اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی قطبیت (پولرائزیشن) ہے۔ سب سے اہم بات یہ نہیں کہ کیا صحیح ہے بلکہ یہ ہے کہ میں کس سیاسی کھلاڑی کی حمایت کرتا ہوں۔ میرا پسندیدہ رہنما جو بھی کہے اس کی حمایت میرے لئے لازم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ سیاسی تصفیے کا ذریعہ بننے کے بجائے سیاسی تنازعات کا میدان بن چکی ہے۔
پی ڈی ایم میں شامل حزب اختلاف کی بیشتر جماعتیں عمران خان اور ان کی ناقص حکمرانی کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ ان جماعتوں کا خیال ہے کہ عام لوگوں کو خدمات کی ناقص فراہمی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ایسے معاملات ہیں‘ جو ان کیلئے عوامی حمایت کو متحرک کرنا ممکن بنا دیں گے اور یہ تحرک عوامی جلسوں کو ایک مستقل احتجاج میں تبدیل کر دے گا تاکہ عمران خان صاحب کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا جا سکے۔
ان سارے معاملات کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ پی ایم ایل این اور پی پی پی کا ایک اور ایجنڈا بھی ہے۔ وہ ایجنڈا احتساب کے امور سے نجات پانا ہے۔ دونوں کی قیادت کو عوامی عہدوں پر رہتے ہوئے مال بنانے اور منی لانڈرنگ کرنے کے مقدمات کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے حال ہی میں جانا کہ اسے عدالتی کارروائی سے بچانے کے لئے کہیں سے بھی ریلیف نہیں مل سکتا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما زبیر عمر اور آرمی چیف کے مابین حالیہ ملاقات نے یہ واضح کردیا کہ فوج عدالتی معاملات کے سلسلے میں ان کی مدد نہیں کرے گی۔ اس ملاقات کے بعد اور ان معاملات میں ریلیف ملنے کی امید باقی نہ رہے کے بعد ہی نواز شریف نے قومی اداروں کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ ایسا کرنے کے پس منظر میں بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ عوامی سطح پر تنقید سے ادارے ہراساں ہو جائیں گے اور اس سے نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ، پی ٹی آئی حکومت اور مقدمات کے خلاف کچھ بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے میں ملے گی۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی مقدمات کا سامنا ہے؛ تاہم اس کی قیادت محتاط انداز میں اپنے کارڈ کھیلتی ہے۔ یہ ابھی ''تمام کشتیاں جلانے‘‘ کے مرحلے پر نہیں پہنچی۔ یہ اسٹیبلشمنٹ پر تنقید میں محتاط ہے۔ مزید برآں موجودہ نظام میں اس کے کچھ سٹیکس بھی ہیں کیونکہ وہ صوبہ سندھ میں برسرِ اقتدار ہے۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ایک جونیئر پارٹنر کی حیثیت سے نتھی ہونے کے بجائے وہ اپنی آزادانہ سیاسی شناخت اور لیفٹ آف سینٹر آئیڈیالوجیکل پروفائل برقرار رکھنا چاہے گی۔ یہ کشمیر اور سلامتی کے خارجہ چیلنجوں پر اظہارِ تشویش بھی جاری رکھے گی۔
مولانا فضل الرحمن بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیان بازی میں مصروف ہیں۔ انہیں پاکستان کے اقتدار کے ڈھانچے سے مکمل طور پر خارج کر دیا گیا ہے؛ چنانچہ موجودہ سیاسی نظام میں ان کے کوئی سٹیکس نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ عمران خان صاحب اقتدار میں آنے سے پہلے اپنے عوامی جلسوں میں مولانا کے بارے منفی تبصرے کرتے رہے ہیں۔ اب مولانا پرانے کھاتے پورے کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ان کے پیروکاروں کی جانب سے اداروں پر تنقید انہیں وہ اہم حیثیت دلا دے گی کہ وہ بدستور ایک مضبوط سیاسی قوت ہیں‘ لہٰذا ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آنے کی ضرورت ہے اور یہ کہ ان کا احترام کیا جانا چاہئے۔ حزب اختلاف کی ان کوششوں نے وفاقی سطح پر اور دو صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت پر سیاسی دبائو ڈالا ہے؛ تاہم تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتوں‘ دونوں کو اپنے اپنے سیاسی ایجنڈے کے حصول کی آزادی ہے۔
اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں کہ سیاسی گفتگو پی ٹی آئی حکومت کی ناقص کارکردگی اور ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافے پر مرکوز رہے۔ وہ اپنے کچھ رہنمائوں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کو سیاسی طور پر نشانہ بنائے جانے کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت احتساب کے امور کو اجاگر رکھنے کے لئے اپنے وسائل کا استعمال کر رہی ہے اور یہ کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اور ناقص حکمرانی کے معاملات پر کوئی بھی توجہ نہیں دے رہا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے حکمرانی کے معاملات کو نظرانداز کرنے کو نان ایشو کے طور پر لیا جائے۔
ہمیں یہ دیکھنے کے لئے انتظار کرنا ہو گا کہ کس کے سیاسی بیانات پر عام لوگوں کی سطح پر زیادہ سنجیدگی کے ساتھ توجہ دی جاتی ہے۔ دونوں کو ٹی وی نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پر آنے والے تبصروں سے بالاتر اپنے معاملات پیش کرنے کے لئے سخت محنت کرنا پڑے گی۔ یہ واضح ہے کہ عوامی مذمت یا سٹریٹ ایجی ٹیشن کے ذریعے ریاستی اداروں کے کردار کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مقصد منتخب پارلیمنٹ کے کردار کو مستحکم کر کے اور اسی ادارے کے ذریعے ریاستی امور چلا کر اور تنازعات حل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ سیاسی رہنمائوں کو اپنے باہمی روابط کے لئے ضابطہ اخلاق وضع کرنا ہو گا، اپنی گفت و شنید میں تحمل اور جمہوری ثقافت کو رواج دینا ہو گا۔
حکومت پر پارلیمنٹ اور پارلیمانی روایات کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اور ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ اسے منڈی کی طاقتوں اور طاقتور معاشی گروہوں کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے جو قیمتوں کو بڑھانے کیلئے مارکیٹ میں ہیرا پھیری کر رہے ہیں جبکہ یہ عمل عوام کے لئے تکلیف کا باعث بن رہا ہے۔ مؤثر حکمرانی اور عوام کو ایک محفوظ سماجی و معاشی مستقبل کی امید دلانے سے نہ صرف تحریک انصاف کی حکومت محفوظ ہو گی بلکہ اس سے سول اداروں کو بھی استحکام ملے گا۔ اگر حکومت اور اپوزیشن اقتدار کیلئے بے قابو جدوجہد میں مصروف رہیں‘ تو دونوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔