"HAC" (space) message & send to 7575

فلسطینیوں کے دکھوں کا ذمہ دار کون ہے؟

فلسطین کا معاملہ ان دنوں پھر منظرعام پر ہے کیونکہ اسرائیل نے غزہ کے علاقے میں شہری آبادی کے خلاف ایک بار پھر بڑے فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ اسرائیل ہر چند سال بعد غزہ کے خلاف پُر تشدد کارروائی شروع کر دیتا ہے۔ بعض اوقات مغربی کنارے کے علاقے میں فوجی کارروائی کی جاتی ہے۔ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک اکثر خاموش رہتے ہیں‘ اسرائیل کو غزہ کے علاقے میں فوجی طاقت کا بے دریغ استعمال کرنے دیتے ہیں‘ اور کئی دنوں کی تباہی کے بعد ہی وہ فریقین کے مابین سیزفائر کا بندوبست کرنے کیلئے کام شروع کرتے ہیں۔ انہیں فلسطینیوں کو ہونے والے نقصانات کا کوئی افسوس نہیں ہوتا‘ نہ ہی وہ فلسطینی مسئلے کے حل کے لیے کوئی کوشش کرتے ہیں۔ اب غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائی کے بھی کچھ دن بعد رکنے کا امکان ہے‘ جب اسرائیلی سکیورٹی فورسز فلسطینیوں کو ہلاک اور ان کی املاک کو تباہ کر چکی ہوں گی۔
اس سال پُر تشدد کارروائیاں اس وقت شروع ہوئیں جب رمضان المبارک کے آخری ہفتے میں اسرائیل کی سکیورٹی فورسز نے عربوں کو مشرقی یروشلم سے بے دخل کرنے کیلئے کام شروع کیا تاکہ وہاں یہودیوں کیلئے مکانات تعمیر کئے جا سکیں۔ پھر یروشلم کی مسجد اقصیٰ میں رمضان کے آخری جمعۃ المبارک کی نماز کیلئے جمع ہونے والے فلسطینیوں اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں ہوئیں۔ اس کے نتیجے میں پُرانا تنازع پھر شدت اختیار کر گیا‘ جس میں اسرائیل نے طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا۔ اس کے بعد غزہ کے فلسطینیوں اور اسرائیلی فوج کے مابین طاقت کا استعمال ہوا۔ غزہ میں فلسطینیوں کے پاس پرانی طرز کے راکٹ تھے‘ جو انہوں نے اسرائیل پر فائر کئے۔ اگرچہ اسرائیل کے پاس اپنی سرزمین کے تحفظ کیلئے میزائل پروٹیکشن شیلڈ موجود ہے، لیکن غزہ سے چلائے گئے کچھ میزائل اس شیلڈ کو توڑنے میں کامیاب رہے۔ یہ کارروائیاں شروع ہونے کے بعد پہلے ہفتے میں میزائلوں سے آٹھ اسرائیلی ہلاک ہوئے۔ پہلے دن سے اسرائیل نے اپنی فضائیہ‘ خصوصاً اپنے جدید ترین میزائلوں کا استعمال غزہ میں سرکاری تنصیبات، شہری املاک اور پانی و بجلی کے وسائل کو نشانہ بنانے کے لیے کیا۔ غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں پہلے ہفتے میں 140 فلسطینی جاں بحق ہوئے۔ اسرائیل اپنی زمینی فوج کو غزہ کی سرحد پر لے آیا۔
''خود حفاظتی‘‘ کے نام پر فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے تنازع میں مغربی ممالک خاموش رہتے ہیں یا پھر اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا‘ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں‘ خاص طور پر ان کی شہری آبادی کو شدید مار پڑنے کے بعد وہ فلسطین کی سرزمین پر امن کی بحالی کے لیے اقدامات شروع کرتے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین جاری تنازع میں، اسرائیل کو واضح فوجی اور سیاسی برتری حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ فلسطینیوں کے خلاف اپنی جارحانہ پالیسیوں پر عمل کر سکتا ہے۔ بیشتر مغربی ممالک اور باقی دنیا میں فلسطینیوں کو گلی محلے کی سطح پر عام لوگوں کی حمایت اور ہمدردی حاصل ہے‘ لیکن یہ ہمدردی ان کی ریاستوں کی سرکاری پالیسیوں میں ظاہر نہیں ہوتی۔
فلسطینیوں کے خلاف اپنی جارحانہ اور پُرتشدد پالیسیوں پر عمل کرنے کی اسرائیل کی صلاحیت کی کیا وضاحت کی جا سکتی ہے‘ اور اس بات کی کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں کی پاسداری سے کیسے انکار کرتا ہے؟ ایک وقت تھا جب بین الاقوامی سطح پر دو ریاستی حل کو فلسطینی تنازع کو طے کرنے کیلئے ایک قابل اعتبار آپشن کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اب، اس طرح کے حل کے امکانات تقریباً صفر ہو چکے ہیں۔ نہ تو اسرائیل اور نہ ہی امریکہ اس مسئلے کے بارے میں‘ وقتاً فوقتاً بیانات سے آگے بڑھ کر‘ کچھ کرنے میں سنجیدہ ہے۔ اسرائیل نے یہودیوں کو وہاں آباد کرنے کے لئے مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر حقیقتاً قبضہ کر لیا ہے۔ اس کے نتیجے میں، مغربی کنارے کا اب کوئی مربوط علاقائی وجود نہیں رہا۔
اگر آپ خلیجی خطے اور مشرق وسطیٰ، بشمول پاکستان‘ افغانستان‘ اور وسطی ایشیا کے علاوہ افریقہ کی عربی بولنے والے مسلم ریاستوں کے نقشوں کا جائزہ لیں تو اسرائیل ان میں گھرا ہوا ایک چھوٹا سا نقطہ دکھائی دیتا ہے‘ لیکن فوجی طاقت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے معاملے میں آپریشنل سطح پر یہ ان مسلم ریاستوں سے زیادہ طاقتور ہے۔ اسے امریکہ اور مغربی‘ یورپی ریاستوں کی بھی پوری حمایت حاصل ہے۔ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں‘ جنہیں علم و ٹیکنالوجی کی پوری طاقت حاصل ہے‘ کے متفقہ اور یکسو نقطہ نظر نے اسرائیل کیلئے ممکن بنایا کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف جارحانہ اور پُرتشدد پالیسی پر عمل پیرا ہو سکے۔ دوسری طرف اسرائیل فلسطین تنازع پر مسلم ریاستیں منقسم ہیں اور ان میں تقریریں کرنے اور بیانات داغنے سے بالاتر متفقہ اور متعینہ نقطہ نظر کا فقدان ہے۔ آپریشنل سطح پر، فلسطینیوں سمیت تمام مسلمان، اس تنازع پر قیادت کے اتفاق اور ڈائریکشن کے فقدان کا شکار ہیں۔
پھر فلسطینی اسرائیل پر اپنے نقطہ نظر کے حوالے سے2007 سے دو گروہوں میں منقسم ہیں۔ الفتح تنظیم مغربی کنارے کے علاقے کو کنٹرول کرتی ہے‘ جسے فلسطینی حکومت تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس نے اب اسرائیل کیساتھ مسائل کے حل کیلئے اعتدال کی پالیسی اپنا لی ہے، لیکن وہ ایک آزاد فلسطین کے قیام کے موقف پر قائم ہے۔ غزہ میں حماس تنظیم کا کنٹرول ہے جو اسرائیل کے خلاف محاذ آرائی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ غزہ کے علاقے اور مغربی کنارے کے علاقے کا آپس میں کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے۔ اسرائیل کا علاقہ انہیں ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔ اسرائیل غزہ کے زمینی اور سمندری راستوں کو تین اطراف سے کنٹرول کرتا ہے۔ ایک طرف غزہ کا علاقہ مصر کے ساتھ لگتا ہے‘ جسے مصر وقتاً فوقتاً بند کرتا رہتا ہے۔ بعض اوقات فلسطینی مصر سے خوراک و اسلحہ سمگل کرنے کیلئے خفیہ زیر زمین راستے استعمال کرتے ہیں۔ غزہ کا مغربی کنارے تک رسائی اور سفر کیلئے اسرائیل پر انحصار فلسطینیوں کی ایک بڑی معذوری بلکہ کمزوری ہے۔ حماس اور الفتح کو مشترکہ ایجنڈے پر اکٹھا کرنے کے لیے متعدد کوششیں کی گئیں، لیکن ان کے اختلافات برقرار رہے۔ ان اختلافات نے فلسطینیوں کو کمزور کر دیا ہے اور دونوں کو داخلی سطح پر معاشی اور انتظامی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسرائیل سے نمٹنے کے طریقہ کار پر عرب دنیا منقسم ہے۔ مصر پہلا عرب ملک تھا جس نے 1978-79ء میں اسرائیل کے ساتھ پُرامن تعلقات کا انتخاب کیا تھا، اس کے بعد اردن نے۔ حال ہی میں متحدہ عرب امارات‘ بحرین اور سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لیے۔ سعودی عرب اگرچہ فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے‘ لیکن وہ اسرائیل کے ساتھ محاذ آرائی کی پالیسی کی حمایت نہیں کرتا ہے۔ ایران اسرائیل کے خلاف سخت گیر روش کے حوالے سے حماس اور حزب اللہ (لبنان) کی تحریک کی حمایت کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عرب ریاستیں اتنے عزم کے ساتھ فلسطینیوں کی پشت پناہی کیلئے اپنے وسائل کو اکٹھا اور پالیسیوں پر اس طرح متفق نہیں ہو سکتیں جس طرح امریکہ اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔ عرب ریاستیں فلسطینیوں کے حق میں بیانات جاری کرنے میں زیادہ واضح ہیں، لیکن اسرائیل کے ساتھ کس طرح نمٹنا ہے‘ اس بارے میں ان میں اتفاق نہیں ہے۔ وہ خلیجی ریاستیں جنہوں نے کچھ ماہ قبل اسرائیل کو تسلیم کیا تھا‘ اسرائیل کی سفاکانہ پالیسیوں کو معتدل بنانے میں بے بس نظر آتی ہیں۔ عرب ریاستیں بھی فلسطین کے مسئلے کے مساویانہ اور منصفانہ حل کے تناظر میں مشرق وسطیٰ میں امریکی اور مغربی معاشی مفاد کو چیلنج کرنے سے قاصر ہیں۔ حماس اور الفتح‘ دونوں تنظیمیں اپنی جدوجہد سے فلسطین کے مسئلے کو زندہ رکھ سکتی ہیں، لیکن انکی کامیابی کے امکانات بنیادی طور پر اسرائیل سے نمٹنے کی حکمت عملی پر عرب دنیا کے اختلافات کی وجہ سے معدوم ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں