"HAC" (space) message & send to 7575

پاکستان اور امریکہ افغانستان پر متفق ہو سکتے ہیں؟

پاکستان کے دو اعلیٰ حکام، قومی سلامتی کے مشیر اور ڈی جی آئی ایس آئی ، امریکہ کے الگ الگ دوروں پر ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کے آنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان سے اتنے اعلیٰ سطحی دورے ہوئے ہیں۔ اس سے قبل دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام کے درمیان ایک محدود رابطہ ہوا تھا، لیکن بائیڈن انتظامیہ کے کسی سینئر امریکی عہدیدار نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔ واحد استثنا ایمبیسیڈر زلمے خلیل زاد ہیں جو‘ جو بائیڈن کے صدارت سنبھالنے کے بعد دو بار پاکستان آئے۔ امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے جون کے پہلے ہفتے میں خاموشی سے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا پاکستان کے سکیورٹی حکام کا دورہ‘ افغانستان میں اور اس کے گردونواح کے سکیورٹی امور پر امریکہ کے ساتھ اعتماد اور تعاون کے تعلق کے لیے راہ ہموار کر سکے گا۔ دونوں کے عالمی نقطہ نظر میں اتنا زیادہ فرق ہے کہ ایک مکمل طور پر فعال اور تعاون پر مبنی تعلق کو فروغ دینا آسان کام نہ ہوگا۔ تاہم، دونوں ملک اپنے تعلقات میں خرابی پیدا نہیں کرنا چاہتے کیونکہ دونوں جانتے ہیں کہ تعاون باہمی طور پر مفید ہے۔
پاکستان موجودہ امریکی پالیسی کیلئے ایک محدود مطابقت رکھتا ہے۔ باہمی مفادات کے مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعلقات کے علاوہ پاکستان افغانستان میں امریکی ایجنڈے سے متعلقہ دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات کو آسان بنائے اورامریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان کے داخلی امن و استحکام کیلئے کردار ادا کرے۔ پاکستان سے توقع کی جاتی ہے کہ انفرادی سطح پر اقدامات کرے گا اور افغان طالبان اور کابل حکومت کے مابین ایک جامع سیاسی تصفیے کو یقینی بنانے کے لیے خطے کی ریاستوں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
اگر ہم اس تعلق کا بائیڈن انتظامیہ کے بھارت کے ساتھ تعلق سے موازنہ کریں تو اہداف کا اشتراک وسیع تر ایشیائی تناظر میں ہے۔ امریکہ چاہے گا کہ بھارت افغانستان کی معاشی تعمیرنو اور کابل حکومت کی مدد کیلئے وہاں مصروف رہے تاہم، یہ تعلق افغانستان سے آگے بھی جاتا ہے۔ بھارت عالمی سطح پر چین کے اثرورسوخ اور کردار کو محدود رکھنے کے امریکی ایجنڈے سے براہ راست متعلق ہے۔ یہ تعلق بھارت کو ایشیا پیسیفک اور سائوتھ چائنا سی کے علاقے میں امریکی پالیسی سے جوڑتا ہے۔ اس لیے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا دائرہ محدود رہے گا، کچھ دوطرفہ سیاسی، سماجی اور معاشی معاملات اور افغانستان میں داخلی ہم آہنگی اور امن کے ایشوز سے مشروط۔ امریکہ چین مخاصمت‘ پاک امریکہ تعلقات کی راہ میں ایک اور رکاوٹ ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ذریعے عالمی اقتصادی رابطے کے چین کے ایجنڈے پر امریکہ کے شدید تحفظات ہیں‘ لیکن پاکستان اسے اپنی معاشی اور معاشرتی ترقی اور علاقائی رابطے کیلئے اہم سمجھتا ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے مابین ہموار اور مکمل تعاون پر مبنی تعلقات کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ اول: روایتی طور پر امریکہ نے اپنی افغانستان پالیسی کا یکطرفہ فیصلہ کیا اور توقع کی کہ پاکستان افغانستان کے بارے میں اپنی پالیسیوں کی واشنگٹن میں کیے گئے فیصلوں کے مطابق تشکیل کرے گا۔ اس حوالے سے پاکستان ہمیشہ امریکی توقعات پر پورا نہیں اترا۔ دوم: امریکہ کے سرکاری حلقوں اور تھنک ٹینکس میں لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد 1990 کی دہائی‘ اور اکیسویں صدی کے آغاز کی پاکستان کی طالبان نواز پالیسیوں پہ اپنی سوچ کو منجمد کر چکی ہے۔ 2014 سے 2018 کے دوران قبائلی علاقوں میں اور سرزمینِ پاکستان پر دہشتگردی کے خلاف براہ راست جنگ میں ہونے والے تلخ تجربے کی روشنی میں پاکستان کی فوجی اور انٹیلیجنس اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں جو تبدیلیاں آئی ہیں‘ ان میں سے بیشتر ان کو سراہنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان کے بیشتر سینئر اور درمیانے درجے کے افسران اور سپاہیوں نے ان برسوں کے دوران انسداد دہشتگردی کے فرائض سرانجام دیے اور وہ دہشتگرد گروہوں کے غیرانسانی اور سفاکانہ مزاج کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ اب ان کیلئے خیرسگالی کا جذبہ نہیں رکھتے جیساکہ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں تھا۔ پاکستان اپنی موجودہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں تبدیلی کو اجاگر کرنے سے قاصر رہا ہے۔
سوم: افغان طالبان پر پاکستان کے اثرورسوخ میں کمی آئی ہے کیونکہ دوحہ، قطر میں ہونے والی پیشرفت ان کی سرگرمیوں کیلئے نئی بنیاد ہے‘ افغان طالبان اب پاکستان پر انحصار نہیں کررہے ہیں جیسا کہ 1990-2010 کے دوران تھا۔ امریکہ، روس اور چین کے ساتھ ان کی براہ راست بات چیت نے انہیں خود اعتمادی دی ہے۔ اب امریکہ اور نیٹو کے انخلا کے فیصلے نے طالبان کو زیادہ اعتماد کا احساس دلایا ہے۔ چہارم: جوں جوںطالبان اپنا کنٹرول بڑھا رہے ہیں، کابل میں اعلیٰ حکام‘ بشمول صدر، نائب صدر اور قومی سلامتی کے مشیرپاکستان کے خلاف مخاصمانہ پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔ افغان حکومت کے اس رویے نے پاکستان کا افغان امن عمل کے حوالے سے جوش کم کر دیا ہے۔ اس صورتحال نے پاکستان میں طالبان کے حامی گروپوں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ طالبان کیلئے سرگرم رہیں اور حکومت پاکستان سے کہیں کہ وہ کابل حکومت کے خلاف سخت موقف اختیار کرے۔پنجم: امریکہ پاکستان سے توقع کرتا ہے کہ وہ افغانستان میں اورآس پڑوس کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کو امریکی ترجیحات کے مطابق آگے بڑھائے‘ لیکن امریکہ بھارتی اور افغان حکومت کی پالیسیوں سے پیدا ہونے والے پاکستان کے سکیورٹی خدشات پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ پاکستان کے خدشات کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہر سطح پر امریکی پالیسی کیلئے حمایت کم ہو چکی ہے۔
کابل حکومت پاکستان کے خلاف اپنا پروپیگنڈا جاری رکھے ہوئے ہے اور وہ افغانستان میں روپوش تحریک طالبان پاکستان کی پاکستان کے اندر تشدد کے سلسلے میں حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ امریکہ ان پاکستانی خدشات کو مسترد کررہا ہے۔ اس نے کبھی کابل حکومت کو ہدایت نہیں کی کہ وہ پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے سفارتی آداب کو ملحوظ رکھے۔ اسی طرح پاکستان اور بھارت کے مابین بھی سنگین مسائل ہیں۔ پاکستان بھارت پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا جنگ جاری رکھے ہوئے ہے‘ اور یہ کہ وہ پاکستانی طالبان اور دیگر مخالفین کو پاکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کے سلسلے میں سپورٹ کرتا ہے۔ امریکہ پاکستان کے بارے میں بھارت کے مخاصمت کو روکنے کیلئے کوئی ٹھوس اقدام کرنے کو تیار نہیں۔ اگر پاکستان نے افغان اور بھارتی دباؤ کا مقابلہ اکیلے ہی کرنا ہے تو وہ افغانستان کے بارے میں امریکی مشورے کو اسی صورت میں قبول کرے گا جب وہ پاکستان کے خدشات سے مطابقت رکھتا ہو گا۔ یہ خدشات ہی طالبان کے خلاف آپریشنز کیلئے امریکہ کو پاکستانی سرزمین یا فضائی حدود کی فراہمی کے بارے میں پالیسی کی تشکیل کریں گے۔ پاکستان کے دیگر خدشات یہ ہیں: افغانستان سے نئے پناہ گزینوں کی آمد، افغانستان میں خانہ جنگی کا پاکستانی سرزمین تک ممکنہ پھیلائو، افغانستان میں جنگ سے بچنے کیلئے افغان سکیورٹی فورسز کی پاکستان آمد اور سب سے بڑھ کر یہ کہ افغانستان میں خانہ جنگی کا اس خطے اور دوسرے خطوں سے ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے والے ممالک کیلئے پراکسی جنگ میں تبدیل ہونا۔ افغانستان سے امریکی انخلا نے پہلے سے مشکلات کے شکار پاک امریکہ تعلقات میں نئی پیچیدگیاں شامل کردی ہیں۔ اگر امریکہ پاکستان کی افغان پالیسی پر عدم اعتماد کرتا ہے تو پاکستان کو بھی افغانستان کے اندر‘ اس کے اردگرد اور جنوبی ایشیا میں امریکی ایجنڈے کے بارے میں تحفظات ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں