"HAC" (space) message & send to 7575

معاشی مسائل اور ان کے حل

پاکستان کو متعدد معاشی مسائل کا سامنا ہے جن کی وجہ سے خارجہ پالیسی کو خود مختارانہ طریقے سے آگے بڑھانا مشکل ہو چکا ہے۔ اس سے داخلی سماجی و معاشی عدم مساوات بڑھی اور لوگوں میں مایوسی پھیلی۔ معیشت کے دو باہمی طور پر وابستہ پہلوؤں نے پاکستان کی معاشی بدحالی کو تیز تر کردیا ہے۔ بیرونی مالیاتی ذرائع پر انحصار بہت زیادہ ہے‘ جیسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور مختلف ممالک سے انفرادی قرضے، بین الاقوامی مارکیٹ میں بانڈز فلوٹنگ، مالی امداد اور بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر۔ قومی معیشت اتنے وسائل پیدا نہیں کرتی کہ بیرونی ذرائع پر پاکستان کے انحصار کو کم کیا جا سکے۔ دوسرا پہلو لوگوں کے مسائل سے متعلق ہے۔ آپریشنل سطح پر معیشت نے عوام کے معاشی مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ انسانی و معاشرتی ترقی کیلئے وسائل کے ناقص اختصاص کی روایت بھی ایک وجہ ہے۔
موجودہ معاشی چیلنج جو عام آدمی کو پریشان رکھتا ہے‘ تمام ضروری اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مارکیٹ فورسز کو یوٹیلٹیز‘ خصوصی طورپر ایندھن اور بجلی کی قیمتوں کی آڑ میں من مرضی سے قیمتیں بڑھانے کی مکمل آزادی ہے۔ عام سرکاری وضاحت یہ ہوتی ہے کہ ایندھن، پام آئل اور دیگر اشیا‘ جو درآمد کی جاتی ہیں‘ کی مقامی قیمتیں بین الاقوامی منڈیوں میں ان چیزوں کی قیمتوں پر مبنی ہوتی ہیں‘ جہاں یہ مصنوعات مہنگی ہو چکی ہیں۔ دوسری دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ ایندھن اور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیا پاکستان میں پڑوسی ملکوں کے مقابلے میں اب بھی سستی ہیں۔ ان دلائل میں کچھ سچائی ہے‘ تاہم کسی ملک کی سیاست کیلئے جو چیز سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ دوسرے ممالک کی قیمتوں کی فہرستیں نہیں بلکہ قیمتوں میں اضافے کے اکثریتی آبادی پر سماجی و معاشی اثرات ہیں۔ یہ کہ آیا معاشی تفاوت بڑھا ہے یا لوگوں کے پاس قیمتوں میں اضافے کو جذب کرنے کی مالی صلاحیت ہے؟ پاکستان جیسے ملک میں جہاں معاشی ناہمواری پہلے ہی بہت زیادہ ہے‘ قیمتوں میں اضافے نے اس عدم مساوات کو بڑھا دیا ہے۔ قیمتوں میں اضافے کے تناسب سے لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ نہیں ہوا‘ جس سے ملک میں غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ کووڈ19 کے پھیلائو اور صنعت کے وسعت اختیار نہ کرنے نے روزگار کے مواقع کم کردیئے ہیں۔ مختلف حکومتی فلاحی منصوبوں‘ جیسے احساس پروگرام اور قرضوں یا مراعات کے حصول کیلئے مختلف کارڈوں نے آبادی کے ایک حصے کو کچھ ریلیف فراہم کیا ہے، لیکن عام لوگوں کو جس مجموعی معاشی بحران کا سامنا ہے‘ یہ اس کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ غیرسرکاری سطح پر کچھ فلاحی سرگرمیوں نے آبادی کے غریب طبقے کو کچھ ریلیف فراہم کیا ہے‘ تاہم سرکاری اور غیرسرکاری خیراتوں پر انحصار کرنے والی معیشت‘ قابل اعتماد معیشت نہیں ہو سکتی۔ روزگار کے مواقع بڑھانے اور نجی شعبے کے کاروبار اور صنعتی سرگرمیوں کیلئے ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔
عام لوگوں کیلئے معیشت کو بہتر بنانے کے کئی طریقے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مارکیٹ فورسز کو فی الوقت حاصل مکمل آزادی کو کم کرنے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ان فورسز میں کمرشل اشرافیہ، خاص طور پر مڈل مین اور بڑے کاروباروں کی تنظیمیں شامل ہیں جو قیمتوں اور مارکیٹ میں سامان کی فراہمی کو کنٹرول کرتی ہیں۔ اسی طرح مارکیٹ کمیٹیاں‘ جو بااثر کاروباری افراد پر مشتمل ہیں، قیمتوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ انہیں اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھانے کی آزادی نہیں دی جانی چاہئے۔ اسی طرح کچھ تھوک فروش اور خوردہ فروش روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں اور بہانہ یہ بناتے ہیں کہ قیمتیں ان لوگوں نے بڑھائی ہیں جو انہیں یہ سامان سپلائی کرتے ہیں۔ صارفین کے پاس ان کے بیان کی سچائی کو چیک کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مارکیٹ فورسز قیمتوں میں اضافے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں کیونکہ سب کا مقصد منافع کمانا ہوتا ہے۔
مارکیٹ میں انارکی جیسی صورتحال معاشی اور مارکیٹ باسز کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ آپ ان کی پیش کردہ قیمت پر سامان اور خدمات خریدتے ہیں یا سامان خریدے بغیر واپس آ جاتے ہیں۔ صارفین کو حکومت نے مارکیٹ فورسز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ مارکیٹ کی اس صورتحال سے دو سطحوں پر نمٹا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے حکمرانوں کو کاروباری و تجارتی اشرافیہ اور ان کی تنظیموں بشمول مارکیٹ کمیٹیوں کو قیمتوں کی معقولیت کے حوالے سے انگیج کرنا چاہیے۔ انہیں قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کے لیے منظم طریقے سے کام کرنا چاہئے اور یقینی بنانا چاہئے کہ طے شدہ قیمتوں پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔
دوسرا، ضلعی انتظامیہ سے کہا جائے کہ وہ کسان سے لے کر مڈل مین اور مارکیٹ تک سامان کی نقل و حرکت کی نگرانی کرے اور اس بات کی کہ سامان کی نقل و حرکت کے مختلف مراحل میں قیمتیں کس طرح بڑھتی ہیں۔ مقامی بیوروکریٹس کو بھی چاہیے کہ مارکیٹ میں اشیا کی فروخت کی نگرانی کریں تاکہ سرکاری طور پر منظور شدہ قیمتوں پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔ دکانداروں سے کہا جائے کہ وہ دکان کے باہر قیمتوں کے چارٹ آویزاں کریں۔ ضرورت پڑنے پر قیمتوں اور منڈیوں کے انتظام کیلئے متعلقہ قوانین کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ کاروباری لوگ اکثر دھمکی دیتے ہیں کہ اگر قوانین پر سختی سے عملدرآمد کیا گیا تو وہ ہڑتال کرکے اپنی دکانیں بند کردیں گے۔ ایسی صورتحال مقامی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کیلئے امتحان بنتی ہے کہ وہ مشاورت اور قوانین کے نفاذ کو ملا کر ان مسائل سے کیسے نمٹتی ہیں۔ حکومت کو مارکیٹوں سے دور رہنے کی اپنی پالیسی ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے مارکیٹ کے معاملات میں مداخلت کرنی چاہیے۔
پاکستان کے معاشی مسئلے کی جڑیں معاشی بدانتظامی کی طویل تاریخ، بیرونی ذرائع پر بھاری انحصار کی عادت اور پاکستان کے حکمران طبقات کی جانب سے بدعنوانی اور بدانتظامی میں پیوست ہیں۔ اس طرح کی پالیسیاں ماضی میں تمام حکومتوں نے اپنائیں‘ لہٰذا ماضی میں جو سیاسی جماعتیں برسرِ اقتدار رہیں‘ انہیں ان مسائل کی ذمہ داری بھی قبول کرنی چاہئے۔
مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے اگر حکومت اور بڑی اپوزیشن جماعتیں جیسے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بڑے معاشی مسائل کے حل کیلئے کم سے کم سطح پراتفاق رائے پیدا کرلیں۔ اگر حکومت اور اپوزیشن تعاون کریں تو مارکیٹ فورسز سے نمٹنا آسان ہوگا‘ لیکن ان کے تعلقات اس قدر کشیدہ ہیں کہ وہ عام لوگوں کے معاشی مسائل کم کرنے کیلئے بھی مل کر کام نہیں کرنا چاہتیں۔ اپوزیشن اس بات پہ خوش ہے کہ عام لوگوں کو بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس سے اسے حکومت پر تنقید کا موقع مل جاتا ہے اور اس کیلئے ایک امید پیدا ہوتی ہے کہ وہ عوام سے ان کے تمام معاشی مسائل حل کرنے کا وعدہ کرکے الیکشن جیت سکتی ہے۔
بڑی سیاسی جماعتوں کو ادراک ہونا چاہیے کہ کوئی جماعت‘ اکیلے معاشی مسائل حل نہیں کرسکتی۔ انہیں معیشت پر مل کر کام کرنا ہوگا‘ ورنہ 2023 کے بعد بننے والی حکومت کو بھی موجودہ حکومت کی طرح معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں