پاکستان کی سیاست جتنی آج کل بحرانوں کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے پہلے کبھی نہ تھی۔یہ بحران حکومت اور اپوزیشن دونوں کے پیدا کردہ ہیں۔حکومت اس وقت عوام اور معاشرے کے لیے بحران پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے جب اس کی گورننس ناقص ہوتی ہے‘ فیصلہ سازی کا عمل سست رفتار ہوتا ہے یا وہ اہم انتظامی‘سیاسی اور مفادِ عامہ کے امور پر فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔
فیصلہ ساز ی میں سست روی کی تازہ ترین مثال دو عسکری عہدوں پر تقرری کے مرحلے میں واضح ہوا جس نے بہت سے سیاسی رہنمائوں اور سیاسی تجزیہ کاروں کو قیاس آرائیوں کا موقع فراہم کیا۔یہ محض پی ٹی آئی کے لیڈر ہی نہیں تھے جنہوں نے متنازع بیانات جاری کیے کئی وفاقی وزرا اور مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں نے بھی ایسے بیانات دیے جن سے بے یقینی میں اضافہ ہوا۔اچھا ہوا کہ وزیر اعظم اور صدر پاکستان نے 24نومبر2022 ء کو یہ معاملہ خوش آئند طریقے سے نمٹا دیا۔
اپوزیشن نے بھی سڑکوں پر احتجاج‘سیاسی فیصلے کے لیے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور دھرنوں کے ذریعے شہری زندگی کو معطل کرنے جیسے اقدامات سے بحران پیدا کیا۔ماضی میں بھی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے جماعتی ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے لانگ مارچ کیے اور دھرنے دیے ہیں۔اب پی ٹی آئی بھی اسی حکمت عملی پر عمل کررہی ہے۔
آج کل اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف ناشائستہ اور غیر مہذب زبان استعمال کرکے یا اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف متنازع بیانات دے کر سیاست میں بے یقینی اور کشیدگی پید اکی جا رہی ہے۔اپنے متحارب سیاسی رہنمائوں کے خلاف جارحانہ بیان بازی آج کی پاکستانی سیاست کاعمومی چلن ہے۔سیاسی رہنما عام آدمی کے مسائل کے حل کے لیے شاید ہی کبھی آپس میں مکالمہ کرتے نظر آئیں۔وہ ہر وقت اقتدار کے حصول کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔
بحران زدہ سیاست ہی ناقص معیارِجمہوریت کاثبوت ہے۔اگرچہ سیاستدان جمہوری اصولوں اور آدرشوں کا دم بھرنے کے علاوہ جمہوریت اور نمائندہ حکومت کے حق میں نعرے بازی کرتے نظر آتے ہیں تاہم ان کے حقیقی سیاسی رویو ں سے کبھی جمہوری اقدارکی پاسداری کی جھلک بھی نظر نہیں آتی اور ان کی سیاست اکثر تحمل و برداشت‘باہمی مشاورت‘رواداری‘ تنازعات کے خوش آئند حل اور منصفانہ اور آزادانہ انتخابات جیسی جمہوری اقدار سے عاری نظر آتی ہے۔ سیاسی اختلافات باہمی نفرت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جس سے جمہوریت کی روح او راصولوں کی نفی ہوتی ہے۔
سیاسی اور سماجی تنازعات ایسی ریاستوں میں جنم لیتے ہیں جہاں قانون کی حکمرانی کمزور ہوتی ہے یا سرے سے اس کاوجود ہی نہیں ہوتا۔متمول اور بارسوخ افراد قانون سے بالا تر ہوتے ہیں اور ایسی ریاست بااثر لوگوںپرریاستی قوانین اور احکامات نافذ کرنے سے قاصر ہوتی ہے یا آمادہ ہی نہیں ہوتی۔ عام آدمی کوریاستی مشینری کا قہر وغضب برداشت کرناپڑتا ہے جو عام شہریوں کو دبانے کے لیے جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے۔ خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے والے افراد کے حالات زیادہ دگرگوں ہوتے ہیں۔ ریاست ان کا تحفظ نہیں کرتی؛ چنانچہ انہیں ریاستی جبر یا طاقتور گینگز یا ریاست کے مافیا گروپس سے تحفظ کے لیے مجبوراًبااثر اور متمول افراد کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
داخلی سیاسی اور سماجی بدنظمی اور انتشار کی ایک اور بڑی وجہ اچھی گورننس کا فقدان ہے۔اگر حکومت اپنے اقدامات کو یکجا نہیں کرسکتی‘ ریاستی امورسے مؤثر انداز میں نبردآزماہونے میں ناکام رہتی ہے تو ایسی سوسائٹی میں امن وامان‘حکومتی رِٹ اور استحکام برقرار رکھنے کی صلاحیت شدیدمتاثر ہوتی ہے۔ ایسی ریاستیں اکثر ایک غیر مؤثر اور ناپائیدارسیاسی اکائی میں بدل جاتی ہیں یوں وہ اپنے عوام اور سرزمین پرریاستی کنٹرول برقرار رکھنے سے قاصر ہوجاتی ہیں۔اگر یہ ریاستیں اپنے شہریوںکو بنیادی خدمات اور ذاتی تحفظ ہی فراہم نہ کرسکیںتو انہیں ناکام یا ناکام ہوتی ہوئی ریاستوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حکومت میں پائی جانے والی کرپشن ہمیشہ بری گورننس کو جنم دیتی ہے۔ ریاستی ڈھانچے میں اہم عہدوں پر فائز سرکاری حکام اور سیاسی رہنما اپنے منصب کو ذاتی اور مالی منفعت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایسی ریاستوں میں کوئی بھی کام کسی تگڑی سفارش یا رشوت کی ادائیگی کے بغیر نہیںہوسکتا جو دراصل کرپشن کی ہی دوسری شکل ہوتی ہے۔ کئی بڑے کاروباری لوگ عملی طورپر سرکاری حکام یا سیاسی رہنمائوں کو رقوم کی مستقل ادائیگی کے ذریعے خرید لیتے ہیں تاکہ انہیں اپنے بزنس امور آسانی سے نمٹانے میں حکومتی نوازشات میسر رہیں۔ جن ریاستوں میں قانون کی حکمرانی نہیںہوتی یا اس کی گرفت کمزور ہوتی ہے وہاںکا عمومی چلن یہ ہوتا ہے کہ ریاست کے مالیاتی وسائل کا ذاتی منفعت کے لیے یا اپنے فیملی ممبرز اور دوستوں کو نوازنے کے لیے غلط استعمال کیا جاتا ہے۔مالی مفادات کے حصول کے لیے سرکاری تعمیراتی پراجیکٹس اور سرکاری محکموںکو اشیا اور سروسز کی فراہمی کے بڑے بڑے ٹھیکے من پسند افراد کو دیے جاتے ہیں۔
ایسی ریاستو ں کی ایک اور نمایاں شناخت یہ ہوتی ہے کہ طاقتور بیوروکریٹس‘ملٹری اور سویلین اشرافیہ اور بڑے کاروباری لوگ جو غیر قانونی ذرائع سے دولت کماتے ہیں غیر قانونی حربوں کی مددسے اپنا سرمایہ بیرون ملک رکھتے ہیں۔وہ بیرون ملک جائیدادیں خریدتے ہیں یا اپنی دولت غیر ملکی بینکوں میں رکھتے ہیں یا آف شور کمپنیوں کے ذریعے وہاں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔بحرانوں اور کرپشن کے مارے ممالک میں ایک دلچسپ طریقۂ واردات یہ بھی ہے کہ بالادست اشرافیہ‘متمول افراد اور افسر اپنے بیٹوں کو مغربی ممالک میں سیٹل کرادیتے ہیں۔ اس طرح انہیں اپنی ' اوپر کی کمائی‘ وہاں منتقل کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور اگر انہیں کبھی قانونی یا انتظامی مشکلات کا سامنا کرنا پڑجائے تو انہیں ایک محفوظ ٹھکانہ بھی میسر ہو تا ہے۔
بحران زدہ ممالک میں ایک اور بات بھی دیکھنے کو ملتی ہے وہ یہ کہ سیاسی جماعتیں سیاسی رہنمائوں اور ان کے خاندانوں کی ذاتی جاگیر نظر آتی ہیں۔پارٹی کے اندر جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی؛ چنانچہ پارٹی اراکین اپنے لیڈر کا احتساب نہیں کرسکتے۔پیشہ ورانہ اہلیت اور جمہوری اقدار کے بجائے لیڈر کے ساتھ وفاداری زیادہ اہم شرط ہوتی ہے۔ پارٹی کے اعلیٰ سطحی اجلاس محض لیڈر کی مدح سرائی کی نذر ہو جاتے ہیں؛چنانچہ ایسی سیاسی جماعت کی بحران سے نبرد آزماہونے کی صلاحیت کمپرومائز ہو جاتی ہے۔
جب تک سیاسی کھلاڑی اور جماعتیں پاکستانی سیاست کی ماہیت کو تبدیل کرنے کا فیصلہ نہیں کرتیںاس وقت تک پاکستان میں استحکام آسکتا ہے نہ بحرانوں سے نمٹا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہاں کوئی مربوط اور ساز گار سیاسی نظام پروان چڑھ سکتا ہے۔ہماری اولین ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ روزمرہ سیاسی امور میں جمہوریت کے اصول کی اس کی حقیقی روح کے مطابق پاسداری کی جائے۔ سیاست کو شائستگی اور باہمی احترام کا آئینہ دار ہونا چاہئے اورملکی مسائل کے حل میں رواداری اور مکالمے کو بروئے کار لایا جائے۔مختلف سیاسی جماعتوں میں مسابقتی عمل جاری رہنا چاہئے مگر قومی اہمیت کے حامل امور پر انہیں مشترکہ اپروچ اپنانے کی ضرورت ہے۔تعاون پر مبنی رویے سے ہی ملک کے معاشی مسائل سے مؤثر انداز میں نمٹا جا سکتا ہے اور عام آدمی کی فلاح و بہبود پر توجہ دی جا سکتی ہے۔