اصول کی حد تک سیاست کا حقیقی مقصد پیچیدہ سیاسی‘ معاشی اور سماجی مسائل کا کوئی عملی حل وضع کرنا ہوتا ہے۔ سیاست کا واحد مقصد عوام کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانا اور ایک بہتر مستقبل کی امید دلانا ہوتا ہے۔ حکومت عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے اور ملکی وسائل انسانی فلاح و بہبود اور سماجی ترقی پر خرچ کرنے کیلئے کام کرتی ہے۔ انہی خطوط پر کام کرنے والی سیاست نہ صرف ایک مقدس پیشہ بن جاتی ہے بلکہ وہ ریاست‘ حکمران اشرافیہ اور عوام کے باہمی تعلق کو بھی مضبوط کرتی ہے۔ وہ سب مل کر ایک ہی سمت میں کام کرتے ہیں اور عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا مستقبل ریاست‘ اس کے اداروں اور ان کے طریقہ ہائے کار کے ساتھ ایک مضبوط پہچان اور تعلق برقرار رکھنے سے وابستہ ہے۔ بدقسمتی سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان کی سیاست متذکرہ بالا خطوط پر کام کرتی ہے۔ یہ سماج اور عوام کی خدمت کے تصور سے نابلد ہے۔ پاکستانی سیاست مقتدر اور متمول افراد کے مابین اَنا پرستی پر مبنی اقتدار کی ایک وحشیانہ جنگ بن گئی ہے اور یہ لوگ اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات سے پرے دیکھنے کیلئے تیار ہی نہیں۔یہ ایک محدود سا تصور اور تناظر ہے جس کا مقصد فوری ذاتی مفادا ت کا حصول ہوتا ہے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ بہر صورت اور ہر ممکن طریقے سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر تلی ہوئی ہے۔ اگر آئین یا قانون انہیں اپنے فوری ذاتی ایجنڈا کی تکمیل میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں تو وہ ان کی پیروی کر لیتے ہیں؛ تاہم اگر آئین یا قانون ان کے سیاسی ایجنڈے سے متصادم نظر آئے تو وہ اسے روند کر گزر جانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک اخلاقیات‘ قانون یا آئین پسندی کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ یہ بات اہم ہوتی ہے کہ ایک خاص موقع پر کسی مخصوص سیاسی لیڈر اور سیاسی جماعت کیلئے کون سی بات زیادہ مناسب اور موزوں ہے۔
پاکستان کی سیاست ملکی اشرافیہ کے گرد ہی گھومتی ہے جہاں اس کے مختلف گروہ ایک دوسرے کے خلا ف برسرِ پیکار نظر آتے ہیں۔ اشرافیہ کے ہر گروپ کو ایک مخصوص وفادار اور مفادات پرست ٹولے کی حمایت حاصل رہتی ہے۔ یہ مفادات پر مبنی سیاست ہے جس میں ہر سیاسی قیادت اپنے اقتدار کے تحفظ اور حریف سیاسی لیڈر کو نقصان پہچانے کے لیے ہر حد عبور کرنے کیلئے تیار ہوتی ہے۔ اس سیاسی اشرافیہ کے درمیان اتحاد اور قربت کا واحد محرک ان کے اقتدار اور مالی مفادات کے حصول کے عزائم ہوتے ہیں نہ کہ عدل و مساوات اور عوام کی خدمت کے سنہری اصول۔ سیاسی رہنمائوں کی اکثریت کا اندازِ سیاست روبہ زوال ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی کئی شخصیات نے اپنے حریف سیاسی رہنمائوں کے خلاف اخلاق باختہ زبان استعمال کرکے یا مختلف القابات سے نواز کر بڑا نام کمایا ہے۔ سیاست میں اوپر جانے کے دو ہی معروف حربے ہیں‘ اپنی قیادت کی خوشامد اور چاپلوسی اور اپنے حریف کے خلاف منفی اور گھٹیا زبان استعمال کرنا یا حریف سیاسی رہنمائوں کے خلاف بے بنیاد الزامات کا طوفان کھڑا کرنا۔
پارٹی ایکٹوسٹس کی طرف سے بہت سی پریس کانفرنسز یا ٹی وی پر سیاسی ٹاک شوز میں منفی اور غیرشائستہ گفتگو اور بیانا ت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ سیاسی اشرافیہ اپنا وقت عام آدمی کے سیاسی‘ سماجی اور معاشی مسائل کے حل کیلئے نت نئے اور مثبت آئیڈیاز سوچنے میں صرف کرنے کے بجائے بیشتر وقت اپنی حریف قیادت میں نقائص اور کیڑے نکالنے میں صرف کرتی ہے۔ اسمبلی میں ہونے والی بہت سی تقاریر شائستگی کے معیار پر پورا نہیں اترتیں‘ ان کا معیار بہت گھٹیا ہوتا ہے۔ کئی فاضل اور تجربہ کار لیڈر انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر ہم ان سیاسی قائدین کے اسمبلی کے اندر اور باہر کے بیانات کا تجزیہ کریں تو وقت گزرنے کے ساتھ ان کے اہداف تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ ریاستی اداروں کو ہدفِ تنقید بناتے نظر آتے ہیں تو کبھی مختلف سیاسی رہنمائوں کو اپنے نشانے پر رکھ لیتے ہیں۔ کسی زیرِ بحث ایشو یا کسی وقتی ضرورت کے تحت ان میں ایسی انقلابی تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے۔
متحارب سیاسی قوتوں کے درمیان شاید ہی کوئی مشترکہ حقائق پائے جاتے ہوں۔ ہر سیاسی جماعت اور اس کی قیادت نے تاریخ کی من پسند تشریح کرکے اپنی اپنی سچائیاں گھڑ رکھی ہیں۔ آپ کو پاکستانی سیاست میں سیاسی اور تاریخی ایشوز پر اتفاقِ رائے کے بجائے متحارب بیانیے ملیں گے۔ ہر سیاسی جماعت کی قیادت ایشوز کے طویل مدتی تناظر میں بات چیت کرنے کے بجائے فوری ضرورتوں کے تحت اپنے پتے کھیلتی ہے۔ اس طرح کی سیاست کو عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ عام آدمی کو بلند افراطِ زر‘ اشیائے خور و نوش اور روزمرہ ضروریاتِ زندگی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح میں خطرناک رجحان پایا جاتا ہے۔ ایک سال کے دوران عوام کی ایک بڑی اکثریت خطِ غربت سے نیچے گر چکی ہے۔ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں بھی معاشی صورتحال اتنی تسلی بخش نہیں تھی مگر پی ڈی ایم حکومت کے پہلے سال میں ملکی معیشت شدید انحطاط کا شکار ہوگئی ہے۔ پاکستان کے دیگر معاشی مسائل میں آئی ایم ایف سمیت دیگر ممالک کے ساتھ اپنے معاشی معاملات طے کرنا‘ تجارتی خسارہ‘ زرِ مبادلہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور پاکستانی روپے کی متزلزل قدرو قیمت شامل ہیں۔
اگر آپ حکومتی اور اپوزیشن رہنمائوں کی تقاریر اور بیانات پر نظر ڈالیں تو آپ کو ان میں شاید ہی کوئی عندیہ ملے گا کہ ان سنگین چیلنجزکے ساتھ کیسے نمٹا جائے گا۔ پریشاں حال عوام کو کوئی تسلی اور حوصلہ دینے کے بجائے سیاسی رہنمائوں کا بیشتر وقت ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی اور جوابی الزام تراشی میں گزرتا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ روزافزوں بیروزگاری یا کم شرحِ روزگار سے پاکستان کے سیاسی رہنما اور مقتدر لوگ تو متاثر نہیں ہوتے کیونکہ ان کی اکثریت متمول طبقے سے تعلق رکھتی ہے یا ان کے پاس افراطِ زر اور مہنگائی سے نبرد آزما ہونے کیلئے وافر وسائل موجود ہیں۔ ان کا مستقبل موجودہ سیاسی کشمکش کی سمت اور نوعیت سے منسلک ہے۔ ان کا زیادہ تروقت توانائی اور وسائل‘ افراطِ زر‘ مہنگائی اور عام آدمی کے سنگین مالی حالات پر توجہ دینے کے بجائے دیگر جماعتوں کے ساتھ سیاسی جھگڑوں اور محاذ آرائی میں صرف ہوتا ہے۔اس نوع کی سیاست کا حتمی نتیجہ عام آدمی کی ریاست سے مغائرت یا دوری کی صورت میں نکلتا ہے۔ بگڑتے ہوئے معاشی حالات کی وجہ سے عام آدمی کے حکومتی پروسیس اور سیاسی قیادت پر اعتماد کو شدید دھچکا لگا ہے۔ ان رجحانات سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ عوام کے اندر برسر اقتدار حکومت اور افسر شاہی سے دوری پیدا ہو رہی ہے اور حکومت پر تنقید کرنے والوں کی طرف جھکائو بڑھ رہا ہے؛ تاہم ان کا اپوزیشن پر اعتماد بھی کمزور ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پارٹی کے ایکٹوسٹس الیکشن کے موقع پر انہیں ووٹ دینے پر آمادہ کر لیں مگر شدید دبائو کے شکار عوام شاید ابھی کسی طویل سیاسی احتجاج میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ اپنے معاشی گرداب میں اس قدر پھنسے ہوئے ہیں اور اپنے مستقبل سے اس قدر مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ اشرافیہ کی اقتدار کی اس بے رحمانہ جنگ اور ریاستی اداروں سے سخت نالاں اور لاتعلق نظر آتے ہیں۔
وقت کا اولین تقاضا ہے کہ سیاسی قائدین اپنا کٹھور پن اور تنگ نظری پر مبنی سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس خلیج کو پر کرنے کی کوشش کریں جو اقتدار کی راہداریوں کے ارد گرد سیاسی محاذ آرائی میں مصروف اشرافیہ اور پاکستان کے عام آدمی کے درمیان پیدا ہو چکی ہے۔ پاکستان کا داخلی استحکام بڑی حد تک عوام کے اس اعتماد کو پختہ کرنے پر منحصر ہے کہ ملک کا گورننس سسٹم یقینی طور پر ان کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتا ہے۔