جمہوریت گورننس کا ایک حساس مگر عمدہ نظام ہے۔ سادہ الفاظ میں جمہوریت کا مفہوم یہ ہے کہ عوام کی حکومت‘ جو اس امر کی دلالت کرتی ہے کہ عوام ایک آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کے ذریعے اپنے نمائندے اور اپنے حکمران چُن سکتے ہیں۔ یہ ہدف اس وقت تک حاصل کرنا محال ہے جب تک عوام کو سیاسی طورپر منظم ہونے کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا‘وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتے اور ایک بلاامتیاز قانونی اور آئینی فریم ورک کے اندررہتے ہوئے وہ اپنا ووٹ دینے کا حق استعمال نہیں کرلیتے۔ اس میں مذہب‘ ذات پات‘ عقیدہ‘علاقہ اور صنفی امتیاز سے قطع نظر انسانی وقار اور حرمت کا احترام کیا جاتا ہے۔ ریاستی ادار ے آئین اور قانون میں وضع کردہ اپنے واضح دائرہ کار میں رہ کر کام کرتے ہیں۔
جمہوریت کے ان رہنما اصولوں کادو باہم متعلقہ سطحوں پر جائزہ لیا جاتا ہے :آئین اور ملکی قانون میں ان کا اظہار جو سیاسی نظام کو نظریاتی اور عقلی وشعوری بنیاد فراہم کرتے ہیں۔اس کی دوسری سطح ان اصولوں کا عملی نفاذ ہے۔آئینی اور قانونی نظام میں کیے گئے عہدوپیمان اور اصول حقیقی طورپر عوام کو کس حد تک دستیاب ہیں نیز ریاستی ادارے اور طریقہ کار سماج کے مختلف طبقات کے ساتھ اپنے تال میل میں کس حد تک ان اصولوں کا احترام کرتے ہیں۔ عوام کی حکمرانی کے تصورکے تانے بانے قدیم یونان کے سٹی سٹیٹ سے ملتے ہیں جہاں بالغ شہری اپنے معاملات کو براہ راست خود ڈیل کیا کرتے تھے اور اپنے حکام کا تقرر کرتے تھے۔یہ نظام اس وقت عوامی نمائندوں کی حکمرانی کی شکل اختیار کرگیا جب یورپی ریاستیں مطلق العنان بادشاہت سے عوامی شراکت پر مبنی سیاسی نظام کی طرف چلی گئیں۔ تاہم برطانیہ میں حکمران کو ایڈوائس دینے والی اسمبلی منتخب کرنے کا حق صرف مخصوص افراد کو ہی دیا جاتا تھا۔ سال1215ء میں میگنا کارٹا ڈیکلیریشن بادشاہ کے اختیارات پر پہلا چیک تھا۔اس ڈیکلیریشن پر بعد میں نظر ثانی بھی کی گئی تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ عوام کے منتخب نمائندوں کے کردار میں اضافہ ہوتا گیا۔انیسویں اور بیسویں صدی میں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں ووٹ دینے کا حق مزید وسیع کردیا گیا۔یورپ کے زیادہ تر ممالک میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق بیسویں صدی میں دیا گیا۔برطانیہ میں خواتین کو پارلیمنٹ کا رکن بننے کا حق 1918ء میں دیا گیا تھا اور 1928ء میں برطانوی خواتین کوبھی مردوں کے برابر ووٹ دینے کا استحقاق مل گیا۔ فرانس میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق1944-45ء میں ملا تھا۔
بہت سے ایشیائی اور افریقی ممالک‘یورپ کی نوآبادیات میں جدید ریاست اور محدود انتخابی عمل کا تصورمتعارف کرایا گیا۔پاکستا ن اور بھارت میں 1947ء میں آزادی کے بعد بالغ رائے دہی کا آفاقی حق متعارف کر ایا گیاجس میں وہ تمام مردو خواتین جن کی عمر اکیس برس سے زیادہ ہے اپنا ووٹ کا حق استعمال کر سکتے ہیں۔پاکستان میں 1951-54ء کے دوران صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن مختلف صوبوں میں مختلف اوقا ت میں کرائے گئے۔1997 ء تک قومی او رصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات مختلف تاریخوں پر کرائے جاتے رہے‘ جن میں تین سے دس دن کا وقفہ ہوتا تھا۔
پاکستان کے اب تک کے تما م آئین لبرل آئین پسندی اور نمائندہ حکومت کے اصولو ں کی تائید او رتوثیق کرتے آئے ہیں۔1973ء کا آئین جدید جمہوریت اور لبرل آئین پسندی کے تمام بنیادی اوصاف کا احاطہ کرتا ہے یعنی قانون کی حکمرانی اور پارلیمانی جمہوریت کے ذریعے نمائندہ حکومت۔تمام مسلمہ شہری و سیاسی حقوق اس آئین میں شامل کیے گئے ہیں۔پرنسپلز آف پالیسی ان بنیادی سول اور سیاسی حقوق کو مزید مضبوط بناتے ہیں نیزگورننس اور سیاسی مینجمنٹ کے لیے رہنما اصول فراہم کرتے ہیں۔اس میں بہت سے شقیں عدلیہ کی آزادی اور منصفانہ اور آزادانہ الیکشن کا تقاضا کرتی ہیں۔
1973ء کا آئین ایک شاندار دستاویز ہے جو جمہوریت‘سیاسی حقوق اور آزادی کی ضامن ہے۔پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ آئین میں دیے گئے اصولوں کی ہمارے سیاسی عمل سے عکاسی نہیں ہوتی۔ آئین میں دی گئی شقوں اورپاکستانی سیاست کے زمینی حقائق میں بہت بڑا خلا پایا جاتا ہے۔پاکستانی جمہوریت کی کوالٹی بہت ناقص ہے اور پاکستا ن کو جمہوری خسارے کا سامنا ہے کیونکہ پاکستان کے سیاسی رہنما اور ریاستی ادارے جن میں ایگزیکٹو اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ شامل ہیں کبھی آئین میں درج اصولوں کی حقیقی پاسداری نہیں کرتے۔
پاکستا ن کا دستور جمہوری ہے مگر اس کا کلچر بنیادی طورپر مطلق العنان اور محدود سوچ کا حامل ہے۔ملک کی معروف سیاسی جماعتیں مخصوص سیاسی خاندانوں کی جاگیریں ہیں یا لیڈر پارٹی کے معاملات کو آمرانہ انداز میں چلاتے ہیں۔ آئین کے احترام‘قانون کی حکمرانی‘او رجمہوری اقدار کا انحصار پارٹی یا اس کے لیڈر کی ضروریات پر ہوتا ہے۔اگر آئین کی شقیں اور قانونی تقاضے پارٹی لیڈر کے ذاتی مفادات کے لیے مفید ہوں تو وہ ان اصولوں کا دفاع کرتے ہیں۔ اگر آئینی شقیں یا عدالتی فیصلے یا جمہوری اقدار جماعتی مفادات کی تکمیل نہ کرتے ہوں تو سیاسی جماعت اپنے انحراف کا من پسند جواز گھڑ لیتی ہے۔ بالفاظ دیگر ان کا عزم واستقامت آئین‘اصولوں اور جمہوریت کی روح کے ساتھ نہیں بلکہ پارٹی یا اس کے لیڈر کے فوری اور محدود مفادات کے ساتھ ہوتا ہے۔
جمہوری کلچر کا تقاضا ہے کہ سیاسی لیڈر ایک دوسرے کے ساتھ معاملات میں شائستگی کا مظاہرہ کریں۔یہ بات سیاسی رہنمائوں کی تقریروں اور بیانات میں کہیں نظر نہیں آتی خا ص طورپر اس وقت جب وہ اپنے سیاسی حریفوں کے بارے میں کمنٹس دیتے ہیں۔ جمہوریت کا تقاضا تو یہ ہے کہ سیاسی اختلافات کو بات چیت اور ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیداکرکے طے کیا جائے لیکن پاکستان میں حکومت او راپوزیشن ایک دوسرے کو سیاست کے میدان سے آئوٹ کرنا چاہتے ہیں۔اس سلسلے میں حکومت کو ایک سبقت حاصل ہوتی ہے کہ ریاستی مشینری اور وسائل اس کے کنٹرول میں ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنے جماعتی مفادات کی تکمیل اور اپوزیشن جماعتوں کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
سیاسی تعطل‘آئینی بریک ڈائون‘فوج کی حکمرانی اور سویلین حکمرانوں کا آمرانہ طرزِ حکومت بھی جمہوری افلاس کی بڑی وجوہات ہیں۔ سیاسی تعطل کی وجہ صرف غیر جمہوری مطلق العنان حکمرانی ہی نہیں ہے بلکہ2008ء‘2013ء اور 2018ء میںسویلین حکومتوں کی تبدیلی سے بھی پاکستان کے معاشی اور سیاسی مسائل میں اضافہ ہواکیونکہ ہر آنے والی نئی حکومت نے پچھلی حکومت کی زیادہ تر پالیسیوں کو معطل کردیا۔اپنے مخصوص سیاسی ایجنڈا کی تکمیل کے لیے بار بار تشدد کااستعمال بھی جمہوریت اور سماجی ہم آہنگی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ حال ہی میں ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کی طرف سے پُر تشدد کارروائیوں کی مذمت کی جائے اور جو عناصر بھی اس میں براہ راست ملوث ہیں ان کے ساتھ سویلین قوانین اور سویلین عدالتوں کے ذریعے سختی سے نمٹا جائے‘ تاہم موجودہ بحران کا کوئی طویل وقتی حل کشیدگی میں اضافے کے ذریعے تلا ش نہیں کیا جاسکتا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تنازعے کی شدت میں کمی لائی جائے اورسیاسی حریفوں کے خلاف ریاستی مشینری کے استعمال سے گریز کیا جائے۔ اپنے غصے پر قابو پایاجائے اور باہمی مذاکرات کے بعد کسی متفقہ شیڈول کے مطابق انتخابات کا انعقاد ممکن بنایا جائے۔آئین کی روح اور اصولوں اور پارلیمانی جمہوریت کی طرف واپس آجائیں۔