بلوچستان میں پاک ایران سرحد کے قریب پاکستانی سرزمین کے اندر ایران کا حملہ پاکستان میں غصے اور حیرت کا باعث بنا۔ اس حملے کیلئے مسلح ڈرونز اور میزائلوں کا استعمال کیا گیا اور دعویٰ یہ تھا کہ ایرانی دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن کا وہاں ٹھکانہ تھا۔ یہ فوجی آپریشن اس حقیقت کے باوجود کیا گیا کہ دونوں ممالک کے مابین سفارتی چینلز کھلے ہیں اور سرحدی حکام سرحد پار دہشت گردی اور سمگلنگ کے امور پر تبادلۂ خیال کیلئے وقتا فوقتا ملاقات کرتے رہتے ہیں۔ دوطرفہ سفارتی سطح پر دہشت گردی کے تازہ ترین مسئلے کو اٹھانے کے بجائے ایرانی فوجی حکام نے یکطرفہ فوجی کارروائی کا سہارا لینے کا انتخاب کیا۔
پاکستان نے سب سے پہلے سفارتی طریقہ کار اپناتے ہوئے جواب دیا۔ پاکستان نے تہران سے اپنے سفیر کو بھی احتجاجاً واپس بلا لیا اور اس معاملے کو ایرانی حکام کے سامنے اٹھایا۔ ابتدائی ایرانی جواب نازیبا تھا۔ اُسے پاکستانی سرزمین پر حملے پر افسوس نہیں تھا‘ اُس نے دعویٰ کیا کہ اس حملے میں ایرانی نژاد دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا جو پاکستانی سرزمین پر چھپے ہوئے تھے۔ ایرانی ردعمل میں مزید کہا گیا کہ ایرانی کارروائی نہ تو پاکستان کے خلاف تھی اور نہ ہی اس کا مقصد پاکستان کی علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی کرنا تھا۔
ابتدائی سفارتی اقدامات کے ایک دن بعد‘ پاکستان نے ایرانی صوبے سیستان (ایرانی بلوچستان) میں واقع پاکستانی بلوچ باغیوں کے ٹھکانوں پر طیاروں‘ ڈرون اور میزائلوں سے حملہ کیا۔ پاکستان نے دعویٰ کیا کہ کچھ باغی مارے گئے جو پاک ایران سرحد کے قریب ایرانی علاقے میں چھپے ہوئے تھے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ کچھ پاکستانی اور ایرانی دہشت گرد گروہ دونوں سمتوں میں‘ ایران اور پاکستان کی سرحد عبور کرتے ہیں۔ دونوں فریقوں نے ماضی میں شکایت کی تھی کہ دہشت گرد اکثر مقامی سکیورٹی فورسز کے ساتھ انکاؤنٹر سے بچنے کیلئے دوسری طرف چلے جاتے ہیں۔ دونوں ممالک نے ایسے دہشت گرد گروہوں کے بارے میں معلومات کے تبادلے میں تعاون کیا اور وہ ان گروہوں کی سرگرمیوں پر قابو پانے کی کوششوں میں ہم آہنگی کیلئے سرحدی سلامتی کے اجلاس بھی منعقد کرتے ہیں‘ تاہم پاکستان اور ایران دونوں نے وقتاً فوقتاً دہشت گردی کا سامنا کیا اور دونوں ایک دوسرے سے شکایت کرتے رہے کہ جب یہ گروہ دوسرے ملک میں چھپنے کی جگہ تلاش کرنے کیلئے سرحد پار کر گئے تو انہیں مکمل تعاون نہیں مل رہا تھا۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کو ماضی کے مقابلے میں 2023ء میں دہشت گردی کے زیادہ واقعات کا سامنا کرنا پڑا‘ تاہم پاکستان نے سرحد کے ایرانی حصے پر بلوچ ٹھکانوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ پاکستان دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے ایرانی حکام سے تعاون حاصل کرنے کیلئے اس مسئلے کو اُٹھاتا رہا۔ پاکستان نے پاک ایران سرحد پر سکیورٹی کو مضبوط بنانے کیلئے کچھ اقدامات بھی کیے۔ اس سرحد پر ایک حفاظتی باڑ زیر تعمیر ہے۔
دہشت گردوں کے تعاقب میں پاک ایران سرحد پر ایران کے سرحدی محافظوں کی جانب سے فائرنگ کے واقعات پیش آنے کی مثالیں موجود ہیں لیکن اس طرح کے واقعات جو وقتاً فوقتاً سرحدی سکیورٹی گارڈز کی شہادتوں کا سبب بنے‘ کو ہمیشہ مکالمے کے ذریعے حل کیا گیا۔ دونوں ممالک کے مابین مجموعی تعلقات اگرچہ معمول کے مطابق دوستانہ رہے لیکن یہ دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں سمیت کچھ معاملات پر ''مشکل اور بے چین‘ ‘ بھی ہو جاتے رہے ہیں۔ تاہم تعلقات میں متواتر مشکلات کے باوجود پاکستان نے عرب ریاستوں کے ساتھ ایران کے مسائل کے بارے میں غیر جانبدارانہ رویہ برقرار رکھا۔ یہ دوطرفہ سطح پر ایران کیلئے مددگار ثابت ہوا‘ جبکہ پاکستان امریکہ کی ایران مخالف پالیسیوں کا بھی کبھی فریق نہیں بنا۔پاکستان بلوچستان میں استعمال کیلئے ایران سے 100 کلو واٹ سے زیادہ بجلی حاصل کرتا ہے۔ گزشتہ سال سمگلنگ کی حوصلہ شکنی کیلئے کچھ سرحدی مارکیٹیں کھولی گئیں۔ در حقیقت ایرانی حملے سے ایک دن پہلے افغانستان کے بارے میں ایران کے خصوصی ایلچی مذاکرات کیلئے اسلام آباد میں تھے اور ایران کی خصوصی افواج نے پاکستان میں فوجی مشقیں بھی کیں۔ اقوام متحدہ اور ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل نہیں کر سکا۔ اب اقوام متحدہ نے اپنی پابندیاں واپس لے لی ہیں لیکن پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر اس منصوبے کیلئے فنڈنگ کے مسائل درپیش ہیں۔
تازہ ترین واقعات میں ایرانی سکیورٹی فورسز نے نہ صرف پاکستان کو نشانہ بنایا ہے بلکہ شام اور عراق میں بھی اسی طرح کی کارروائیاں کی ہیں۔ ایران کی جانب سے اس عجلت کے قدم کی وضاحت ایران کی داخلی سیاسی صورتحال اور ایرانی قیادت کے رویے کے حوالے سے کی جا سکتی ہے۔ دو ہفتے قبل ایران کے شہر کرمان میں ایک بم دھماکے میں 95 کے قریب افراد لقمۂ اجل بن گئے جو جنرل قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر وہاں جمع ہوئے تھے۔ماضی میں ایران کے اندر ٹارگٹ حملوں میں کچھ ایرانی جوہری سائنسدان بھی مارے گئے ۔ ایرانی حکام نے ان ہلاکتوں کا الزام اسرائیل پر عائد کیا۔اس پس منظر میں‘ ایران کے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے شام‘ عراق اور پاکستان میں تازہ ترین کارروائیاں کیں تاکہ ایران کے اندر اس کی ساکھ کو بحال کیا جا سکے کہ دہشت گرد بیرون ملک سے آتے ہیں اور ایران اُن کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مزید برآں‘ ایران کی قیادت نظریاتی ہے اور تازہ ترین حملوں سمیت بہت سے فیصلے کرنے میں عالمی اور علاقائی سیاست کی حقیقتوں کو نظرانداز کرتی ہے۔ پالیسی سازی میں ایک مضبوط نظریاتی بنیاد خود راستی کا خیال بھی پیدا کرتا ہے جو اکثر غیر حقیقی فیصلہ سازی کا باعث بنتا ہے اور دوسروں کے عدم اعتماد کو بڑھاتا ہے۔ شام ایرانی کارروائی کا فوجی جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ عراق کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے‘ تاہم عراق نے احتجاج اور تہران سے اپنے سفیر کے انخلا کے سفارتی ردعمل کا سہارا لیا۔ پاکستان کا پہلا جواب سفارتی تھا اور پھر اس نے ایران میں دہشت گردوں کے خلاف ٹارگٹڈ حملہ کیا۔ یہ کارروائی نہ صرف ایران بلکہ دیگر ممالک کیلئے بھی ایک واضح پیغام تھا کہ پاکستان کے اندر فوجی حملے کا بھی اسی طرح جواب دیا جائے گا۔
ایران نے پاکستان کے فوجی ردعمل کے بعد یہ احساس کرنے میں زیادہ وقت نہیں لیا کہ تنازع کی کوئی بھی شدت اس کے مفادات کی خدمت نہیں کرے گی۔ اس نے پاکستان کو معمول کی سفارتی بات چیت کو بحال کرنے کیلئے مصالحتی اشارے دیے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی اور وفاقی کابینہ نے ایران کے دوستانہ اشاروں کا مثبت جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کو ایران کے ساتھ سرحدی صورتحال کو نارمل کرنے کا مشورہ دیا گیا کیونکہ اسے پہلے ہی بھارت اور افغانستان کے ساتھ سرحدوں پر مسائل درپیش ہیں۔ اسی طرح ایران نے بھی تعلقات میں معمول پر آنے کی ضرورت کو محسوس کیا‘ تاہم دہشت گردی کا مسئلہ مستقبل میں ان کے تعلقات میں مسائل پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ جب تک کہ دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں سے نمٹنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تعاون نہ کریں اور ایرانی سکیورٹی حکام اپنے تنگ نظریاتی عالمی نقطۂ نظر کو اعتدال میں رکھیں۔ عالمی سطح پر اپنی تنہائی کو دیکھتے ہوئے‘ ایران اپنے پڑوسی ممالک سے خود کو الگ تھلگ کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔