غلامی، جہالت، نسلی یعنی کالے اور گورے کی تفریق وہ سماجی مظالم تھے جن سے نجات کے لیے انسان کو صدیاں نہیں ہزاروں سال لگے‘ مگر اس جدید ترین دور‘ جس کو یورپ والے Modernization Post ‘ یعنی جدید دور سے بھی آ گے کا دور کہتے ہیں، کے باوجود دنیا میں صنفِ نازک اپنی بقا، بہتری اور برتری کے لئے، نظامِ دنیا کی کوکھ سے اپنے حق کے جنم کے انتظار میں ہے۔ واضح رہے کہ پوری دنیا کی آبادی میں اگر جنسی تفریق نہ رکھی جائے تو کل آبادی کا 51 فیصد )اکثریت( خواتین کو ہونا چاہے۔ اس کی وجہ بہت سادہ مگر مضبوط ہے کہ قدرت کے نظام کے تحت بیٹی کی اوسط عمر بیٹے کے مقابلے میں تین سے چار سال زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لئے دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کل آبادی کا 51 سے 52 فیصد ہوتی ہیں مگر تمام پسماندہ ممالک اور حیرت پر مبنی حقیقت ہے کہ مسلم دنیا میں بھی خواتین آبادی کا پچاس فیصد سے کم اور بمشکل اڑتالیس فیصد ہیں۔ آپ نے بھی شاید یہی سنا اور پڑھا ہو گا کہ پاکستان میں خواتین اکاون فیصد یعنی اکثریت میں ہیں۔ یہ بات سراسر اور تاحال غلط ہے۔ قارئین! میں دُہرا رہا ہوں کہ پاکستان میں خواتین کل آبادی کا 51 نہیں 49 فیصد ہیں۔ گویا دو سے تین فیصد خواتین تاحال گمشدہ ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم کا نعرہ ہے ''ہم محفوظ نہیں پیدائش سے پہلے اور پیدائش کے بعد بھی‘‘۔ بدقسمتی سے ترقی پذیر ممالک میں بالخصوص انڈیا میں پیدائش سے پہلے جنس کا تعین معلوم ہونے پر ابارشن کروا
دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی کل آبادی میں عورتوں کی شرح صرف 47فیصد ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ ہندو کلچر ہے جس کے تحت بیٹی کو شادی کے موقع پر جہیز دینا لازم ہے۔ اگر معاملہ جا ئیداد میں وراثت دینے کا ہو تو سیدھی سی بات ہے‘ جتنی کُل جائیداد ہو گی‘ اسی حساب سے بیٹی کو بھی حصہ مل جائے گا‘ مگر جہیز ایسی گمبھیر لعنت ہے کہ اگر لڑکی والے معاشی طور پر کمزور لوگ ہوں تو بھی ان سے جہیز کا مطالبہ مکمل اور مرضی کا کیا جاتا ہے۔ اسی لیے بھارت میں سالانہ سیکڑوں خواتین جہیز کم یا مرضی کے مطابق نہ لانے کی بنیاد پر مار دی جاتی ہیں۔ بدقسمتی سے جہیز کا کلچر ہندوازم میں سے جنوبی ایشیا کے مسلمانوںکے درمیاں پوری طرح اور تاحال پھیلا ہوا ہے‘ حالانکہ اسلام بیٹی کو وراثت میں حق دار ٹھہراتا ہے جبکہ جہیز
کی کوئی واضع گنجائش نہیں نکلتی۔ یہ جہیز ہی ہے جس کی وجہ سے بیٹی کی پیدائش کو ایک ذمہ داری اور بوجھ سمجھا جاتا ہے جو کہ ہماری مذہبی اقدار کی نفی‘ اور انتہائی باعث شرم ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 1951 میں پہلی مردم شماری کے مطابق خواتین کل آبادی کا صرف 45 فیصد تھیں اور ملک کی 1998 کی آخری مردم شماری جس کا نام ''فردم شماری‘‘ ہونا چاہئے تھا‘ کے مطابق خواتین کل آبادی کا 48 فیصد تھیں‘ جو بین الاقوامی اداروں کے اندازوں کے مطابق 49 فیصد ہو سکتی ہے‘ لہٰذا اب بھی خواتین کی شرح 2 فیصد کم ہے۔ اس پر ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بیٹی کی پیدائش کے بعد زچہ و بچہ کی دیکھ بھال‘ جیسے دوائی اور خوراک‘ اس طرح نہیں کی جاتی جو بیٹے کی پیدائش پر ہوتی ہے۔ یہ بہت پرانی بات نہیں کہ دیہات میں بیٹی کی پیدائش پر دبے لفظوں میں افسوس کا اظہار کیا جاتا‘ اور خوشی کے طور پر مٹھائی صرف بیٹے کی پیدائش پر بانٹی جاتی تھی۔ قارئین! واضح رہے کہ بیٹے سے نسل چلنے کے خود ساختہ تصور کو اسلام سراسر رد کرتا ہے اور سورہ کوثر کا شان نزول اس آفاقی حقیت کو 14 سو سال پہلے بیان کر چکا ہے۔ دنیا میں خواتین کے حقوق کی پہلی باضابطہ تحریک 1848ء میں امریکہ سے شروع ہوئی‘ جس میں خواتین نے مرد کے برابر مزدوری یعنی اجرت‘ ووٹ دینے اور جائیداد کا مالک ہونے کا حق مانگا۔ خواتین کو ووٹ دینے کا حق
امریکی آئین کی 19ویں ترمیم کی بدولت 1920 میں دیا گیا۔
جی ہاں! جنوری 1889ء سے لے کر 1920ء یعنی امریکہ کے 34ویں الیکشن تک امریکہ کے تمام الیکشنوں میں صرف مرد ہی ووٹ ڈالا کرتے تھے حالانکہ امریکہ میں جمہوریت کو مقدس مانا جاتا ہے اور امریکہ دنیا بھر میں جمہوریت کو جنم دینے والی دھرتیوں میں سے ایک ہے۔ خواتین کے حقوق کی دوسری تحریک 1970 کے عشرے میں چلی جس میں بچوں کی پیدائش کی تعداد کا تعین نمایاں تھا۔ آج کی مغربی دنیا میں یعنی ترقی یافتہ ممالک میں مرد و زن کو تعلیم، نوکری،کاروبار، جائیداد رکھنے اور مرضی کی شادی جیسے تمام حقوق حاصل ہیں‘ مگر پھر بھی جنسی تشدد اور ہراساں کرنے کے سب سے زیادہ واقعات انہی ممالک میں رونما ہوتے ہیں۔ مغرب میں خاندان بحیثیت سماجی ادارہ تبا ہ ہو چکا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے اپنے عداد و شمار کے مطابق 50 فیصد سے زائد شادیوں کا نتیجہ طلاق کی شکل میں سامنے آ رہا ہے‘ اور بچوں کی پرورش single parent یعنی ماں کر رہی ہے۔ گویا مغرب کے ترقی یافتہ ممالک ہوں یا مشرق کے ترقی پذیر ممالک‘ بحیثیت مجموعی پوری دنیا میں عورت اپنی بقا، بہتری اور برتری کی جنگ لڑ رہی ہے‘ اور مجموعی طور پر دنیا کی آبادی میں قدرت کی طرف سے دی گئی عددی اکثریت کے باوجود جبراً اقلیت میں ہے اور یہ دنیا کی سب سے بڑی اقلیت ہے۔ ہر سال 8 مارچ کا دن خواتین کے عالمی دن کے طور پر اسی لئے منایا جاتا ہے کے دنیا کی کوکھ سے کوئی ایسا نظام جنم لے جو عورت کو برابری اور کم از کم عددی برتری ہی دلا سکے کیونکہ قدرت کے قانون کے تحت خواتین کو اکثریت یعنی کم از کم 51 فیصد ہونا چاہیے۔