پی ایس ایل اورکرکٹ کی ایمپائر

سیاست ،معیشت اور فلمی دنیا تین ایسے موضوعات تھے جو ہر روز میڈیا پر نشر ہونے والی خبروں کا سارا سال موضوع رہتے تھے۔ وقت کے ساتھ، اس میں سیاست کا عمل دخل اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ اخبارات میں سیاست کی کوریج یعنی بیٹ (Beat)کرنے والے رپورٹر کی تعداد پارٹیوں کے حساب سے بڑھ گئی ۔جیسے پیپلز پارٹی،ن لیگ،تحریک انصاف اور مذہبی جماعتیںیعنی کم از کم چار رپورٹر اب سیاست کی کوریج کرتے نظر آتے ہیں ۔( اب ایک ہی ادارے کے سپورٹس رپورٹر بھی ایک سے زیادہ نظر آ تے ہیں جس کی بڑی وجہ کرکٹ ہے) سیاست کے بعد فلمی صفحہ، فن اور فنکار یا کلچرل صفحات اخبارات کا لازم حصہ بنتے ہیں جن میں کسی اداکارہ کا بیان مثلاًــ ــ اگر میں فنکارہ نہ ہوتی تو کیا ہوتی‘ اہم ہوتے ہیںمگر اب کرکٹ کا کھیل مقبولیت کی اس بلندی پر پہنچ گیا ہے کہ کرکٹ میچ کے دوران فلمی ستارے ،گلوکار سیاست دان اینکر پرسن اور دیگر شعبہ زندگی کی نمایاں شخصیات کرکٹ میچ نہ صرف دیکھنے کے لئے پہنچتی ہیں بلکہ میچ شروع ہونے سے پہلے ہی میڈیا میں بیانات کی شکل میں توجہ حاصل کرنا شروع کر دیتی ہیں کہ وہ میچ دیکھنے جا رہی ہیں، انٹرٹینمنٹ ہیروز کے حوالے سے دیکھا جائے تو زیاد ہ تو جہ، شہرت اور پیسہ فلمی ستاروں کو ملتا تھا مگر اب کرکٹ کا جادو اور جنون ایسا جن بن گیا ہے کہ فلمی ستارے اور گلوکار (غالباً بغیر معاوضہ) مختلف نغمے گا کر سٹیڈیم میں براہ راست پرفارم کر کے خوشی محسوس کرتے ہیںکیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ کرکٹ کی وجہ سے ان کی مقبولیت کا گراف مزید بڑھے گا۔
شروع میںکرکٹ صرف ٹیسٹ میچوں کی حد تک کھیلی جاتی تھی اور ون ڈے میچ کم ہوتے تھے۔ ٹیسٹ میچ پانچ روزہ ہونے کے باعث بہت سارے لوگ نہ صرف تنقید کرتے تھے بلکہ اس کھیل کی مخالفت بھی کرتے تھے۔ ٹیسٹ میچوں سے یاد آیا کہ مرحوم ڈکٹیٹر ضیا ء الحق‘ جن کی شدت پسند پالیسیاں آج بھی لوگوں کی جان کے خطرے کا باعث ہیں‘کے قریبی ساتھی کا کہنا ہے کہ وہ قوم کا دھیان اپنی آمریت سے ہٹانے کے لئے پی ٹی وی پر شاہکار ڈرامے بنوا کر چلواتے تھے۔ دوسرا حربہ لمبی ٹیسٹ سیریز رکھوانے کا ہوتا تھا‘ جیسے پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز اور آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اس وقت پانچ دن کے ٹیسٹ میچ میں ایک دن کا آرام بھی شامل ہوتا تھا اور یوں ٹیسٹ میچ پانچ کی بجائے چھ دن کا ہو جاتا تھا۔ ون ڈے کرکٹ نے کرکٹ کا کھیل دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ کردیا کیونکہ ون ڈے میچ ایک ہی دن میں ختم ہو جاتا تھا۔ مگر پھر بھی کچھ لوگ اسے لمبا دورانیہ سمجھتے تھے بالخصوص جب ہاکی اور کرکٹ میچ سے اس کا موازنہ کرتے تھے جو کہ 70 اور 90 منٹ کے ہوتے ہیں مگر جب سے ٹی 20 آیا ہے ہر کوئی کرکٹ کا دیوانہ ہو گیا ہے کیونکہ ٹی 20میچ کا دورانیہ تین گھنٹے ہوتا ہے اور صرف ایک کھیل نہیں ہو رہا ہوتا بلکہ پوری انٹرٹینمنٹ کا سامان گانوں اور ڈانس کی شکل میں موجود ہوتا ہے ۔بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہر ٹیم کا اپنا ایک مخصوص نغمہ بھی لوگو کے طور پر گایا جاتا ہے۔ بچی کھچی کسر انعامی سکیمیں پوری کر دیتی ہیں۔جیسے پی ایس ایل کے شائقین میں سے کسی ایک کے کیچ پکڑنے کی صورت میں ایک کروڑ کے انعام میں حصہ دار بنے کا موقع ملنا شائقین کو کھینچ لانے کا باعث بنتا ہے۔ نقد انعام کے علاوہ اگلے میچ کے دوران کیچ پکڑنے والے کا انٹرویو نشر ہونے پر جو شہرت ملتی ہے وہ مزید کشش کا باعث بنتی ہے اور کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ شہرت کی کشش کشش ثقل سے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ شہرت انسان کو آسمان کی بلندیوںکی طرف لے جاتی ہے ۔ آ پ جیسے جیسے آسمان کی طرف جاتے ہیں کشش ثقل کم ہوجاتی ہے مگر شہرت کی کشش آسمان کی بلندیوں کے ساتھ کم
ہونے کی بجائے بڑھنا شروع ہو جاتی ہے اور آج کل کرکٹ اتنی مقبول ہوچکی ہے کہ اس کے بغیر شہرت حاصل کرنا آسان نہیں۔ پی ایس ایل ایک مقامی ٹورنامنٹ تھا مگر اس نے پوری قوم کو اتنا متحرک، جذ باتی اور متحد کر دیا کہ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر لوگ الیکشن اور دیگر اہم قومی امور(جیسے کرپشن کے خلاف مہم)کے موقع پر اسی یگانگت کا نصف مظاہرہ بھی کریں تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ پی ایس ایل کی شکل میں بین الاقوامی کھلاڑیوں کی آمد سے یہ ٹورنامنٹ انٹرنیشنل درجہ حاصل کر گیا جب کہ اندرون ملک میڈیا ہائوسز، سیاسی شخصیات اورکمرشل ادارے ایک ہیجان میں مبتلا نظر آئے جس کو دیکھتے ہوئے یہ کہاجا سکتا ہے کہ کرکٹ پاکستان میں بھلے کم اورکمزور ہے مگر پاکستانیو ں کی کمزوری ہے ۔کمزوری سے یاد رہے کہ پاکستان کے حوالے سے کچھ کمزوریاں بہت مشہور ہیں جن میں سے ایک کا ذکر یہاں مناسب نہیںکیونکہ مرد حضرات برا منائیں گے۔ دوسرا پاکستان کی جمہوریت ابھی تک کمزور ہے اوراسی لئے جمہوریت لوگوں کی کمزوری ہرگز نہیں رہی کیونکہ مشرف کے چلے جانے کے بعد آٹھ سال گز ر چکے ہیں مگر جمہوریت ڈلیورنہیں کر سکی۔ تیسری کمزوری پاکستان کی بیٹنگ اور فیلڈنگ کو قرار دیا جاتا ہے مگر پھر بھی کرکٹ اس قوم کی کمزوری بن چکی ہے ۔ پی ایس ایل کے فائنل کا پاکستان میں انعقاد ایک چیلنج تھا جس کو سول اور سکیورٹی اداروںنے ایک کارنامے کی شکل میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جس سے پوری دنیا بالخصوص جنوبی ایشیا کی پونے دو ارب آبادی کو ایک مثبت اور تگڑا پیغام پہنچااور امید جاگی ہے کہ پی ایس ایل 3 میں صرف فائنل نہیںبلکہ زیادہ میچز پاکستان میں ہوںگے اور مزید انٹرنیشنل کھلاڑی اس میںشرکت کریںگے۔ قیام پاکستان میں لوگ مذہب کے نام پر ایک ہوئے اور اپنا ملک یعنی سلطنت حاصل کی ۔ اس کے بعد اسی ملک میں جمہوریت ،آمریت ، معاشی وسیاسی نظریات کی سلطنتوں کے عروج و زوال کا سلسلہ جاری رہا مگر کرکٹ کے پہلے سے جاری سحر میں مبتلا، پی ایس ایل میں تمام مذہبی ، سیاسی ،سماجی اور معاشی اداروں کی بھرپور شرکت یہ ثابت کرتی ہے کہ اب پاکستان میں کرکٹ لازوال سلطنت کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں