’’سویا ہوا پولیس والا ‘‘ یا سپیڈ بریکر

انگریزی زبان گزشتہ کم از کم ایک دہائی سے دنیا کی سب سے زیادہ ترقی اور وسعت پکڑنے والی زبان ہے کیونکہ ہر سال ہزاروں نئے الفاظ اور محاورے اس زبان میں شامل ہوتے ہیں جس میں سے کچھ محاورے ایک پورا فلسفہ یا نظریہ بیان کر دیتے ہیں۔ اسی قسم کا ایک محاورہ سپیڈ بریکر(peed Breaker S)ہے ۔ سپیڈ بریکر کے الفاظ کے ایک نئے معنی جان کر آپ کو بھی دلچسپ حیرانگی ہوگی اور آئندہ یہ محاورہ اپنی دلچسپی کے ساتھ آپ کو یاد بھی ہو جائے گا۔ جی ہاں! سپیڈ بریکر کی ایک تعریف یعنی مطلب 'سویا ہوا پولیس والا ‘ Sleeping PoliceMan ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح سپیڈ بریکر دیکھ کر آپ گاڑی کی رفتار کم کرتے ہیں تاکہ آپ کو جمپ یا جھٹکا نہ لگے اسی طرح کسی جگہ بیٹھا پولیس والا اگر سویا بھی ہوتو آپ اتنا محتاط ضرور ہوتے ہیں جتنا سپیڈ بریکر کو دیکھ کر۔ سویا ہوا پولیس والا سوئے ہوئے اور سست قانون کے استعارہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ 
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جنگل کے دور کے انسان کو قدرت اور فطرت کے نظارے ہی زندگی کے اصول،ایجادات سکھاتے تھے اس کی سب سے دلچسپ مثال آئینہ ہے۔ جی ہاں اگر انسان پانی میں اپنا عکس نہ دیکھتا تو شاید زندگی بھر اسے آئینہ بنانے کا خیال ہی نہ آتا۔ دوسری مثال ہوائی جہاز کی ہے جس کا سبق انسان نے اڑتے ہوئے پرندوں سے سیکھا۔ اسی طرح انسان اپنی زندگی میں سات رنگوں کا استعمال کبھی نہ سیکھ پاتا اگر یہ رنگ فطرت کے اندر نہ پائے جاتے بالخصوص قوس ِ قزاح کی صورت میں آسمان پر عیاں نہ ہوتے ۔ 
اگر اتنی تحریر سے آپ کو اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ کالم پولیس کی نئی وردی کے متعلق ہے تو آپ درست ہیں۔ گزشتہ دنوں پولیس کی وردی کا رنگ اور ساخت دونوں بدل دیئے گئے ہیں اور نئی وردی کا رنگ زیتونی سبز رنگ کی کر دیا گیا ہے۔ آئیے رنگوں کی نفسیات ، فلسفہ اور استعمال جانتے ہیں ۔سب سے پہلی مثال مارشل آرٹس یعنی جوڈو کراٹے کی ہے ۔ کراٹے کا نیا کھلاڑی جب پہلے دن میدان میں جاتا ہے تو اسے سفید رنگ کی بیلٹ باندھی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ کھلاڑی ابھی بے رنگ ہے اور سیکھنا شروع کیا ہے ۔ کچھ عرصہ تربیت حاصل کرنے کے بعد امتحان پاس کرنے پر اس کھلاڑی کو پیلے رنگ کی بیلٹ باندھ دی جاتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب یہ کھلاڑی کچھ نہ کچھ سیکھ چکا ہے ۔ اگلے مرحلے میں اسی کھلاڑی کو اورنج ،نیلا، سبز ، برائون بیلٹ باندھے جاتے ہیں۔ سب سے آخر میں اس کھلاڑی کو بلیک بیلٹ باندھی جاتی ہے اس کا ایک فلسفہ کچھ یوں ہے کہ اگر آپ پیلا ، اورنج،سبز، نیلا ، برائون رنگ مکس کر دیں تو کالا رنگ بن جاتا ہے۔ اسی لئے بلیک بیلٹ حاصل کرنے والے کھلاڑی کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بتدریج تمام مراحل اور امتحانات پاس کر کے اس سارے رنگ پورے ہوگئے ہیں۔
عدالتوں کے اندر وکلاء اور ججز سیاہ رنگ کا پینٹ کوٹ زیب تن کرتے ہیں جس کا بنیادی مقصد کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ کالا رنگ دھوپ میں زیادہ تمازت اپنے اندر جذب کرتا ہے اور چونکہ ہمارے ہاں قانون اور سرکاری لباس (سیاہ) گورے کے دور سے نافذ العمل ہے اور گورے کے اپنے ملک میں دس ماہ سردی رہتی ہے تو اس لئے وہ سیا ہ رنگ کا لباس برصغیر میں بھی تا حال رائج ہے حالانکہ ہمارے وکلاء کو گرمیوں کے موسم میں سیاہ رنگ کے لباس کی وجہ سے اوسط سے زیادہ حرارت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح پولیس والوں کی سابقہ وردی میں شرٹ کا رنگ کالا ہوتا تھا اور لامحالا گرمی کے موسم میں حدت کا باعث بنتا تھا۔ گویا ایک حوالے سے نئی وردی کو اس لئے سراہا جا سکتا ہے کہ اس میں سیاہ رنگ کی نسبت گرمی کم لگے کی ۔ بات ہو رہی تھی بلیک بیلٹ کھلاڑی کی مگر سیاہ رنگ کا ایک فلسفہ دنیا میں تاریکی ، گمراہی ، جہالت اور پسماندگی کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ جس طرح تاریخ کے بھیانک ادوار کو سیاہ دور کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ اب ہماری بحث ایک مخمصے کا شکا ر ہوگئی ہے کہ سیاہ رنگ کو بلیک بیلٹ کھلاڑی کے طور پر لیا جائے جس کے تمام رنگ پورے ہو چکے ہیں یا کہ جہالت اور تاریکی کے معنوں میں لیا جائے ۔ 
شروع میں بات ہوئی تھی سوئے ہوئے پولیس والے کی اور وردی کا رنگ بدلنے کی تو مارشل آرٹ کے فلسفے کے تحت پولیس کی وردی یہ ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان میں قانون ابھی صرف پیلی اور اورنج بیلٹ کے درجے اور مراحل ہی طے کر سکا ہے اور سبز بیلٹ تک پہنچا ہے ۔ جبکہ سبز بھی گہرا نہیں ہلکا والا ہے ۔ اس لیے اگر رنگت کی تبدیلی اور 'سوئے ہوئے پولیس والے‘ کے محاورے کو بنیاد بنایا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ پاکستان میں قانون جرائم کے راستے میں صرف
ایک سپیڈ بریکر کی طرح ہے جو جرم کی رفتا ر اور تعداد کو تھوڑی دیر کیلئے کم تو کر پاتا ہے لیکن مکمل طور پر روکنے میں ناکام ہے اور قانون کے نامکمل ہونے کی وجہ بالخصوص وہ جرائم ہیں جو ملک کی اشرافیہ کرتی ہے ۔ کیونکہ یونانی کہاوت کے 'قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں چھوٹے کیڑے مکوڑے تو جکڑے جاتے ہیں مگر طاقتور جانور اسے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں‘ یہ کہاوت پاکستان پر مکمل طور پر پوری اترتی ہے۔بات ہو رہی تھی سیاہ رنگ کی تو اب آپ خود فیصلہ کریں کہ پاکستان میں سیاہ رنگ بتدریج مراحل طے کرکے مکمل ہونے کی نشانی ہے یا کہ تاریکی اور جہالت کی تشبیہ اور پاکستان کے اندر پولیس کی حالت ایک سپیڈ بریکر جتنی ہی ہے ؟؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں