علامہ اقبال سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ حضرت یہ بتائیے کہ کمیونزم‘ سوشل ازم اور کیپیٹل ازم میں سے کون سا معاشی نظام اسلام کے قریب تر ہے‘ تو علامہ نے جواب دیا تھا: سوشل ازم میں اگر خدا کا نام یعنی عقیدہ شامل کر دیا جائے تو یہ کوئی نیا نظام نہیں ہے‘ عین اسلام ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور یعنی چائنہ میں بھی سوشل ازم ہی بطور معاشی نظام نافذ ہے۔ اسی لیے امریکہ کے مقابلے میں اس کے سپر پاور کے طور ابھرنے کو بعض لوگ دوسری کولڈ وار War Revival of Cold کا نام بھی دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ 2025ء سے پہلے چائنہ کی کل معاشی پیداوار‘ یعنی جی ڈی پی‘ امریکہ سے زیادہ ہو جائے گی اور یوں چین دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن جائے گا۔ چین کا امریکہ سے مقابلہ ہوتا ہے یا سرد جنگ‘ یہ تو وقت ہی بتائے گا‘ مگر یہ حقیقت ہے کہ اب امریکہ دنیا کی واحد طاقت نہیں رہا‘ اور دنیا دوبارہ Unipolar کی بجائے Bipolar ہو چکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روس کی طرح چین بھی ایک ایشیائی ملک ہے۔ جب تک روس کے 14 ٹکڑے نہیں ہوئے تھے‘ اس کا ٹوٹل رقبہ تقریباً ایککروڑ 70 لاکھ مربع کلومیٹر تھا۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ نظامِ شمسی کے سب سے چھوٹے سیارے یعنی پلوٹو کا رقبہ اس سے کم ہے۔ 14 حصوں میں تقسیم ہونے کے باوجود روس رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے‘ اور اب بھی اس کا رقبہ پلوٹو سیارے سے زیادہ ہے۔ چین رقبے کے اعتبار سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے اور اس کا رقبہ 95 لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ روس کے علاوہ کینیڈا، چائنہ، امریکہ ایسے ممالک ہیں جن کا رقبہ براعظم آسٹریلیا سے زیادہ ہے۔ اس لیے انہیں رقبے کے اعتبار سے براعظمی ممالک کہا جا سکتا ہے۔
آبادی کے اعتبار سے بات کریں تو چین دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کی آبادی انفرادی طور پر براعظم آسٹریلیا، افریقہ‘ جنوبی امریکہ، یورپ اور شمالی امریکہ سے زیادہ ہے‘ یعنی کئی براعظموں سے زیادہ ہے‘ لہٰذا چین آبادی اور رقبے کے مجموعہ کے اعتبار سے حقیقی طور پر ایک ملک نہیں بلکہ براعظم ہے یعنی براعظمی ملک ہے۔ کچھ مجبور اور مایوس مبصر چین کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے تشبیہ دے کر پاکستان کے چین کی طفیلی ریاست یا کالونی بننے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ سب سے پہلی بات اس ضمن میں یہ ہے کہ چین چاہے بھی تو پاکستان کو اس طرح Misuse یا abuse نہیں کر سکتا جتنا امریکہ کر چکا ہے۔ دوسرے‘ چین پاکستان کے ذریعے کولڈ War بالخصوص افغان جنگ جیسی بھیانک صورت حال سے دوچار ہوتا اور کرتا نظر نہیں آتا بلکہ حیرت انگیز عمل یہ ہے کہ چین کے اپنے لوگ پاکستان میں اغوا اور قتل ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی دوسری طاقت پاکستان کے لیے لڑ رہی ہے‘ ورنہ تو پاکستان دیگر طاقتوں کا میدان جنگ رہا ہے‘ وہ روس امریکہ کی سرد جنگ ہو یا سعودیہ اور ایران کی۔ مزید غور کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ چائنہ کے مشرق میں سمندر ہے اس لیے چین کو معاشی طور پر گہرائی اور وسعت کے لیے اپنے مغرب کی طرف دیکھنا پڑتا ہے اور اس کے مغرب میں پاکستان‘ افغانستان‘ تاجکستان‘ کرغیزستان اور قازغستان جیسے مسلم ممالک آتے ہیں اور ان ممالک سے مزید آگے کی طرف جائیں تو بھی مزید دس سے پندرہ مسلمان ممالک ہی آتے ہیں۔ اس لیے لامحالہ چین کو مسلم دنیا کے 50 سے زیادہ ملکوں‘ جن کی آبادی 1.5 ارب سے زیادہ ہے‘ پر انحصار کرنا پڑے گا۔ امریکی صدر کا حالیہ دوستانہ دورہ سعودیہ اور اسلام کے بارے بدلے ہوئے اور بہتر بیانات اس امر کی واضح غمازی کرتے ہیں‘ کیونکہ ماہرین کے مطابق چین کے بلاک میں سب سے زیادہ شمولیت کا امکان مسلم ممالک کا ہی ہے۔ اس ضمن میں پاکستان چین کے لیے مسلم دنیا پر ایک کھڑکی نہیں بلکہ گیٹ کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ گیٹ سی
پیک راہ داری کی شکل کھل چکا ہے۔ لیکن بھارت اس سے مستفید ہونے سے قاصر ہے اور Sick man of Asia کی شکل میں سامنے آ چکا ہے۔ بھارت تاحال CPEC کا حصہ بننے کی بجائے افغانستان کے رستے اب بھی دہشت گردی بڑھا رہا ہے اور CPEC اورگوادر کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ واضح رہے One Belt one Road کی افتتاحی تقریب میں بھارت اس خطے کا وہ واحد ملک تھا جس نے اپنا کوئی سیاسی عہدے دار تو دور کی بات‘ کوئی سفارتی نمائندہ تک بھیجنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ اسی ضمن میں ایک اور بات کا سمجھنا بہت ضروری ہے‘ یہ کہ بھارت چین سے کشیدگی کو ہوا مغربی طاقتوں کے ایما پر دے رہا ہے‘ مگر چین براہ راست بھارت کے خلاف محاذ کھولنے کی بجائے پاکستان کے ذریعے ہی Balance کرنے کی کوشش کرنا چاہے گا‘ کیونکہ بھارت کی کمزوریوں اور خامیوں کے بارے میں پاکستان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ اسی طرح چین کو ایک ممکنہ خطرہ افغانستان کی سرحد سے کسی Militant گروپ کے ذریعے درانداز ی کا ہو سکتا ہے‘ کیونکہ افغانستان میں امریکہ تاحال موجود ہے اور دوسری طرف بھارت مختلف گروپوں کی صورت میں اور حکومتی سطح پر وہاں اپنے شیطانی پائوں جمانے کی کوشش میں ہے۔ افغانستان کی ممکنہ شدت کو Neutralize کرنے میں پاکستان سے زیادہ چین کی مدد کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ افغان جنگ کے بعد بھی افغانوں کو پاکستان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ اس لیے آنے والے سالوں نہیں بلکہ دہائیوں میں پاکستان چین کے لیے ایک ضرورت ہی نہیں مجبوری بن جائے گا‘ اس لیے پاکستان کو براعظمی ملک چین سے توقعات اور امکانات زیادہ ہیں نہ کہ خدشات۔