بھارت کے ’’اڑھائی محاذ‘‘

سب سے پہلے اس اصطلاح کی وضاحت کرتے چلیں جو آج کل بھارتی سیاسی قیادت بڑے تواتر سے اپنی گفتگو میں استعمال کر رہی ہے۔ یہ اصطلاح ''اڑھائی محاذ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں بھارت کی فضائیہ اور بری فوج کے سربراہان نے بارہا یہ اصطلاح استعمال کی کہ بھارت اڑھائی محاذوں پر لڑنے کے لئے تیار ہے۔ اڑھائی محاذوں سے مراد‘ پہلا چین کا محاذ‘ دوسرا پاکستان کا محاذ‘ جبکہ آدھا محاذ بھارت کے اندر چلنے والی علیحدگی پسند تحریکیں ہیں۔ قارئین کرام! بھارت کے اندر چلنے والی علیحدگی پسند تحریکوں کی تعداد کا تعین ابھی تک انٹرنیٹ بھی نہیں کر سکا ۔ اگر آپ انٹرنیٹ پر بھارت کے اندر جاری علیحدگی پسند تحریکوں کی تعداد تلاش کریں تو یہ 21 سے 28تک جاتی ہے‘ جبکہ بھارت کی کل ریاستوں کی تعداد 29 ہے۔ یہ علیحدگی کی تحریکیں اتنی زیادہ پرانی اور پُرزور ہیں کہ دو بھارتی وزرائے اعظم یعنی اندرا گاندھی اور ان کا بیٹا راجیو گاندھی انہی میں سے دو تحریکیں چلانے والوں کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔ بھارت کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں بھارتی فوج بھی جانے سے کتراتی ہے یعنی وہ علاقے بھارتی فوج کے لئے نو گو ایریا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح مائوازم کے نظرئیے پر چلنے والی تحریک جو کہ بھارت کی دس ریاستوں میں جاری ہے۔جہاں پر رات کے وقت بھارتی ریل نہیں چل سکتی چونکہ علیحدگی پسند ریل گاڑیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔بھارت کی علیحدگی پسند تحریکوں کا سب سے پہلا گڑھ شمال مشرقی سات ریاستیں ہیں۔ یہ ریاستیں بنگلہ دیش اور چین کے درمیان بھارتی علاقے پر مشتمل ہیں۔ان سات ریاستوں کو "سات ناراض بہنیں " بھی کہا جاتا ہے ماہر ین ان سات ریاستوں ( seven angry states ) کی تحریکوں کو سب سے زیادہ خطرناک اور متوقع علیحدہ ریاستیں اسی لئے بھی تصور کرتے ہیںکہ ساتوں ریاستیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ ریاستیں بھارت کی ایک انتہائی سرحدپر، یعنی جہا ں بھارت کا سرحدی علاقہ ختم ہوجاتا ہے ، واقع ہیں۔جغرافیہ دانوں کے مطابق کسی بھی ملک کی ایسی علیحدگی پسند تحریک جو اس کے کسی بھی انتہائی سرے یعنی سرحد پر واقع حصے میں ہواس کے علیحدہ ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔چنانچہ شمال مشرقی بھارت کے انتہاء پر واقع ان سات ریاستوں کی علیحدگی کا مطالبہ بلا شبہ بڑا چیلنج ہے۔بھارت کا دوسرا علیحدگی پسند حصہ وہ دس ریاستیں ہیں جوکمیونسٹ رہنما اور چین کے بانی ماوزے تنگ کو اپنا روحانی و سیاسی پیشوا مانتی ہیں۔ان ریاستوں میں علیحدگی پسندگی تحریکیں تقسیم سے پہلے شروع ہوئیں۔آزادی کے 20سال بعد 1967ء میںنکسل باڑی نامی علاقے سے شروع ہونے والی تحریک اتنے پر زور طریقے سے شروع ہوئی کہ تا حال بھارت اس تحریک کی شدت کو دبانا تو در کنار کم بھی نہیں کر سکا ۔ یہاں پر یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ نکسل باڑی یا مائو سٹ تحریک عوام میںگہری جڑیں پکڑ چکی ہے کہ بھارت کی اپنی فلم انڈسٹری اس تحریک پر متعدد فلمیں بنا چکی ہے۔ان میں لال سلام ،ریڈ الرٹ،نکسل باڑی اور مٹی کے بیٹے وغیرہ نمایاں ہیں۔
اب ذکر دو ایسی تحریکوں کا جن سے آپ بخوبی واقف ہوں گے کیونکہ یہ پاکستان کے ملحقہ علاقوںمیں چل رہی ہیں یعنی خالصتان بھارتی پنجاب اور مقبوضہ کشمیر کی تحریکیں۔واضح رہے کشمیر کی تحریک پاکستان بننے سے پہلے کی ہے کیونکہ 1930کی دہائی میں ظالم ڈوگرہ راج کے خلاف مسلم کانفرنس نام کی مسلمانوں کی سیاسی پارٹی کے مطالبے اور جدوجہد پر الیکشن ہوئے جو مسلم کانفرنس نے واضح ترین اکثریت سے جیت لیے تھے۔اس لئے کشمیر کی تحریک کو پاکستان بننے کے بعد کا تنازع کہنا غلط ہے اس سلسلے میںمیں ایک مزید پہلو بہت اہم ہے وہ یہ کہ چین سے ملحقہ سرحد کی طرف مقبوضہ کشمیر کا بڑا علاقہ Aksi chin اور دو چھوٹے علاقے ng Gem choاورDemChong چین کے کنٹرول میں ہیں۔اس لئے کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کا تنازع نہیں بلکہ چین بھی اس میں تیسرا فریق ہے۔
اس کے بعد بھارت کے جنوب میں تامل ناڈو کی علیحدگی کی متشدد تحریک ہے اس تحریک کی بنیاد نسلی اور لسانی ہے۔آگے بڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ پورے بھارت میں سب سے نچلی ذات کے ہندو دلت یا شودر ہیں جن کی آبادی 2011کی مردم شماری کے مطابق تیس کروڑ ہے جو کل آبادی کا ایک چوتھائی ہے۔یہ شودر بھی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں۔بھارت کے شودروں کا ہیرو اور رول ماڈل بھارتی آئین کا خالق ڈاکٹر امبیدکرہے وہ مذہباً ہندو تھے مگر آزادی کے بعد برہمن ہندوئوں کے متعصب رویے اور سیکولرازم کے کھوکھلے نعروں سے متنفر ہو کر احتجاجاً ہندومت چھوڑ کر بدھ مت مذہب میں شامل ہو گئے اور تا دم مرگ 6 195تک بودھ ہی رہے۔تھوڑا غور کریں تو یہ معمولی واقعہ نہیں تھا تاریخ دان اسے سیکولر ازم کے بھارتی دعوے کے منہ پر سب سے بڑا طمانچہ مانتے ہیں ۔
واپس آتے ہیں بھارت کے جنگی محاذوں کی طرف توآپ نے بھارت اور چین کی بھوٹان کے قریب سرحدی علاقوں میں جاری جھڑپوں کی خبریں پڑھی اور سنی ہو ں گی۔ان جھڑپوں نے اس نوعیت کی کشیدگی اختیار کر لی ہے کہ چین نے بھارت سے جنگ کا برملا امکان ظاہر کیا ہے۔بھارت نے ایک جذباتی بیان جاری کیا کہ یہ 1962کا بھارت نہیں ہے جس پر چین نے بھی عین متوقع بیان دیا کہ یہ بھی 1962 کا چین نہیںواضح رہے 1962میں بھارت کو چین کے ہاتھوں بری شکست ہوئی تھی۔
دوسری جانب بھارت اپنی تمام اندرونی علیحدگی کی تحریکوں کے علاوہ اپنے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ سرحدی تنازعات بھی رکھتا ہے جی ہاں بھارت کے سرحدی تنازعات نہ صرف پاکستان اور چین کے ساتھ ہیں بلکہ برما ،بنگلہ دیش،نیپال اور بھوٹان کے ساتھ بھی ہیں۔لہٰذا بھارت نہ صرف اندرونی ان گنت محاذوں بلکہ تمام پڑوسی ممالک سے تنازعات کی وجہ سے چارسو بلکہ ہر سو گرم محاذوں سے گھرا ہوا ہے ۔ لہٰذا صرف "اڑھائی محاذ " کا اقرار ناکافی ہے،جبکہ بھارت کے لڑنے کی صلا حیت شائد ایک محاذ کی بھی نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں