موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے ایک تھیوری بڑئے شدو مد کے ساتھ پیش کی جاتی تھی کہ اگر سب سے اوپر بیٹھا شخص کرپٹ نہ ہو تو اول تو نیچے کرپشن رک جاتی ہے‘یا اگر بالکل ختم نہ بھی ہو تو بڑی حد تک کم ضرور ہو جاتی ہے‘مگر ہمارے معاملے میں روز مرہ مشاہدات سے لے کر عالمی سطح پر جاری ہونے والے کرپشن انڈیکس کی رپورٹس تک‘ صورتحال اس کے سراسر الٹ نظر آتی ہے۔ موجودہ وزیر اعظم کے مخالفین کوششوں کے باوجود وزیر اعظم کی ذاتی کرپشن کا کوئی سکینڈل ڈھونڈنے میں ناکام ہیں مگر دیگر تمام نجی اورسرکاری شعبوں میں کرپشن کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ وقت اور مہنگائی کے ساتھ کرپشن کے بھائو بھی اوپر کی جانب جا رہے ہیں۔سب سے بڑا بھرم پنجاب پبلک سروس کمیشن کے امتحانی پرچے آوٹ ہونے اور فروخت ہونے کی شکل میں ٹوٹاہے‘ جس سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔حد تو یہ ہے کہ لیکچررز کے تحریری امتحان میں پاس ہوئے اورا نٹرویو کا مرحلہ مکمل ہوئے بھی تین ماہ کا عرصہ گزر چکاہے مگر تا حال نتائج کا اعلان نہ ہونے سے امیدوار پریشانی میں مبتلا ہیں ۔تا حال بمشکل سات مضامین کا رزلٹ آیا ہے اوروہ بھی ادھورا ‘ یعنی اگر ایک مضمون کے مرد امیدواروں کا رزلٹ آیا ہے تو خواتین امیدواروں کا رزلٹ نہیں آیا اور بقیہ مضامین بھی کچھ ایسی ہی صورت ہے ۔
موجودہ حکومت کے پیش کئے جانے والے دونوں بجٹوں میں سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں معمولی اضافہ کیا گیا جس سے سرکاری ملازمین مالی دباؤ اور بے دلی کا شکار ہیں۔مہنگائی میں ان دو سے تین سالوں میں تیس سے چالیس فیصد اضافہ ہو چکا ہے ‘ مگر تنخواہوں میں اضافہ اس کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ان حالات میں سکولوں ‘کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ بھی مجبوراًسڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان اساتذہ پر نہ صرف لاٹھی چارج کیا گیا بلکہ متروک آنسو گیس بھی پھینکی گئی۔ اس تشدد کے متعلق یہ فیصلہ کرنا باقی ہے کہ یہ تشدد Painfulزیادہ ہے یا Shameful‘ مگر یہ بات طے ہے کہ اس میں Painاور Shame دونوں شامل ہیں۔ اگر کسی ترقی پسند معاشرے میں معاشی تنگی ہو بھی جائے تو تعلیم کے شعبہ کو ترجیحاً معاشی آسودگی یہ سوچ کر دی جاتی ہے کہ تعلیم اور تحقیق سے وابستہ لوگ اپنے دماغوں میں قوم کی ترقی کا خواب پال رہے ہوتے ہیں اور ان دماغوں کو اتنی ہی احتیاط اور توجہ کے ضرورت ہوتی ہے جتنی قوم کی تعمیر کرنے والے کسی بھی دوسرے شعبے کو۔ بصورت دیگر فکری اور علمی تعمیر و ترقی کا عمل متاثر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ۔
مسلمہ ‘مصدقہ اور مستند حقیقت ہے کہ کوئی بھی ملک سائنس اور تحقیق میں ترقی کئے اور اس کلچر کو طرزِ زندگی بنائے بغیر ترقی یافتہ‘ خوش حال اور مضبوط نہیں ہو سکتا۔ آپ دفاع کے شعبے ہی کی مثال لے لیں ‘ عسکری دفاع علم فزکس کے سائنسدانوں ہی کا کارنامہ ہے ۔مگر عسکری دفاع کے بالکل برابر اب معاشی دفاع ہے کیونکہ ففتھ جنریش وار( پانچویں نسل کی جنگ) میں عسکری حدوں کے ساتھ معیشت کا مضبوط ہونا بھی ضروری ہے ۔ آپ جاپان ہی کی مثال لے لیں جو دوسری عالمی جنگ میں زمین بوس ہونے کے بعد سائنٹیفک تعلیم کے بل بوتے پر ہی دنیا کی بڑی معیشت کے طو ر پر ابھرا ہے۔ جاپان والے کہتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اگر آپ کو کوئی نئی بلڈنگ تعمیر ہوتی نظر آئی تھی تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ کسی تعلیمی ادارے کی بلڈنگ ہی ہو گی۔ عوامی جمہوریہ چین اس ترقی کی دوسری بڑی مثال ہے جہاں گزشتہ کم از کم پانچ دہائیوں میں علمی ترقی اور روزگار کے وسائل پیدا کرنے پر بھر پور توجہ دی گئی ؛چنانچہ ملکوں کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کے اعتبار سے دیکھیں تو چین اس وقت دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے۔ چین نے گزشتہ دو عشروں میں بہت تیزی سے ترقی کی ہے لیکن اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والی دہائیوں میں جس رفتار سے چین ترقی کرنے والا ہے اس کے مقابلے میں اس کی اب تک کی ترقی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
آپ تعلیم کے لیے نیا کچھ کرنے کی بجائے پہلے والی صورتحال ہی رہنے دیں تا کہ تعلیم سے وابستہ لوگ دوڑنا نہ سہی‘ چلنا بھی نہ سہی کم از کم رینگ کر ہی گزارا کر لیں ۔کسی استاد نے کیا کمال جملہ کہا تھا کہ جناب 'گھبرانا نہیں ‘کو چھوڑ کر 'پچھتانا نہیں‘کی صورتحال اور مرحلے سے گزر رہے ہیں۔تعلیم و تدریس کے مقدس پیشے سے وابستہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم کسی سے زیادہ گلہ اس لئے نہیں کر پاتے کہ ہمارے پیشے سے وابستہ لوگوں نے موجودہ حکومت کی پارٹی کو ہی ووٹ دیے تھے ۔اس کی بڑی وجہ جناب وزیر اعظم کی جانب سے اپنے علاقے میں ایک بین الاقوامی طرز پر بنائی جانے والی یونیورسٹی تھی ۔ اساتذہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے وزیر اعظم صاحب کی قیادت میں بننے والے کینسر ہسپتال کے لیے تعلیمی اداروں کی شکل میں سب سے زیادہ فنڈز اکٹھے کئے تھے ۔
یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اساتذہ کا ایم فل اور پی ایچ ڈی کا الاؤنس پانچ اور دس ہزار روپے ہے ‘اس الاؤنس میں پچھلے 20سالوں سے زیادہ عرصے میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ کمال حیرت کی بات یہ ہے کہ صوبہ سندھ میں یہی معاوضہ پندرہ اور پچیس ہزار روپے ہے ۔کم از کم اس معاوضہ کو بڑھانے میں تو حکومت کو کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے۔ پرویز مشرف دور میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو ایک اگلے گریڈ میں ترقی دی گئی مگر اس کے بعد آنے والی کسی حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی؛چنانچہ اساتذہ یہ گریہ کرتے ہیں کہ بانس کی فصل سے زیادہ تیزی سے بڑھتی روز مرہ کی اشیا اور بجلی کی قیمتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ یہ محسوس کرتے ہیں کے ان کی تنخواہیں'ڈی گریڈ‘ ہو رہی ہیں ۔اس کا ایک بڑا بھیانک منظر کسی بھی ایسے بینک میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو ملازمین لائنوں میں لگ کر تنخواہ وصول کرتے ہیں ۔یہاں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ زیادہ تر سرکاری ملازمین کی تنخواہ کا بڑا حصہ اسی بینک سے بھاری شرح سود پر حاصل کئے گئے قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہو جاتا ہے۔ اس موقع پر بھوٹان کے سربراہ کی اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر یاد آتی ہے جس میں انہوں نے برملا اور فخریہ انداز سے کہا تھاکہ ان کے ملک میں سب سے زیادہ تنخواہ اساتذہ کی ہے۔ آپ اگر پرائمری سکول کے اساتذہ کی تنخواہ کی slipدیکھیں تو دماغ Slip ہو جاتا ہے۔ بھلا کیوں سکول کا استا د بمشکل 20ہزار روپے لے پاتا ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے بھرتی ہونے والے اساتذہ کی تعلیم ماسٹر ڈگری اور ایم فل ہے۔گویا ایک ماسٹر یا ایم فل کی سطح کا تعلیم یافتہ شخص جسے نئی نسل کی تعمیر کا فریضہ سونپا گیا ہے وہ مزدور کی کم از کم اجرت کے تقریباًبرابر معاوضہ حاصل کررہا ہے ۔یہ اساتذہ کہتے ہیں کہ ہم اگر تعلیم حاصل کرنے پر لگائے گئے سال مزدوری پر لگاتے تو اب تک معماربن چکے ہوتے جو ماہانہ 45ہزار روپے تک کما لیتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ہم مقدس پیشے کی خاطر قربانی دینے کو تیار ہیں مگر کوئی یہ ہی سمجھا دے کی زندگی کا تقریباًہر شعبہ معمول پر چلنے کے باوجود سب سے پہلے اور زیادہ تعلیمی ادارے ہی کیوں بند کئے جاتے ہیں‘جبکہ سکولوں‘کالجوں اور یونیورسٹیوں میں صرف وہی لوگ آتے ہیں جن کو وائرس کی بیماری کا سب سے کم خدشہ لاحق ہے۔یاد رکھیں تعلیم پر خرچ ہونے والے پیسے کو اخراجات نہیں بلکہ روشن اور ترقی کے مستقبل کے لیے سرمایہ کاری کہا جاتا ہے ۔اس لئے گھبرائے بغیر‘ تعلیم سے وابستہ لوگوں کو زندہ رکھو ورنہ پچھتاوا ہو گا ۔