وبا اور جگنو

انسانی تاریخ کو تقسیم کرنے کیلئے BC اور AD کے معیار استعمال ہوتے ہیں۔ BC سے مراد Before Christہے یعنی پیدائشِ عیسیٰ (علیہ السلام) سے قبل۔ AD سے عام طور پر After Death لیا جاتا ہے جو کہ غلط ہے۔ AD کا مطلب Anno Domino یعنی مسیح کی پیدائش کا سال یعنی جس سال حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جنم لیا؛ تاہم 2019ء کے آخر میں ایک ایسی مہلک وبا دنیا میں وارد ہوئی جسے وبائوں کی دیوی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس وبا نے‘ جس نے چند ہی مہینوں میں پوری دنیا پر اپنے قدم جما لیے‘ جہاں دنیا کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا ہے وہیں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس نے تاریخ کو بھی دو نئے ادوار میں تقسیم کر دیا ہے۔ جی ہاں! اب BC سے مراد Before Corona لیا جائے گا، اسی طرح جب اس بیماری پر مکمل قابو پا لیا جائے گا تو اس دور کو AC یعنی After Corona کا نام دیا جائے گا۔ اس وقت پوری دنیا کا مرکزِ نگاہ کورونا کا مرض ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا، سیاستدان، سائنسدان، ڈاکٹر، عام آدمی‘ سبھی اسی بیماری کے متعلق بات، بحث اور بچائو کی تدابیر میں گھرے نظر آتے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات اس بیماری کی ویکسین کا مکمل موثر نہ ہونا ہے یعنی اس کی ویکسین لگوانے کے بعد بھی اس بیماری کے لاحق ہونے کا خدشہ موجود رہتا ہے اور لوگ دوبارہ بھی اس بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں اور ایسے کیسز سامنے بھی آئے ہیں مگر ابھی تک ایک ہی بات مکمل طور پر آزمودہ، طے شدہ اور حوصلہ افزا ہے‘ چلیں اسی امید کی روشنی کو بانٹتے ہیں۔
صحت و بیماری کی تاریخ انسانی تاریخ کے برابر قدیم ہے، یعنی جب سے انسان کا وجود ہوا ہے‘ صحت و بیماری کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، سوال یہ ہے کہ ماضی قدیم میں جب بیماری سے بچنے کی ویکسین اور ادویہ نہیں ہوتی تھیں‘ تب انسان کیسے بیماریوں کا مقابلہ کرتا تھا؟ اس کا جواب ہے کہ قدرت نے انسان میں ہر بیماری سے بچائو کی ایک تدبیر‘ ایک حل رکھا ہے جس کا نام ہے امیونٹی سسٹم، یعنی قوتِ مدافعت۔ کسی بھی بیماری سے بچنا ہے تو اپنے جسم میں مدافعت (Immunity) پیدا کرنا بلکہ مدافعت کی قوت کو بڑھانا اور برقرار رکھنا ہو گا۔ اس کیلئے بہت زیادہ وسائل یا خرچے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ آپ کو اپنے لئے کچھ وقت نکالنا پڑتا ہے۔ زندگی کو جنگی رفتار اور مقابلے کی کیفیت سے باہر لانا ہوتا ہے اور غذا کے معاملے میں سادگی اور خالص پن اپنانا ہوتا ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ ایسا کرتے ہوئے آپ کی خود ساختہ ترقی کی رفتار اور مقدار کم ہو سکتی ہے تو یاد رکھیں کہ یہ سب آپ کی زندگی سے مشروط ہے۔ جس طرح آپ اپنے عہدے، اپنی دولت، شہرت اور دیگر چیزوں کیلئے جنگی طرز پر مصروف رہتے ہیں، اب اسی طرح بیماری کے خلاف بھی جنگ لڑیں اور ایسا طرزِ زندگی اپنائیں کہ آپ کی قوتِ مدافعت میں اضافہ ہو سکے۔
سب سے پہلی بات یہ یاد رکھیں کہ وٹامنز انسانی جسم میں سب سے زیادہ مدافعت پیدا کرتے ہیں بالخصوص وٹامن سی اور ڈی۔ وٹامن سی آپ کو ایک دوائی نما گولی کے علاوہ لیموں، سٹرابری (یہ پھل آج کل بکثرت میسر ہے) میں ملے گا۔ اس کا دودھ کے ساتھ شیک بنانے کے بجائے ویسے ہی استعمال کریں یا جوس نکال کر پی لیں، البتہ رات کو سونے سے پہلے اس کا استعمال نہ کریں کیونکہ اس سے ریشہ پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ اسی طرح لیموں کو نیم گرم پانی میں ڈال کر پئیں، ٹھنڈا پانی پینے سے گریز کریں کیونکہ کورونا کی بیماری نزلے سے متعلق ہے‘ اس لئے پھیپھڑوں کو ٹھنڈی چیزوں سے بچائیں، حتیٰ کہ کھانا بھی ٹھنڈا نہ کھائیں، اسی طرح کولڈ ڈرنک اور آئسکریم سے مکمل پرہیز کریں۔ وٹامن ڈی خوراک میں کم ملتا ہے لہٰذا اس کو گولیوں کی صورت میں استعمال کیا جا سکتا ہے‘ ایک ماہ تک اس کا استعمال کافی ہوتا ہے۔ (یہ عمومی نسخے ہیں، بیماری کی صورت میں ڈاکٹر سے مشورہ کریں) واضح رہے کہ یورپ میں کورونا وائرس کے زیادہ ہونے کی ایک بڑی وجہ وہاں وٹامن ڈی کی کمی ہے، کیونکہ وٹامن ڈی کا سب سے بڑا قدرتی ذریعہ دھوپ ہے جو وہاں زیادہ میسر نہیں ہوتی۔ اس لئے آپ اپنی زندگی میں یہ اہم تبدیلی ضرور لائیں اور کم از کم آدھ گھنٹہ روزانہ دھوپ میں گزاریں، جب گرمی زیادہ بڑھ جائے گی تو آپ دن گیارہ بجے سے پہلے یا سہ پہر کو چار‘ پانچ بجے کے قریب دھوپ میں بیٹھ سکتے ہیں۔ ویسے بھی اس وقت کے دورانیے میں سورج کی شعاعوں میں Ultra voilet Rays کا خطرہ نہیں ہوتا۔ دھوپ میں وقت گزارتے وقت کوشش کریں کہ آپ کی پشت سورج کی طرف ہو، سیدھے منہ لیٹ کر پورے جسم کو دھوپ لگنے دیں۔
اگلی بات ہے خوراک کی‘ اس میں سب سے پہلے فلور مل کے آٹے کے بجائے چکی کا آٹا استعمال کریں، اس میں مکمل غذائیت ہوتی ہے۔ اپنی غذا میں پودینہ، لہسن، ادرک، لونگ اور دار چینی کا استعمال بڑھا دیں۔ ان چیزوں کی چٹنی بھی بنائی جا سکتی ہے۔ ادرک، پودینہ، دار چینی اور لونگ کا بنا ہوا قہوہ جس میں شکر یا شہد استعمال کیا جائے‘ کسی تریاق سے کم نہیں۔ اسے دن میں دو سے تین دفعہ ضرور پئیں۔ آپ اس قہوہ کا اثر تین دن میں واضح طور پر محسوس کرنا شروع کر دیں گے۔ اس قہوے میں لیموں بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ ہر گھنٹے کے بعد پانی پی کر Hydrated رہنا بھی امیونٹی کو بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو کم از کم آدھ گھنٹہ سیر ضرور کرنی چاہیے، اگر آ پ کی عمر 30 سال سے کم ہے تو دوڑ لگانی چا ہیے۔ سیر ہو یا دوڑ‘ یہ آ پ کے جسم کی چربی اور خون میں شامل فالتو اجزا جیسے کولیسٹرول وغیرہ کو کم کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔ گرمی کا موسم ہونے کی وجہ سے پسینہ بہتا رہتا ہے، کوشش کریں کہ پسینہ بہتے رہے کیونکہ جو پسینہ بہانے کے عادی ہوتے ہیں انہیں خون نہیں بہانا پڑتا، یعنی پسینے کا بہنا آپ کو بہت سی بیماریوں سے بچاتا ہے، البتہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے دیں۔ اس کے ساتھ ایک اہم بات کھلی اور ہوادار جگہ پر وقت گزارنا ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ تھوڑی سی گرمی پڑنے پر ڈائریکٹ ایئر کنڈیشنر چلانے کے بجائے چھت پر سونے کی کوشش کریں یا مئی اور جون کے شدید گرمی کے مہینوں میں ایئر کولر پہ گزارہ کریں۔
آخر میں ذکر ایک ایسی اہم دوا نما ترکیب کا‘ جسے Feel Good Factor کہتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنا موڈ اور ماحول‘ دونوں خوشگوار رکھیں۔ ایسے رشتہ دار اور دوستوں کی صحبت میں وقت گزاریں جو زندگی میں میسر بنیادی ضرورتوں پر خوش رہتے ہیں، امید بنتے اور امید بانٹتے ہیں۔ یاد رکھیں! بنیادی ضرورتیں وہ چیزیں ہیں جن سے زندہ رہا جا سکتا ہے یعنی جو زندہ رہنے اور بقا کیلئے ضروری ہوتی ہیں جبکہ تعیش پسند اشیا کی لالچ اور خواہشیں زندگی کو مشکل اور ادھورا کر دیتی ہیں۔ اسی طرح ہر وقت ان لوگوں سے رابطے میں رہنے کی کوشش نہ کریں جن سے آپ کو کوئی کام یا غرض ہے۔ اس طرز کو فی الفور ترک کر دیں، اس طرزِ زندگی کو Contractual Life کہتے ہیں، جس نے انسان کو حیوانی مشین بنا کر رکھ دیا ہے۔ مغربی ممالک اسی مہلک طرزِ زندگی کی وجہ سے طرح طرح کے نفسیاتی اور جسمانی عوارض کا شکار ہو رہے ہیں۔ چونکہ ان کا خاندانی نظام تقریباً ختم ہو چکا ہے اس لیے وہاں لوگ تنہا ہو کر رہ گئے ہیں جس کا بالآخر نتیجہ کثرتِ مے نوشی یا خود کشی کی صورت میں سامنا آ رہا ہے، لہٰذا اس امر پر بغور توجہ دیں اور اپنی روز مرہ زندگی میں بغیر کسی غرض کے لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ اگر امیر ہونے یا کسی عہدہ پر براجمان ہونے کی وجہ سے آپ نے دوستوں وغیرہ کو نظر انداز کر دیا ہے تو ان سے روابط قائم کریں۔ یہ وبا آپ کو حقیقی زندگی کی طرف پلٹنے کا درس دے رہی ہے۔ اگر آپ پروٹوکول اور غرض سے بھرپور زندگی گزار رہے ہیں تو آپ کی حیثیت ایک سانس لینے والی مشین کی سی ہے۔ کوشش بہرصورت جاری رکھیں، سورج غروب ہو جاتا ہے مگر قمر ہر روز نہیں طلوع ہوتا (چاند مرضی کے دنوں میں ہی نکلتا ہے)، اس لئے جگنو بنیں یا جگنو سے روشنی ادھار لیں مگر تاریکی کی مخالفت ضرور کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں