Oppression Blue Star! اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ لفظ oppression غلطی سے ٹائپ ہو گیا ہے اور یہاں Operation ہونا چاہئے تھا کیونکہ ہمیشہ سے یہی پڑھتے اور سنتے چلے آ رہے ہیں تو آپ اپنی جگہ پر ٹھیک ہوں گے کہ یہ اندرا گاندھی کی جانب سے سکھوں کے مقدس ترین مذہبی مقام اور سب سے بڑی عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر انڈین آرمی کے ذریعے کیا جانے والا آپریشن نما ظالمانہ حملہ تھا جس میں سات بٹالین آرمی چند سو مسلح لوگوں سے چند مربع کلومیٹر کا علاقہ خالی کروانے کے لیے ان پر چڑھ دوڑی تھیں۔ اس آپریشن میں انڈین آرمی کی تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تعداد پورے عراق کے اندر آخری آپریشن میں امریکا کی کل آرمی سے زیادہ تھی۔ اسی لئے ماہرین 1984ء کے جون کے مہینے کے پہلے آٹھ دنوں تک جاری رہنے والے انڈین آرمی کے حملے کو Operation کے بجائے Oppression کا نام دیتے ہیں۔ یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ اس حملے سے پہلے اس وقت کے تمام ذرائع ابلاغ یعنی ٹیلی فون کی تمام لائنز کاٹ دی گئی تھیں، میڈیا کا مکمل بلیک آئوٹ کیا گیا تھا اور علاقے کی تمام سڑکیں حتیٰ کہ ریل بھی بند کر دی گئی تھی۔ یہ جدید دنیا کی تاریخ کا عجیب و غریب حملہ تھا جس میں ایک مخصوص مذہب اور اس کی سب سے بڑی عبادت گاہ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ عجیب اس لیے کہ مذہبی شناخت کی حامل جگہ پر حملہ کیا گیا تھا اور غریب اس لیے کہ چھوٹے سے علاقے بلکہ بلڈنگ کو خالی کروانے کے لیے بھارتی آرمی ٹینک لے کر آئی تھی۔ حالات کی تلخی اور انڈین حکومت اور فوج کی پتلی حالت یا غربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس آپریشن کا انچارج میجر جنرل بی ایس براڑ تاحال ایک مفرور کی سی زندگی گزار رہا ہے۔ اس پر آخری حملہ برطانیہ میں 2012ء میں ہوا تھا۔ سکھوں کے خلاف یہ آپریشن بھارت کو کافی مہنگا پڑا کیونکہ ایک طرف اس آپریشن سے خالصتان کی تحریک میں کافی تیزی آئی تو دوسری جانب چن چن کر بھارتی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنایا گیا۔ اس وقت کے انڈین آرمی چیف اے ایس واڈیا کو آپریشن کے دو سال بعد 1986ء میں قتل کر دیا گیا تھا جبکہ وزیراعظم اندرا گاندھی کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ وہ آپریشن کے چار ماہ بعد ہی 31 اکتوبر کو اپنے محافظوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ گئی تھیں۔ اسی طرح اس آپریشن کے بعد اگلے بھارتی وزیراعظم سے قدرے صلح جو معاہدہ کرنے والے بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ ہرچند سنگھ لونگووال کو بھی آپریشن کے ایک سال بعد 1985ء میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اسی ضمن میں ایک اور حوالہ اس تاریخی واقعے میں آپ کی دلچسپی بڑھا دے گا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ 1982ء کی ایشین گیمز بھارت میں ہوئی تھیں‘ چونکہ اس وقت بھارتی میں خالصتان تحریک زوروں پر تھی تو سکھوں نے اعلان کر دیا کہ ان کے مطالبات منظور کیے جائیں‘ ورنہ وہ ایشین گیمز کے موقع پر بھرپور مظاہرے کریں گے۔ اس اعلان کے بعد پورے بھارت کے سکھوں کو سخت قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا‘ جگہ جگہ انہیں تلاشیوں کا سامنا کرنا پڑا جس کو انگریزی میں Frisking کہا جاتا ہے۔ حد تو یہ تھی کہ اعلیٰ ترین عہدوں پر تعینات انڈین فورسز کے افسروں کو بھی نہیں بخشا گیا تھا۔ یہ وہی ایشین گیمز ہیں‘ جن میں ہاکی کا فائنل پاکستان اور بھارت کے مابین کھیلا گیا تھا اور خیال کیا جا رہا تھا کہ بھارتی ہاکی ٹیم بہ آسانی یہ میچ جیت جائے گی۔ اس میچ میں اندرا گاندھی مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے آئی تھیں۔ پہلا گول بھارت نے کر دیا مگر اس کے بعد یکے بعد دیگرے پاکستان نے پانچ گول کیے تو اندرا گاندھی سفارتی آداب اور سپورٹس مین سپرٹ کو روندتے ہوئے میچ محض اس لیے ادھورا چھوڑ کر چلی گئی تھیں کہ انہیں اپنے ہاتھوں سے پاکستانی کھلاڑیوں کو گولڈ میڈل نہ پہنانے پڑیں۔ یہ میچ پاکستان نے ایک کے مقابلے میں سات گول سے جیتا تھا۔ بعد ازاں اس وقت کے بھارتی صدر گیانی ذیل سنگھ نے کھلاڑیوں میں میڈل تقسیم کیے تھے۔ یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ بھارتی پنجاب میں سکھوں کی سخت گیر تلاشی اور انہیں ہراساں کرنے والے ڈی آئی جی اتوال بھی 1983ء میں قتل ہو گئے تھے۔
بھارت کے سکھوں کی آزادی کی تحریک یوں تو تقسیم ہند کے بعد ہی شروع ہو گئی تھی کیونکہ خودمختار صوبہ تو کجا‘ بھارت 1967ء تک سکھ اکثریتی صوبے پنجاب میں کوئی سکھ وزیراعلیٰ تک نہیں بنا سکا تھا۔ گویا بیس سال تک بھارتی پنجاب‘ جس کی آبادی کا ساٹھ فیصد سکھ ہیں‘ میں تمام وزیراعلیٰ ہندو ہی آتے رہے۔ 1973ء میں سکھوں نے آنندپور میں اپنے حقوق کیلئے ایک قرارداد پاس کی جس کو منوانے کیلئے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے نئے سرے سے آزادی کی تحریک شروع کی۔ اس سلسلے میں 1981ء میں بھارت میں ہونے والی مردم شماری میں ایک نیا تنازعہ ایک ہندو صحافی کی تحریک نے کھڑا کر دیا۔ اس صحافی کا نا م لالہ جگت نارائن تھا جس نے بھارتی پنجاب کے ہندوئوں کو اکسایا کہ وہ اپنی مادری زبان پنجابی کے بجائے ہندی لکھوائیں۔ یہ کشمکش اور چپقلش اتنی بڑھی کہ اس صحافی کا بھی قتل ہو گیا۔ یہاں ایک اہم بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ بھارتی پنجاب کو تین حصوں میں پہلے ہی تقسیم کیا جا چکا تھا۔ بھارت میں سکھ کل آبادی کا بمشکل دو فیصد ہیں جبکہ بھارتی فوج میں ان کا تناسب آٹھ سے دس فیصد ہے‘ اس کی ایک بڑی وجہ اس قوم کی دلیری اور جوانمردی بھی ہے۔ بھارت کے اندر سکھوں کو چونکہ نظر انداز کیا گیا تھا اور واضح طور پر انہیں برہمن کی تنگ نظری کا سامنا کرنا پڑتا تھا‘ اس لئے 1970ء کی دہائی میں بالخصوص اس قوم کے لوگ کینیڈا‘ امریکا اور دیگر مغربی ملکوں کو جانا شروع ہو گئے تھے۔ اس وقت بھی تقریباً پچاس لاکھ سے زائد سکھ بھارت سے باہر مقیم ہیں۔ اسے سکھ Diaspora بھی کہا جاتا ہے‘ یعنی سکھوں کو بہ امر مجبوری انڈیا چھوڑ کر جانا پڑا اور یہی خالصتان کی تحریک کے روحِ رواں تھے۔ اگرچہ اب ان سکھوں کی اگلی نسل آ چکی ہے مگر خالصتان کو لے کر یہ اب بھی کافی سنجیدہ ہے اور سالِ رواں سکھوں نے اقوام متحدہ کے سامنے کووڈ وبا کے باوجود بڑی تعداد میں اکٹھے ہو کر مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے کی اہم بات سکھ بچوں کے درمیان سانحہ گولڈن ٹیمپل کی یاد میں ہونے والا تصویری نمائش کا مقابلہ تھا۔ مقصد یہ تھا کہ سکھ بیرونِ ملک پیدا ہونے والی نسل کو اپنے ماضی کے حوالے سے آگاہ رکھیں۔ واضح رہے کہ اس وقت کینیڈا کا وزیر دفاع ایک بھارتی سکھ ہے اور اس نے 2017ء میں جون میں گولڈن ٹیمپل کی یاد میں ایک مظاہرے کا اہتمام بھی کروایا تھا جس میں کینیڈا کے وزیراعظم نے بھی اپنے سر پر خالصتان کے جھنڈے کے رنگ کا کپڑا پہن کر شرکت کی تھی۔ بعد ازاں اسی سکھ وزیر کے دورۂ بھارت کے موقع پر بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے اس سے احتجاجاً ملاقات بھی نہیں کی تھی۔ یہاں ایک اور تاریخی حوالے کا ذکر بہت ضروری ہے‘ وہ یہ کہ جب اندرا گاندھی سے خالصتان کی تحریک کے بارے میں سوال کیا گیا تھا تو انہوں نے یہ کہہ کر اس تحریک کو رد کرنے کی کوشش کی تھی کہ خالصتان تحریک کا بھارت میں کوئی وجود نہیں اور یہ صرف کینیڈا اور برطانیہ کی حد تک ہی ہے حالانکہ بعد میں وہ اسی تحریک کے تناظر میں قتل ہوئی تھیں۔
بھارت ویسے تو سیکولر ملک ہونے کا دعویدار ہے مگر آج اس کے ایک انوکھے روپ کا درشن کرواتے ہیں۔ بھارت کی ہر تقریب میں مہورت وغیرہ کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ بھارت کی آزادی کے حوالے سے بنائی جانے والی ڈاکیومنٹری میں بھی دکھایا گیا ہے کہ 15 اگست 1947ء کو حلف اٹھانے سے پہلے نہرو پر گنگا جل چھڑکا گیا تھا۔ اسی طرح بھارت نے 1974ء اور 1998ء میں دونوں مواقع پر ایٹمی دھماکوں کیلئے11 مئی کا دن صرف اس لیے چنا تھا کہ یہ بدھ مت کے بانی کا جنم دن تھا اور بدھا دنیا میں امن کی پہچان کے طور جانے جاتے ہیں۔ اسی طرح سکھوں پر بڑے حملے کیلئے 1984ء میں 3 جون کا دن چُنا گیا تھا جو سکھوں کے ایک گرو کی وفات کا دن ہے۔ اسی طرح اس آپریشن کیلئے ایک سکھ جرنیل کا انتخاب کیا گیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت کو ماہرین ''ہندو سیکولر‘‘ بلکہ ''سیکولر برہمن بھارت‘‘ اور 1984ء کے سانحہ کو Oppression Blue Star کہتے ہیں ۔