زندگی گزارنے کے اصول، کامیابی کے نسخے، امیر ہونے کے طریقے، کامیاب لوگوں کی عادات وغیرہ‘ یہ وہ الفاظ ہیں جن کے عنوان سے کتابوں کی کتابیں لکھی جاتی ہیں اور موٹیویشنل سپیکرز سحر طاری کرنے والی تقریریں کرتے ہیں۔ بھلے انہوں نے زندگی بھر کوئی بھی بڑا امتحان پاس نہ کیا ہو اور نہ ہی کسی اور میدان میں خاص کامیابی حاصل کی ہو مگر لوگوں کو وہ ضرور ایسے طریقے بتاتے ہیں جن سے کامیاب ہوا جا سکے بلکہ یوں کہیں کہ وہ یہ طریقے یا نسخے بتانے کے ہی پیسے لیتے ہیں۔ زندگی مگر بہت ساری کروٹیں بدل چکی ہے اور ان ''کروٹوں‘‘ کو دریافت بھی کیا جا چکا ہے مگر لوگ اس پر بات یا تو بہت کم کرتے ہیں یا جو لوگ کرتے ہیں ان کی باتوں کو سنا بہت کم جاتا ہے، جتنا سنا جاتا ہے‘ اس کے مطابق اس کو سمجھنا مزید کم ہو جاتا ہے اور جتنا سمجھ لیا جاتا ہے‘ اس پر عمل کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ آج دنیا کے ایسے ہی دانا لوگوں کی باتیں آپ کے ساتھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سب سے پہلے امریکا کے ایک خاندان کی تین نسلوں کی وہ ریسرچ ہے جو اس خاندان نے ایک سکول کے بچوں پر‘ ان کے بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کی۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ امریکا میں ایک شخص ایک سکول میں گیا اور تمام بچوں کا ڈیٹا حاصل کیا، مطلب بچوں کے والدین کی مالی حیثیت، بہن بھائیوں کی تعداد وغیرہ جیسی معلومات حاصل کیں۔ یہ بچے بڑے ہو کر ہائی سکول، کالج اور پھر یونیورسٹیز میں گئے مگر ریسرچ کرنے والے کے بیٹے نے یہ تحقیق جاری رکھی۔ وہ بچے عملی زندگی میں آ گئے اور زندگی کے مختلف شعبہ جات سے وابستہ ہو گئے مگر تحقیق کرنے والا خاندان ان لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہا اور ان لوگوں کے حالات اور معاملات سے پوری طرح باخبر رہا۔ اس ریسرچ کا بنیادی نکتہ ان افراد کی مالی حیثیت، عہدے اور آرام و سکون پر نظر رکھنا تھا۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور جن لوگوں پر تحقیق ہو رہی تھی وہ بڑھاپے کی طرف ڈھلک گئے حتیٰ کہ آہستہ آہستہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ادھر کھوج کرنے والے خاندان کی بھی تیسری نسل آ گئی تھی اور یہ تیسری نسل اس تحقیق کو مکمل کر کے اس کے نتائج کو منظر عام پر لایا۔ اس کھوج کا نچوڑ بہت مختصر مگر بہت اہم ہے۔ یہ نچوڑ کچھ اس طرح ہے کہ بڑے عہدوں اور امیر طرزِ زندگی کے بجائے جو لوگ رشتے نبھانے میں بھرپور رہے‘ وہی لوگ زیادہ پُرسکون اور ذہنی طور پر امیر رہے، خاص طور پر جیسے جیسے عمر ڈھلتی گئی‘ لوگ روپے پیسے سے زیادہ رشتہ داریوں کو فوقیت دینے کو ترجیح دینے لگے۔ اس نظریے کو ''خدا اور خاندان‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ جو لوگ خدا یعنی مذہب کی تعلیمات پر قائم رہتے ہیں‘ ان میں زر پرستی کم ہوتی ہے اور وہ لوگوں کے ساتھ رابطے بلکہ مددگاری کی فضا میں رہتے ہیں جس سے ان میں ذہنی سکون کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خوشی اور غمی میں میزان برقرار رکھتے ہیں۔ مذہب کے ساتھ وابستہ رہنے والے لوگ لازم بات ہے کہ اپنے خاندانی رشتوں میں بھی بھرپور ہوتے ہیں اور اس سلسلے میں خوش نصیب خاندان وہ مانے جاتے ہیں جہاں دادا اور پوتا ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہیں، اس ذہنی سوچ کے حامل لوگوں میں دوستی کی دولت بھی ہوتی ہے۔ یہ تحقیق یوٹیوب پر بھی موجود ہے جس میں خاندان کی تیسری نسل کا فرد اس کو منظر عام پر لاتے ہوئے پوری تفصیل بیان کرتا ہے۔
اس ریسرچ کے خزانے کو مزید سمجھنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ کورونا کی وبا کے دوران امریکا جیسے امیر ملک میں وبا کے علاوہ ہلاکتوں کی بڑی وجہ خود کشی اور ضرورت سے زیادہ مے نوشی تھی۔ واضح رہے کہ امریکا میں اوسط خاندان صرف دو افراد پر مشتمل ہے یعنی میاں اور بیوی بلکہ میاں بیوی بھی ہماری زبان میں اکثر وہاں شادی کا تکلف بھی نہیں کیا جاتا، یا پھر طلاق کے بعد‘ ایک بچہ ماں یا باپ کے ساتھ رہتا ہے‘ اس کو سنگل پیرنٹ فیملی کہا جاتا ہے۔ مغر بی دنیا کے ممالک اپنے اعداد و شمار میں خود یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے ہاں پچاس فیصد سے زیادہ شادیاں طلاق پر منتج ہوتی ہیں۔ اس سے بھی بڑی مشکل یہ ہے کہ شادی کا تصور ختم ہوتا چلا جا رہا ہے، نوبت یہاں تک بھی پہنچ چکی ہے کہ کچھ حلقوں نے مطالبہ کیا تھا کہ مختلف قسم کے فارم بھرتے ہوئے والد اور والدہ کا علیحدہ علیحدہ نام پوچھنے کے بجائے دونوں میں سے ایک کا نام پوچھا جائے۔
اس کے برعکس ہم دیکھیں تو مشرقی معاشروں بالخصوص مسلم ممالک میں یہ تناسب خاصا کم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرق کے مادہ پرست ممالک چین اور جاپان‘ جنہیں عمومی طور پر مضبوط خاندانی تصور کا حامل سمجھا جاتا ہے‘ میں بھی خاندان کا ادارہ زوال پذیر ہے۔ جاپان میں طلاق کی شرح 35 فیصد جبکہ چین میں 44 فیصد ہے۔ یورپی یونین ممالک میں یہ تعداد اوسطاً 45 فیصد ہے۔ واضح رہے کہ یہ رجسٹرڈ شادی کے بعد ہونے والی طلاق کے اعداد و شمار ہیں۔ اگر مغربی معاشرت کے مطابق‘ ایک جوڑے کے علیحدہ ہونے یعنی ''بریک اَپ‘‘ کو بھی اس میں شمار کیا جائے تو یقینا یہ شرح 70 فیصد سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ اکثر مغربی ممالک میں شادی کے تیس، چالیس حتیٰ کہ پچاس سال بعد بھی طلاق کے واقعات عام دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہمارے ہاں بل گیٹس اور میلنڈا کی 27 سال بعد طلاق کو اچنبھے کی بات سمجھا گیا مگر مغرب کے ہاں اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ اگر ہم اس پس منظر میں دوبارہ غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ مغرب عملی زندگی میں مکمل دیانت دار، کرپشن فری، وقت پر کام کرنے والا، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی سے پاک معاشرہ ہے مگر یہ تمام صفات بھی مغرب میں دو چیزیں یعنی خدا کا تصور اور خاندان نہیں بچا سکیں۔ برطانیہ میں 1990ء سے 1997ء تک وزیراعظم رہنے والے جان میجر نے اپنی دوسرے الیکشن مہم میں اعلان کیا تھا کہ جو برطانوی شہری اپنے بوڑھے ماں باپ کو گھر میں اپنے ساتھ رکھیں گے‘ ان کو ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے گی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ ایک انقلابی قدم ہو گا جو نہ صرف اس کو الیکشن جتوائے گا بلکہ معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی بھی لائے گا مگر اس اعلان کا بھی خاطر خواہ اثر نہ ہوا اور ٹیکسوں میں چھوٹ کی ترغیب لوگوں میں بالکل بھی مقبول نہ ہو سکی۔ اس سے ہٹ کر مغرب میں جو جرم بہت نمایاں ہے‘ جو مغرب کے ساتھ ساتھ ہمارے میڈیا بھی زیادہ نمایاں نہیں ہو پاتا وہ صرف سرعام فائرنگ کر کے معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دینے کے واقعات ہیں جو پچھلے کئی سالوں سے تواتر سے پیش آ رہے ہیں۔ ان واقعات کی وجہ دہشت گردی نہیں بلکہ فائرنگ کرنے والوں کا ذہنی اضطراب، بے چینی اور ہیجان ہے جو اس چیز کا متقاضی ہے کہ مغربی دنیا کو خدا اور خاندان کی بہت زیادہ ضرورت ہے بلکہ یہ دونوں مغرب کے لیے ناگزیر ہیں۔
اب تھوڑا غور کیجئے تو آپ کو ایک بھیانک حقیقت کا پتا چلے گا۔ آپ اس کو ایک پاکستانی کی کھوج بھی کہہ سکتے ہیں اور وہ حقیقت اس طرح ہے کہ مغربی دنیا نے بے پناہ ترقی کی، علم‘ ریسرچ‘ ایجادات کی انمٹ تاریخ رقم کی ہے اور کر رہی ہے۔ اسی دوڑ میں وہ جانے انجانے طور پر وہ خدا، خلقت (لوگ) اور خاندان سے دور ہو گئی اور معاشرے بے راہ روی کی روش پر چل پڑے، لیکن اگر آپ اپنے معاشرے پر غور کریں تو جنسی بے راہ روی کی ایسی ایسی داستانیں منظر عام پر آ رہی ہیں کہ محقق یہ بات سوچنے پر مجبور ہے کہ ہم نے تو ترقی کی شاہراہ تو درکنار بلکہ کسی چھوٹی سڑک یا کسی کچے رستے پر بھی نہیں قدم رکھا تو پھر یہ بے راہ روی، ملاوٹ، کرپشن، ذخیرہ اندوزی کے عفریت کہاں سے ہمارے معاشرے میں نمودار ہو گئے۔ مغرب کے مقابلے میں ہمارا معاملہ متضاد سطح پر کھڑا ہے ہمارے ہاں یہ سب خدا سے دور ہونے کے سبب نہیں بلکہ بیشتر صورتوں میں بنامِ خدا ہو رہا ہے۔